بخارا شہر کی بنیاد اگرچہ 500 قبل مسیح بتائی جاتی ہے تاہم تاریخی شواہد سے اندازہ ہوتا ہے کہ، بخارا کی تاریخ اس سے کہیں زیادہ قدیم ہے۔کیونکہ آثار قدیمہ کی کھدائی کے بہت سے شواہد سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ انسان اس خطے میں کئی ہزار سال قبل آباد ہوا، اور اس سے پہلے یہ خطہ ایک بڑا نخلستان تھا جو دریاؤں اور باغوں سے گھرا ہوا تھا۔ اس خطہ میں آثار قدیمہ کی کھدائیوں سےقدیم دور تین ہزار سال قبل مسیح کی ان یادگاروں کا انکشاف بھی ہوا جب سبیلی تہذیب اور پھر آریائی تہذیب اس سرزمین پر آباد تھی۔
بخارا دریا ؤں اور ندیوں کا شہر ہے جبکہ قدیم شاہراہِ ریشم کا اہم مقام ہونے کی وجہ سے بخارا صدیوں سے تجارت اور ثقافت کا محور بھی رہا ہے یہ شہر اسٹریٹجکلی بہت اہمیت کا حامل ہے (یہ زمینی اور سمندری راستوں کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک ہے جو انطاکیہ، یورپ اور ایشیاء کے شہروں کو ہندوستان اور جنوب مشرقی ایشیا سے ملاتا ہے)، اور اس شہر کو بخارا الشریفہ یا تانبے کی سرزمین بھی کہا جاتا تھا، جس کا تذکرہ یاقوت الحموی نے معجم البلدان میں کیا ہے وہ نقل کرتے ہیں کہ "یہ ماوراء النہر (Transoxiana) کے انتہائی اہم شہروں میں سے ایک ہے جوکہ سمندر سے دور واقع ہے، اس کے اور آمو دریا کے مابین دون کا فاصلہ ہیں۔ بطلموس اپنی کتاب الملحمۃ میں لکھتے ہیں کہ بخارا شہر میں ساسانی سلطنت کے بادشاہ قیام کرتے تھے، اور آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق اس میں ایک قدیم دفاعی قلعہ بھی موجود تھا جس کاوجود چوتھی صدی قبل مسیح میں بتایا گیا ہے ۔
بخارا جمہوریہ ازبکستان کا ایک اہم شہر، اور ریاست کا دارالحکومت بھی ہے۔ اس کی آبادی تقریبا(263،000) افراد سے زیادہ ہے، اور یہ سطح سمندر سے تقریبا (220) میٹر بلندی پر واقع ہے ، جبکہ 39 ° 43 'شمالی عرض بلد اور 64 ° 38' مشرقی طول بلد پر واقع ہے اور یہ دریائے زرفشان کے قریب واقع ہے ، اس کے باشندے تاجک اور ازبک ہیں، اور اس کے لوگوں کی زبان تاجک ہے۔
بخارا ایک ایسا مقام ہے کہ جسے یونیسکو نے اپنی عظیم تاریخی اور ثقافتی اہمیت کے سبب عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا ہے ۔اس شہر میں رومی عہد میں یہودی آباد تھے۔ پھر یہ لوگ، اسلامی دور حکومت میں بیسویں صدی عیسوی کے آغاز تک مسلمانوں کے ساتھ رہے، لیکن اس کے بعد وہ امریکہ اور اسرائیل کی طرف ہجرت کرگئے۔
بخارا کی اسلامی تاریخ
قتیبہ بن مسلم نے بخارا کو سن 90 ھ میں ولید بن عبد الملک کے زمانے میں فتح کیا، اس طرح اسلام اس خطے میں پھیل گیا ،پھر علوم و فنون اور سائنس میں ترقی ہوئی اور اس طرح سے بخار علوم و فنون اور علمائے کرام کے لئے ایک مشہورشہر بن گیا اور دنیا بھر سے علم کے متلاشی افراد اس شہر کا رخ کرنے لگے ، اس شہر کا عزاز ہے کہ بڑے بڑے علماء جن میں چھٹی صدی ہجری کے معروف خاندان برہان سے تعلق رکھنے والے "صدر" بھی شامل ہیں وہ اس شہر میں مقیم رہے۔ چنانچہ اب بھی، بخارا میں 140 سے زیادہ اسلامی ثقافتی یادگاریں اور نشانیاں موجود ہیں، جن میں سب سے اہم البخاری کا مقبرہ ہے جوکہ صاحبِ صحیح بخاری ہیں اسی طرح "گنبد سمنانی" ،اور" مسجد ِ نمازکاہ" جو کہ معروف اسلامی طبیب اور فلسفی ابو علی ابن سینا کا گھر تھا ، اس کے علاوہ بخارا قلعے کی وہ دیوارہے جو آج تک کھڑی ہے ، اور جسے جہاز کہا جاتا ہے۔
منگولوں کا حملہ
بخارا میں سنہ 1220 ء بمطابق 616 ہجری تک اسکا سنہری دور جگمگاتا رہا ،یہاں تک کہ منگولوں نے چنگیز خان کی سربراہی میں اس شہر پر حملہ کیا، اور انہوں نے جامع مسجد اور کچھ محلات کے علاوہ پورے شہر کو جلا دیا اور اس کی بیشتر ثقافتی یادگاروں اور کچھ مساجد کو تباہ کردیا، چنگیز خان نے اپنی تمام افواج کو اس شہر میں لوٹ مار کی اجازت دے دی، اور اس شہر میں بہت تباہی ہوئی۔ اس طرح سے منگول اس شہرپر قابض ہوئے اور ایک طویل مدت تک حکمرانی کی ، لیکن بخارا کے سیاسی زوال کے باوجود منگولوں نے اپنے قبضے کے زمانے میں بھی اس شہر کی علمی اور مذہبی حیثیت برقرار رکھی، اور یہ بھی تاریخ میں ذکر ہوا ہے کہ منگولوں کے قبضے کے ایک عرصے بعد بھی اس شہر میں علوم و فنوں کی سرگرمیاں جاری تھیں اور خاص طور پر چنگیز خان کے جانشینوں کے دور میں بھی یہی سلسلہ جاری رہا جبکہ اس وقت تک بہت سے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوچکے تھے اور منگولوں کی سخت گیری میں بھی کمی آگئی تھی ۔
بخارا گہوارہ علم و ادب :
چودھویں صدی عیسوی کے آغاز میں ازبک اسلام میں داخل ہوئے ، چنانچہ انہوں نے سمرقند اور بخارا میں مساجد اور اسکول بنائے اور سائنس اور ادب میں دلچسپی لی ،اور اسطرح بڑی بڑی درسگاہیں بن گئیں اور شہر بخارا دیگر ممالک مثلا: ہندوستان، کشمیر اور اندلس کے لوگوں کے لئے ایک مشہور مرکز بن گیا اور بخارا کی یہ علمی درسگاہیں مشرق کے تمام ممالک خصوصا اسلامی ممالک میں مشہور ہویئں یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس زمانے میں درسگاہوں کے لئے وہ لوگ (سکول) کی اصطلاح استعمال کرتے تھے جو آج کے زمانے میں "یونیورسٹی" کا درجہ رکھتی ہے گویا اس طرح سے بخارا شہر ایک یونیورسٹی کا درجہ رکھتا تھا ۔،
شہر ِبخارا میں علمی سرگرمیاں سن 1920 عیسوی تک جاری رہیں یہاں تک کی اس خطے میں کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی اور کمونسٹوں نے حکومت کا تختہ الٹ کر اپنی حکومت قائم کی اور اس کے بعد محض ایک سکول کے علاوہ تمام دیگر تعلیمی سرگرمیاں ، ثقافتی مراکز اور مساجد کو بند کردیا گیا حتا کہ مساجد میں نماز پڑھنے سے بھی لوگوں کو روکا گیا۔ اس کے باجود بہت سا اسلامی ثقافتی ورثہ اور آثار قدیمہ آج تک محفوط رہا۔
شہر بخارا بعد از کمیونزم:
سوویت یونین کا ستارہ مسلسل گردش میں رہا یہاں تک کہ اس کے اقتدار کے عروج کے ستر سال بعد اس کی طاقت گھٹی چلی گئی ، اور پھر اس کا خاتمہ 1991 عیسوی میں ہوا اور یوں اس کے زوال سے اہلیاں بخارا نے سکھ کا سانس لیا۔ ان دنوں بخارا شہر اپنی عظیم روایات کا امین بن کر کرہ ارض پر اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔