- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


حافظ شیرازی، خواب دیکھنے والا شاعر
20 ذو الحجة 1442هـ

شیراز میں داخل ہوتے ساتھ ہی ایک علاقہ ہے جسے حافظیہ کہا جاتا ہے۔یہ علاقہ بہت زیادہ سرسبز و شاداب ہے درختوں سے بھرا ہوا ہے۔یہاں ایک عمارت انتہائی فخر سے ایستادہ ہے جس کے ارد گرد یوں لگتا ہے جیسے پھول اس خوبصورت ماحول میں رقصاں ہوں اور عمارت میں ایک خوبصورت قبر بنی ہے۔یہاں کی فضا انتہائی پاکیزہ اور صاف ستھری ہے یہ مزار خوبصورت ماربل سے بنا ہے اردگرد کا ماحول انتہائی صاف ستھرا ہے اور آسمان بھی صاف و شفاف ہے ۔ اس سب نے ملکر پورے ماحول کو ایک افسانوی جگہ میں تبدیل کر دیاہے۔یہ عظیم شاعر شمس الدین محمد حافظ شیرازی کا مقبرہ ہے۔جن کا لقب خواجہ حافظ شیرازی ہے اور یہ لسان غیب کے نام سے شہرت رکھتے ہیں۔ان کو حافظ اس لیے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے قرآن مجید کو چودہ قراتوں کے ساتھ حفظ کیا تھا ۔

حافظ نے انسان کی انسان ہونے کی حیثیت پر اشعار لکھے ہیں اور ان کے اشعار کسی خاص زمانے یا جگہ کے لیے نہیں تھے۔اس نے انسان کی انسان ہونے کی حیثیت سے اس میں موجود احساسات اور طبیعتوں پر لکھا ہے وہ شکوہ شکایت کرنے اور رونے والا شاعر نہیں ہے نہ ہی صوفی و نائب ہے۔وہ تمام چیزوں سے پہلے ایک خوش طبیعت انسان ہے جو زندگی کا استقبال کرتا ہے، وہ زندگی جو خیر و شر کی حامل ہے۔انسان کبھی زندگی کے شب و روز سے راضی ہوتا ہے اور کبھی ناراض۔انہی خصوصیات نے حافظ کو ایسا بنا دیا کہ مشرق و مغرب میں ان کی شہرت ہے۔مشرق و مغرب میں بسنے والے لوگ ان کو جانتے ہیں ان پر بہت سی کتب لکھی گئی ہیں۔حافظ کے کلام کا لاطینی،جرمن،فرانسی ،انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔

مشرق کی یہ روایت نہیں تھی کہ یہاں شعراء کی عمروں کا حساب کتاب رکھا جائے اور ان کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات محفوظ ہو۔اسی  سے دقیق انداز میں پتہ چلے کہ انہوں نے کتنی عمر پائی ہےجو کچھ تاریخ دانوں نے فقط اتنا نقل کیا  ہے کہ کہ وہ آٹھویں صدی کے شعراء میں سے ایک شاعر تھے اور اندازا انہوں نے725- 792هـ/1326ـــ1390م کے درمیان ہی زندگی گزاری مگر یہ دقیق بات نہیں ہے۔

ان کے پردادا اتاکان جو کہ فارس کے مشہور بادشاہ گزرے ہیں ان کے زمانے میں اصفہان سے شیراز آئے تھے اور اسی کو اپنا وطن بنا لیا۔ان کو اللہ نے ایک بیٹا دیا جس کا نام بھاءالدین تھا۔بہاء الدین نے تجارت کو بطور پیشہ اختیار کیااور بڑی دولت جمع کر لی اور پھر اہل قزوین کی ایک خاتون سے انہوں نے شادی کی۔اللہ نے ان کو اس سے تین بیٹے عطا کیے ان میں سب سے چھوٹے بیٹے کا نام شمس الدین محمد تھا جو حافظ کے نام سے معروف ہوئے۔

تینوں بھائی خوشی خوشی رہ رہے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے والد نے وفات کے وقت کافی مال و اسباب بطور وراثت ان کے لیے چھوڑا تھا۔یہ یوں اچھا نہیں چلتا رہا بلکہ کی معیشت کا پہیہ رک گیا اور حالات خراب ہو گئے۔ایسی صورتحال میں ہر بھائی الگ الگ اپنی زندگی بنانے میں لگ گیا۔ ان حالات میں شمس الدین اکیلا ہی شیراز میں اپنی والدہ کے پاس رہ گیا۔

ماں کے پاس وسائل نہیں تھے کہ وہ اپنے بیٹے کا خیال رکھ سکے اس کی ضرورتوں کو پورا کرے اور اس کی تربیت کرے کیونکہ اس کے حالات کافی تنگ تھے۔اس لیے والدہ نے اس چھوٹے سے بچے کو اپنے اہل محلہ میں ایک صاحب حیثیت شخص کو دے دیا کہ وہ اس کے امور کا نگران بنے اور اس کی تربیت کرے۔شمس الدین اس شخص کے پاس ایک مدت تک رہا یہاں تک کہ حالات خراب ہو گئے کیونکہ وہ برے اخلاق کا حامل تھا اس لیے حافظ اس سے بھاگ گئے۔انہوں نے ایک نان بائی کی دکان پر کام کرنا شروع کر دیا ،نان بائیوں کے طریقہ کے مطابق آدھی رات کو بیدار ہوتے اور فجر تک کام کرتے تھے۔اس کے بعد عبادت میں مشغول ہو جاتے ،اعمال عبادت سے فارغ ہونے کے بعد ،جب سورج طلوع کر لیتا تو آپ پاس واقع ایک مدرسہ میں چلے جاتے تھے۔اس طرح ان اوقات کو  درس و تدریس میں خرچ کرتے تھے۔آپ اپنی اجرت کا ایک حصہ اس استاد کو دیتے تھے جس سے تعلیم حاصل کر رہے تھے یہاں تک کہ آپ نے سارے قرآن کو حفظ کر لیا اور یہیں سے آپ کو حافظ کا خطاب دیا گیا اور یہ ان کے زندگی کا لازم حصہ بن گیا اور آپ نے جتنے بھی قصیدے لکھے ہیں سب کے آخر میں اسی کو ذکر کیا ہے۔

پاس ہی ایک دوکان پر ایک شاعر کام کرتا تھا حافظ اس کی مجلس میں جانے لگے اور اس سے اشعار سنتے تھے یہیں سے انہیں شعر کہنے کا شوق پیدا ہوا۔یہیں سے اس نے  اشعار کہنے شروع کیے  لیکن وہ مطلوبہ معیار کے نہیں تھے اس لیے لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا اور حافظ کو کم سمجھا اور خود حافظ کو بھی اس سے احساس خجالت ہوا۔حافظ نے شیراز کے شمال میں موجود ایک درگاہ کی طرف رجوع کیا جو بابا کوھی کے نام سے معروف ہے وہاں رہے اور اللہ سے دعا کی ۔

یہاں انہوں نے ایک خواب دیکھا جس کے نقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس کا  ذکر فائدہ سے خالی بھی نہیں ہوگا، چاہے وہ قصہ درست ہے یا نہیں ہے اس سے فرق نہیں پڑتا۔اس خواب کے ذریعے ہی حافظ کی زندگی کا پتہ چلے گا کہ وہ ایک مایوس نوجوان سے ایک عظیم شاعر کیسے بنا؟ پورے ایران کا عظیم شاعر جس کے اشعار ایرانی ہر جگہ پڑھتے ہیں۔ جب حافظ تنہائی اور مایوسی کے ایام گزار رہا تھا اس نے خواب میں حضرت علیؑ کی زیارت کی جس میں انہوں نے حافظ کو ایک بڑا شاعر بننے کے بارے میں خبر دی اس خواب کے بعد اس کے لیے آسانیاں پیدا ہونے لگیں اور وہ آسانی سے شعرکہنے لگا۔

حافظ اس مایوسی سے نکلا تو مطالعہ میں لگ گیا ،حفظ قرآن نے عربی کو سمجھنے میں اس کی بہت مدد کی اور اس سے ہی اسے وہ تمام اطلاعات فراہم ہوئی جو شہر شیراز کے متعلق تھیں۔محمد کلندام جو حافظ کا معاصر اور اس کے دیوان کو جمع کرنےو الاہے کہا کہ حافظ پڑھائی پر توجہ دیتے ،الکشاف،المصباح،المطالع،قوانین الادب،دواوین العرب جیسی کتب کی تعلیم میں مشغول رہے اور اسی مشغولیت نے انہیں اپنے دیوان کو بھی جمع نہ کرنے دیا۔

یہ وہ بنیادی کتب ہیں جن کا کلنام نے تذکرہ کیا ہے جن کی تعلیم میں حافظ ایک لمبی مدت تک مشغول رہے یہ کتب عربی ثقافت کی بنیادی کتب شمار ہوتی ہیں۔حافظ نے یہ کتب لمبا عرصہ اپنے شاگردوں کو تدریس بھی کی ہیں بالخصوص جب قوام الدین محمد  نے آپ کو شیراز کے مشہور کا استاد مقرر کر دیا ۔

خود حافظ شعر کو فوقیت دیتے تھے اسی لیے ان کی شاعری عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں موجود ہے۔حافظ کی شاعری زبان زد عام و خاص بن گئی اور وہ آرام سے اشعار کہا کرتے تھے۔وہ قرآن کے حافظ تھے اسی لیے آپ کی شاعری میں بھی قرآن کی تعلیمات کا ذکر ملتا ہے۔ کسی نے آپ جیسی خوبصورت شاعری نہیں کی ۔

حافظ کے اشعار جیسے معاشرے میں رواج پا گئے اس کی مثال نہیں ملتی،لوگوں نے آپ کی اتنی تعریف کی جتنی کسی دوسرے شاعر کو نصیب نہ ہوئی۔لوگوں نے آپ کی شاعری کو بہت زیادہ پڑھا اللہ نے آپ کو قوت بیان عطا کی اور اعلی کلام کرنے کی صلاحیت سے نوازا کہا گیا:

اے وزن کی کم رعائت کرنے والے تم حافظ سے نفرت کیوں کرتے ہو؟

اللہ نے اس کو یہ قبولیت عطا کی ہے اور وہی اس کے خیالات میں ہے اور وہی اس کی زبان سے بولتا ہے۔

اس کے اشعار اس حد تک پہنچے کہ یہ کہا جانے لگا کہ یہ تو غیب کی زبان اور اسرار کے ترجمان ہیں۔ جامی جو حافظ سے بعد والی صدی کے شاعر ہیں، انہوں نے اپنی کتاب نفحات الانس جو حافظ کے بارے میں ہے کہا یہ جو حافظ کو حافظ کہا جا تا ہے انہوں نے بہت سے اسرار غیبی سے پردہ ہٹایا اور مشکل ترین معانی کو بیان کیا جن پر مجاز کی چادر پڑی تھی ان کے اشعار تکلف اور اضطراب سے خالی ہوتے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے جنہوں نے بھی حافظ کے اشعار پر غور و فکر کیا انہوں ان خوبصورت اور عالی مطالب کو اپنے سامنے پا لیا۔