- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


علامہ محمد اقبال شاعر معاشرتی انصاف اور آزادی کا شاعر
23 ربيع الاخير 1443هـ

پاکستان کے عظیم شاعر،فلسفی اور مفکر ڈاکٹر محمد اقبال کے بارے میں بات کرنا آسان نہیں ہے۔علامہ اقبال کی زندگی کے ہر میدان میں مشعل راہ ہیں اور ان کی تخلیقی صلاحیتیں قابل تقلید ہیں جو راستہ دکھاتی ہیں۔علامہ اقبال ان چند دانشوروں میں سے ہیں جن کی پوری زندگی علم و جدو جہد سے عبارت ہے اور آپ نے پوری زندگی انسانیت کے لیے وقف کر دی۔

علامہ اقبال ان چند لوگوں میں سے ہیں جن کی زندگی تخلیقی کاموں سے بھری ہوئی ہے اور ان کے کام میں تنوع پایا جاتا ہے۔آپ ایسے شاعر ہیں جنہوں نے تمام انسانیت کے لیے عظیم پیغام دیا ہے آپ شاعری میں بھی جذبات کو عقل پر مسلط نہیں ہونے دیتے ۔اقبال ایک ایسا مفکر ہے جس نے اسلامی تہذیب کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی بات کی ہے اور اسلامی تہذیب کی بنیاد ہی حسن خلق پر ہے۔اقبال ایسے فلسفی ہیں جنہوں نے مابعدالطبیعات کا مطالعہ کیا اور فلسفہ کو مذہب سے جوڑنے کی کوشش کی۔ آپ اسلام کو ایک عقیدہ اور ایک نظام کے طور پر قبول کرتے ہیں۔اقبال نے معاشرے میں موجود بے حیائی،انحطاط اور انحراف کا مقابلہ کیا اور مسلمان قوم کے سماجی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی۔ اقبال سیاست میں آئے اور اس میں شب و روز ایک کیا۔مشکل وقت میں قوم کے ساتھ کھڑے ہوئے،ہندوستان کے مظلوم مسلمانوں کی آزادی کے لیے ان کی جنگ لڑی۔

فارسی کا عظیم شاعر عمر خیام کہتا ہے کہ آپ مشرق کے چار عظیم لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے امت کو جگانے کی کوشش کی ہے باقی تین میں جمال الدین افغانی،محمد عبدہ اور رحمن الکوکیبی ہیں۔اقبال اسلامی اور انسانی فکر کے رہنماوں میں سے ہیں۔علامہ اقبال کی پوری زندگی مختلف موضوعات پر حق و انصاف پر مبنی پیغام دیتے ہوئے گزری۔آپ نے اسلام کا خوبصورت پیغام اس کے خوبصورت اور دلکش معانی کے ساتھ بہترانداز کو اختیار کرتے ہوئے پہنچایا۔ آپ نے اخوت اور بھائی چارے پر مبنی پیغام پہنچایا، آپ کے پیغام میں حریت،انصاف اور سلامتی کا پیغام ہے۔ آپ نے اپنے پیغام کو بہت سے ذرائع کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا۔ علامہ اقبال اپنے وطن کی آزادی کے خواہاں تھے۔آپ نسلی پرستی ،فرقہ واریت اور انتہا پسندی سے نفرت کرنے والے عظیم مصلح تھے۔آپ کا کلام چاہے تقریر کی صورت میں ہو یا تحریر کی صورت میں ہو سوئی قوم کی روحوں کو جگاتا ہے۔آپ نے حب الوطنی اور وفاداری کے جذبے کو جگایا۔آپ کی شاعری کی بنیاد انسانیت پر ہے آپ نے انتہائی مخلص انداز میں سچے ایمان کے ساتھ لوگوں کو دعوت دی۔ آپ نے اپنے فن کو اس نظریہ کے مطابق استعمال کیا کہ فن معاشرے کی بہتری کے لیے ہوتا ہے آپ ایک فلسفی تھے آپ نے مادہ پرستوں کو ٹھکرایا اور انحرافی نظریات کو رد کیا۔

شخصی اوصاف

علامہ محمد اقبال مشہور فلسفی  28-2-1873  کو ایک متوسط خاندان میں پیدا ہوئے جو سیالکوٹ میں رہتا تھا اور ان محنت مزدور ی کے ساتھ زراعت کو بطور پیشہ اختیار کیے ہوئے تھا۔سیالکوٹ پنجاب کا ایک علاقہ ہے یہ اس وقت ہندوستان کا ایک حصہ تھا کیوں پاکستان نہیں بنا تھا پاکستان بعد میں ہندوستان سے الگ ہوا۔

اقبال کا خاندان صدیاں پہلے بت پرست تھا ہندوستان کے مشہور مسلمان بادشاہ اکبر کے زمانے میں انہوں نے اسلام قبول کیا آپ کے خاندان کا تعلق آریائی نسل سے ہے۔اقبال کا خاندان کشمیر کے ایک گاوں لوہر میں رہتا تھا۔علامہ محمد اقبال کے دادا تلاش معاش کے سلسلے میں سیالکوٹ منتقل ہوئے اس وقت اقبال کے والد نور محمد بھی باقی اولادوں کی طرح ساتھ تھے۔ اور پھر اس پرسکون اور خوبصورت شہر میں آباد ہو گئے۔

اقبال اپنی والدہ محترمہ کی تربیت میں ان کے ساتھ رہے اقبال کی والدہ ایک انتہائی نیک،پاکباز،متقی اور بھلائی سے محبت کرنے والی خاتون تھیں۔انہوں نے یہ اچھائیاں اپنے والد سے وراثت میں پائی تھیں۔آپ نے پڑھنا لکھنا،اخلاق اور حسن تعامل انہی سے سیکھا۔اس کے بعد آپ نے قرآن کی تعلیم اور اس کے معارف کی تعلیم اپنے والد سے لی آپ کے والد کہا کرتے تھے اے بیٹے جب قرآن کو پڑھنے لگو تو اس جذبے کے ساتھ پڑھو کہ جیسے تمہارے لیے نازل ہوا ہے۔اقبال کہتے ہیں جب سے میں نے اپنے والد کی یہ وصیت سنی اس دن سے میں نے قرآن پر غو ر و فکر شروع کر دیا مجھ پر معانی قرآن کے نور کی برسات ہو گئی اس سے میں فائدہ اٹھایا اور اس کی اعلی تعلیمات کو شاعری کی صورت آگے پہنچایا۔

جب آپ نے ابتدائی تعلیم کو مکمل کر لیا تو آپ کالج میں داخل ہوئے جہاں آپ نے عربی اور فارسی زبان کی بالخصوص تعلیم پائی۔یہاں آپ کے استاد شمس العلما مولوی سید میر حسن تھے۔اقبال کی زندگی پر ان کا بہت زیادہ اثر ہے انہوں نے ہی آپ کو شعر لکھنا سکھایا۔اسی وقت اقبال نے ہندوستان کے جرائد و صحائف میں معاشرتی اور ادبی موضوعات پر مقالات لکھنا شروع کر دیے۔

کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں اعلی تعلیم کے لیے منتقل ہوئے۔آپ نے کالج کی طرف سے داخلے کے لیے منعقدہ امتحان کو امتیازی حیثیت سے پاس کیا اور کالج میں امتیازی حیثیت سے داخل ہوئے۔کالج آپ کے لیے وسیع مواقع لے کر آیایہاں پر آپ کی ملاقات بڑے بڑے علما سے ہوئی کچھ مسلمان تھے اور کچھ دیگر مذاہب کے ماننے والے تھے۔یہیں پر آپ مشہور مستشرق تھامسٹر آرنلڈ سے ملے جس نے اسلام کی دعوت نام کی کتاب لکھی ہے اقبال اس سے بہت زیادہ متاثر ہوئے۔

یہیں پر اقبال کی ملاقات شیخ عبدالقادر سے ہوئی جن کا مشہور مجلہ مخزن تھا اس میں اقبال کی شاعری اور اقبال کے مضامین چھپا کرتے تھے۔آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفہ میں ایم اے کیا آپ کو فلسفہ اور تاریخ کے استاد کے طور پر نوکری دی گئی۔ پھر آپ لندن چلے گئے اور کیمرج یونیورسٹی میں پڑھنے لگے یہ ۱۹۰۵ کا سال تھا۔یہاں آپ نے فلسفہ اخلاق کی ڈگری لی یہاں پر آپ نے یونیورسٹی کے سٹیج پر بہت سے لیکچر دیے۔

اقبال علمی و فکری میراث اپنے لوگوں کو دینے وطن لوٹ آئے۔اس کے بعد آپ جرمنی تشریف لے گئے تاکہ وہاں سے ڈاکٹریٹ کر سکیں جس میں آپ کا موضوع فارس میں ما بعد از طبیعات کا مطالعہ تھا اور یہ ۱۹۰۸ کا سال تھا۔

اقبال کا دور غلامی اور ظلمت کا دور ہے جس میں ہر طرف،غربت،جہالت،بیماری اور فکری و ثقافتی پسماندگی اپنے عروج پر تھی۔اقبال قرآن کے اعلی اصولوں کی بات کرتے ہیں کہ ہمیں قرآن کے اصولوں کی طرف آنا ہو گا،ہمیں اختلاف،فرقہ واریت،انتہاء پسندی اور تقسیم در تقسیم سے باہر نکلنا ہو گا۔یہ سب چیزیں برطانوی حکومت ہندوستان میں ایک پالیسی کے ساتھ کر رہی تھی۔اقبال نے اپنے سیاسی نظریات اور حب الوطنی کا اظہار کیا اور مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگایا۔انہوں نے اسلامی تعلیمات کی تعبیر نو کی بات کی،اقبال نے شعر اور نثر ہر دو میں اپنے خیالات کا اظہار کیا آپ فرماتے ہیں:

وہ سحر جس سے لرزتاہے شبستان وجود

ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا

الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن

ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور

وہ سجدہ ، روح زمیں جس سے کانپ جاتی تھی

اسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب

علامہ اقبال فرقہ واریت کے شدید خلاف تھے اس لیے آپ کا کلام فرقہ واریت کے خلاف ایک استغاثہ ہے اقبال کہتے ہیں:

منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک

حرَمِ پاک بھی، اللہ بھی، قُرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

اقبال نے ذاتی خواہشات کی بنیاد پر فرقہ بندی سے ڈرایا ہے:

وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں

چھُپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامۂ محشر یہاں

وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے

دیکھ! کوئی دل نہ دُکھ جائے تری تقریر سے

پھر اقبال لوگوں کو محبت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت دیتا ہے جن کے پیغام میں مسلمانوں کے درمیان محبت و الفت کا سبق ہے:

خوب ہے تجھ کو شعارِ صاحبِ یثرِبؐ کا پاس

کہہ رہی ہے زندگی تیری کہ تُو مسلم نہیں

جس سے تیرے حلقۂ خاتم میں گردُوں تھا اسیر

اے سلیماں! تیری غفلت نے گنوایا وہ نگیں

وہ نشانِ سجدہ جو روشن تھا کوکب کی طرح

ہوگئی ہے اُس سے اب ناآشنا تیری جبیں

دیکھ تو اپنا عمل، تجھ کو نظر آتی ہے کیا

وہ صداقت جس کی بے‌باکی تھی حیرت آفریں

اقبال انسانی تہذیب میں مسلمانوں کے کردار کی بات کرتے ہیں اور نبی اکرم کی تعلیمات کی بات کرتے ہیں اور عربوں کو ان کا ماضی یاد کراتے ہیں:

وہ چنگاری خس و خاشاک سے کس طرح دب جائے

جسے حق نے کِیا ہو نیستاں کے واسطے پیدا

محبّت خویشتن بینی، محبّت خویشتن داری

محبّت آستانِ قیصر و کسریٰ سے بے پروا

عجب کیا گرمہ و پرویں مرے نخچیر ہو جائیں

’کہ برفتراکِ صاحب دولتے بستم سرِ خُود را‘*

وہ دانائے سُبل، ختم الرُّسل، مولائے کُلؐ جس نے

غُبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل، وہی آخر

وہی قُرآں، وہی فُرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ

سنائیؔ کے ادب سے میں نے غوّاصی نہ کی ورنہ

ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لُولوئے لالا

جہاں تک آپ کے فلسفی کلام کی بات ہے اس میں آپ نے انسانی زندگی کے کی غرض و غایت پر بات کی ہے اور اس کے بارے میں اسلامی نظریہ کو بتایا ہے۔ہر اس نظریہ پر جو اسلام کے خلاف اس پر تنقید کی ہے اور اسے باطل نظریہ بتایا ہے۔اقبال نے ھیکل اور براڈلی کے نظریہ فنا فی الذات پر تنقید کی ہے اقبال کہتا ہے:

بے ذوقِ نمود زندگی، موت

تعمیرِ خودی میں ہے خدائی

اقبال کے انسان سے متعلق اشعار ان فطری خواہشات سے بھرپور ہیں جو غلام اور کمزور اقوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔اقبال دنیا پر صیہونی اور دیگر استعماروں کے قبضے پر تنقید کرتا ہے جو انسانوں کو غلام بناتے ہیں۔اقبال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کی بات کرتا ہے جو انسانیت کی وحدت کی بات کرتا ہے۔حضرت بلال رض کی صدائیں آج بھی ہمیں یہ بتا رہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام تمام انسانیت کے لیے تھا اس میں کسی نسل رنگ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

اقبال  اسلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فخر کرتا ہے آپ کی امت پر فخر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اگرچہ نسل میں تو ہندی ہوں مگر میری فکر،میری آواز ،میرا نالہ عدنانی اور حنفی ہے ہمارا پیغام نبی عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آیا ہے اور کیا اسلام زمین پر اللہ کے دین کے علاوہ بھی کچھ ہے؟

اقبال کے وہ اشعار جو معاشرے اور اجتماع کے بارے میں بات کرتے ہیں وہ دنگہ فساد کی نفی کرتے ہیں،وہ معاشرے میں امن و علم کو بڑھانے کا کہتے ہیں۔اقبال اپنے اشعار میں لوگوں کی اجتماعی مشکلات کو حل کرنے کی بات کرتا ہے۔اقبال عورت کو وہ تمام حقوق دینے کی بات کرتاہے جن کی ضمانت اسلام نے دی ہے۔اقبال معاشرے کے لیے ہر طرح کے فساد کی نفی کرتا ہے  وہ فساد جس  کی نہ دین اجازت دیتا ہے اور نہ اس کے کرنے پر ضمیر راضی ہوتا ہے۔

محفلِ ہستی تری بربط سے ہے سرمایہ دار

جس طرح ندّی کے نغموں سے سکُوتِ کوہسار

تیرے فردوسِ تخیّل سے ہے قدرت کی بہار

تیری کشتِ فکر سے اُگتے ہیں عالم سبزہ وار

زندگی مُضمرَ ہے تیری شوخیِ تحریر میں

تابِ گویائی سے جُنبش ہے لبِ تصویر میں

اقبال دنیا کی تمام خواتین کو جو نظریہ اعتدال رکھتی ہیں سیرت حضرت فاطمہ ؑ پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہے اور آپ کا یہ قصیدہ فاطمیؑ بہت مشہور ہے۔یہ شہرہ آفاق قصیدہ ہمیں اقبال کی اہلبیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عقیدہ کا پتہ بھی دیتا ہے اقبال کہتا ہے:

مریم از یک نسبت عیسی عزیز

از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز

نور چشم رحمة للعالمین

آن امام اولین و آخرین

بانوی آن تاجدار ’’ہل اتے‘‘

مرتضی مشکل گشا شیر خدا

مادر آن مرکز پرگار عشق

مادر آن کاروان سالار عشق

حضرت مریمؑ تو حضرت عیسٰیؑ سے نسبت کی بنا پر عزیز ہیں جبکہ حضرت فاطمہ الزاھرہؑ ایسی تین نسبتوں سے عزیز ہیں۔ پہلی نسبت یہ کہ آپؓ رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نورِنظر ھیں، جو پہلوں اور آخروں کے امام ہیں۔ دوسری نسبت یہ کہ آپؓ " ہل اتی " کے تاجدار کی حرم ھیں۔ جو اللہ کے شیر ہیں اور مشکلیں آسان کر دیتے ہیں۔ تیسری نسبت یہ کہ آپؓ اُن کی ماں ہیں جن میں سے ایک عشقِ حق کی پرکار کے مرکز بنے اور دوسرے عشقِ حق کے قافلے کے سالار بنے۔

امام حسن و حسین علیھما السلام کے فضائل کو ذکر کرنے بعد اقبال پھر یہ کہتے ہیں:

 جوہر صدق و صفا از امہات

فرزندوں کی سیرت اور روش زندگی ما ؤں سے ورثے میں ملتی ہے؛ صدق و خلوص کا جوہر ماؤں سے ملتا ہے۔

بہر محتاجی دلش آن گونہ سوخت

با یہودی چادر خود را فروخت

ایک محتاج و مسکین کی حالت پر ان کو اس قدر ترس آیا کہ اپنی چادر یہودی کو بیچ ڈالی۔

مزرع تسلیم را حاصل بتول

مادران را اسو ہ کامل بتول

تسلیم اور عبودیت کی کھیتی کا حاصل حضرت بتول ؓ ہیں اور ماؤں کے لئے نمونہ کاملہ حضرت بتول ؓ ہیں

آں ادب پروردۂ صبر و رضا

آسیا گردان و لب قرآں سرا

انہوں نے صبر و رضا کی تربیت گاہ میں پرورش پائی  جب وہ چکی چلا رہی ہوتیں تو ان کے لبوں پر قرآن کی تلاوت ہوتی ۔

گریہ ہائے بر زبالین بے نیاز

گوہر افشاندی بدامان نماز

وہ ذات بے نیاز کیلئے گریہ فرماتیں اور نماز کے دوران آنکھوں سے آنسووں کی صورت گو ہر افشانی کرتیں۔

اشک او  بر چید جبریل از زمین

بمچو شبنم ریخت بر عرش بریں

جبرائیل امیں ان کے آنسوؤں کو زمیں سے چن لیتا تاکہ جنت میں شبنم کی صورت پھیلا سکے

رشتۂ آئینِ حق زنجیرِ پاست پاسِ فرمانِ جنابِ مصطفیٰؐ است

اسلام سے رشتہ میرے پاؤں کی زنجیر ہے اور مجھے رسول خدا محمد مصطفی ؐ کے فرمان کا پاس ہے

ورنہ گردِ تربتش گردید مے

سجدہ ہا بر خاکِ اْو پاشید مے

ورنہ میں ان کی قبر اطہر کے گرد طواف کرتااوراس قبر کی خاک پر سجدے کرتا۔

اقبال نے بہت زیادہ قصیدے لکھے جو اس کے اعلی ذوق کی علامت ہیں ان قصائد میں اقبال نے اپنے افکار کا بھرپور انداز میں اظہار کیا۔اس نے اپنے نظریات اور ان پر اپنی دلیلوں کو تفصیل سے بتایا۔جب قاری ان خوبصورت قصائد کو پڑھتا ہے تو وہ فقط شعر کی فنی خوبصورتیوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ ان کے فکری اور فلسفی معانی سے بھی آگاہی حاصل کر لیتا ہے جو اقبال اپنے اشعار میں فراہم کرتے ہیں اور یہی کلام اقبال کی خوبصورتی بھی ہے کہ انسان کے بارے میں اپنے نظریات سے آگاہ کر دیتا ہے۔

اقبال نے گیارہ دیوان میراث میں چھوڑے جو ان کی فکری اور فلسفی آراء سے بھرے ہوئے ہیں انہوں نے اقبال کو دنیا میں پہچنوایا اور زندہ رکھا ان میں اسرار خودی ،رسالہ مشرق اور بال جبریل زیادہ مشہور ہیں۔

اقبال نے فقط شعر ہی نہیں کہے بلکہ اقبال نے فکری اور فلسفی مسائل پر مقالات اورکتب بھی تحریر کی ہیں ۔اقبال کی مشہور کتب میں علم اقتصاد،ایران میں ماوراء الطبیعات اور اجتہاد پر آپ کے مقالات کا مجموعہ مشہور ہیں جس میں آپ نے تمام افکار کو جمع کر دیا ہے۔اقبال پوری زندگی علمی، فکری،ثقافتی اور اجتماعی طور پر متحرک رہے اور آپ کا انتقال ۲۱ اپریل ۱۹۴۸ کو ہوا۔