سمرقند ایک اہم اسلامی دارالحکومت سمجھا جاتا ہے، اور یہ نہ صرف اسلامی دورِحکومت میں ایک اہم سائنسی، ثقافتی اور فنی مرکز کی حیثیت سے نمایاں تھا بلکہمسلم سکالرز اور علماء کا مسکن بھی تھا۔ ثمر قند میں گنبد کی کثرت کی وجہ سے اس کی ایک پہچان ہے یہی وجہ ہے کہ اسے "نیلے گنبدوں کاشہر" کہا جاتا ہے۔سمرقند جمہوریہ ازبکستان کے وسط میں واقع ہے، اور یہ براعظم ایشاء کا بھی وسط ہے، اس وجہ سے یہ شہر جغرافیائی اور تجارتی طور پر زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔
ثقافتی لحاظ سے:
ثمر قند ایک قدیم تاریخی و ثقافتی شہر ہے، جس کی ابتداء اسلامی دور حکومت سے ہوئی۔ اس شہر میں اسلامی طرز تعمیر کثرت سے دیکھنے کو ملتا ہے، ان کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ اسی طرح اس شہر میں آثار قدیمہ کے ساتھ اسلامی فن تعمیر کے بہت سے نشانات آج بھی باقی ہیں جن میں نیلے رنگ کے گنبد اور مختلف نقش و نگاری کثرت سے دیکھنے کوملتی ہیں۔ اس شہر کے میوزیم میں رکھے گئے قدیم تہذیب و ثقافت کے اوزار اور اشیاءآنے والے سیاحوں کے لئے بہت سے رازوں کو افشاں کردیتے ہیں۔
سمرقند کا نام قدیم فارسی کے لفظ "اسمارا"، بمعنی پتھر یا چٹان اور "قند" بمعنی قلعہ یا قصبہ کا مرکب ہے جس کا مطلب ہے چٹانی قلعہ ۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ثمر قند پر کئی سلطنتن قائم ہونے کے ساتھ کئی حکمرانوں نے حکومت کی ہیں۔ اس شہر پر حکومت کا آغاز فارسیوں سے ہوا، اور اس کے بعد بالترتیب یونانیوں، چینیوں، عربوں،اور منگولوں کے بعد ترکوں کی حکومت سے یہ سلسلہ اختتام پذیر ہوا۔
"تیمور" سمرقند کا دارالحکومت تھا، جس پر تیموری سلطنت کے بانی شہنشاہے تیمرلین نے حکومت کی۔ جس وقت سمرقند پر تیموری سلطنت قائم ہوئی اس وقت وہاں سوائے کچھ کچی اینٹوں اور لکڑیوں کے مکانوں کے کچھ اور نہ تھا لیکن تیموری حکمران کی حکومت قائم ہونے کے بعد یہ شہر خوبصورتی اور ترقی میں ایشیا کا روم بن گیا۔ تیموری سطلنت کے زیرآور عاقل باشاہوں نے ہر مفتوحہ علاقے سے صنعتکاروں، عالموں اور ادیبوں کوسمرقند منتقل اس طرح سے انہوں نے نہ صرف اپنے دار الحکومت کو شاندار عمارتوں کا شہر بنادیا بلکہ عالموں اور ادیبوں کے زریعے علم وادب کا مرکز بھی بنادیا۔ ان کے اولادوں نے بھی ان روایات کو برقرار رکھتے ہوئے تیموری دور اور تاریخ کو یادگار بنانے کی کوشش کی جس سے وسط ایشیا کے تیموری دور کو تاریخ میں ایک ممتاز مقام مل گیا۔ ثمر قند کی قدیم تاریخ میں، شاعروں اور ادیبوں کی نظموں، تحریروں، اور داستانوں کو بڑی اہمت حاصل رہی ہے اور آج بھی اس کی تاریخی شان و شوکت برقرار ہے۔
اسلامی نقطہ نگاہ سے بھی.یہ ایک تاریخی اور ثقافتی شہر ہونے کے ساتھ ایک علمی شہر کے طور پر بھی رہا ہے جس میں بڑے بڑے مسلمان سکالرزاور دانشوروں نے قیام کیا۔ دوسری طرف شہر "سمرقند" میں تیموری دور سلطنت کی یادگاریں ابھی بھی موجود ہیں ، جیسے "مسجد ِ بیبی خانم"، جو ان باقیات کی عکاسی کرتی ہے، یہ مسجد سن 1399 - 1405 ء کے درمیان تعمیر کی گئی تھی۔
"ثمر قند" میں تشنگان علم بھی علم وحکمت کے سرچشمۂ شیریں سے سیراب ہونے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں موجود رہتے تھے۔ علمی حوالے سے خاص بات یہ ہے کہ یہاں اولوغ بیک نے علم فلکیات کی بنیاد رکھی جس سے ثمرقند ایک علمی شہر بن گیا۔ اس طرح سے اولوغ بیگ نے اس شہر کو علم فلکیات اور ریاضی کا مرکز بنایا۔