- 18 رجب 1446هـ -
- 18 رجب 1446هـ - 18 2025


جنت البقیع مسلمانوں کے سب سے پرانی قبرستان
9 جمادى الاول 1442هـ

بقیع کیا ہے؟ اور اس کی تاریخی حیثیت کیا ہے؟

بقیع ایک ایسی زمین ہے جو مدینہ منورہ میں موجود ہے اور جسے مدینہ منورہ والوں نے اپنے مرحومین کی تدفین کے لیے مختص کیا تھا، اور غرقد ایک معروف بّری درخت ہے۔ چونکہ مسلمانوں کی عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لیکر آج تک یہ سیرت چلی آرہی ہے کہ وہ اپنے مرحومین کو دفن کرتے ہیں۔ یہ قبرستان قبر مبارک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشرق میں واقع ہیں اور اس کی مساحت ۱۸۰۰۰۰ مربع میٹر پر محیط ہے، اس میں مسلمانوں کی عظیم شخصیات کی قبور کو بھی ضم کیا گیا ہے جو کو عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھتے ہوئے دنیا سے رحلت کرگئے  تھے۔

بعض اعداد وشمار کے مطابق ہزاروں صحابی اس مقدس زمین میں مدفون ہیں، ان میں سب سے پہلے نبی اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چار معصوم اولاد ؛ حضرت امام حسن بن علی ابن ابی طالب علیھم السلام، حضرت علی ابن حسین سید ساجدین امام زین العابدین علیھماالسلام، حضرت محمد ابن علی الباقر علیھما السلام، اور حضرت جعفر ابن محمد الصادق علیھما السلام بھی اس ارض مقدس میں مدفون ہیں۔ ان چار معصوم اماموں کی قبور ایک ساتھ ہیں، ان کے علاوہ بھی بہت اہم اور بڑی شخصیات  بھی وہاں مدفون ہیں جیسے حضرت  عباس بن عبدالمطلبؓ، نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا فرزند ابراہیمؑ،  حضرت محمد بن حنفیہؓ، حضرت حسن بن حسنؑ بن علیؑ، حضرت عقیلؓ بن ابی طالب حضرت عبداللہ بن جعفر طیارؑ، حضرت علیؑ کی زوجہ ام البنین فاطمہ ؓالکلابیہ۔ ان کے علاوہ بھی بہت سارے ابتدائی اصحابؓ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے حضرت عثمان بن مضعونؓ، حضرت سعد بن معاذؓ، اسی طرح تمام ازواجؓ رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی قبروں کو(سوائے ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؑ کی قبر جو جنت المعلیٰ مکہ میں موجود ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت میمونہ ؓبنت حارث کی قبر جو کہ وادی سرف  مکہ مکرمہ سے  ۱۵ کلومیٹر کے فاصلہ پر شمال میں مدینہ منورہ کی طرف میں موجود ہے )بھی اس کے  ساتھ ملحق کیا گیا ہے۔ اسی طرح بقیع میں پہلے صحابی حضرت اسعد بن زرارہ انصاری اور آخری صحابی سہل بن سعد الساعدی کی قبریں بھی موجود ہیں۔

قبور کی زیارت

عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لیکر آج تک مسلمانوں کی یہ سیرت مسلسل چلی آرہی ہے کہ وہ اپنے مرحومین کی قبروں کی زیارت کرتے ہیں اور ان کے لیے دعاءِ مغفرت کرتے ہیں، ساتھ قبروں پر بیٹھ کر کچھ آیات قرآنی کی تلاوت بھی کرتے ہیں، یہ سارے کام حقیقت میں ان کی یادوں کو تازہ رکھنے اور ان سے محبت کی دلیل ہیں، ان تمام نیک اعمال کے ثواب انہیں ارواح کو ہدیہ کرتے ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بقیع میں مدفون مرحومین کی زیارت کو تشریف لے جاتے تھے اور ان کی مغفرت اور ان رحمت کی دعا بھی فرماتے تھے، جیسا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے روایت کی جاتی ہے: جبرائیل امین میرے پاس آئے اور میں نے آنے کی وجہ پوچھی، توکہا: اے محمد تیرا پروردگار تجھے حکم کررہا ہے  کہ  اہل بقیع کے پاس جائے اور ان کی مغفرت کی دعا کرے۔ اسی طرح مسلمانوں کی یہ سیرت بھی چلی آرہی ہے کہ اہم اسلامی شخصیات کی قبروں پر ضریح بنائی جاتی ہے، خاص کرنبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی اولاد طاہرہ میں سے ائمہ معصومین علیھم السلام کی قبروں پر بڑے بڑے قبے، گلدستہ آذانیں، بڑے بڑے صحن، حتیٰ ان مقامات پر مسجدین بھی بنائی جاتی ہیں، یہ ساری چیزیں دین مقدس اسلام کے احکامات اور شریعت کے خلاف بھی نہیں ہیں۔

وہابیت

وہابیت ایک تاریک وسیاہ فکر رکھنے والا فرقہ ہے جو خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا اعتقادات اور تبلیغات پر ایمان رکھتا ہے، اس کی بنیاد اور ترویج ایسے لوگوں نے رکھی اور جو کسی بھی صورت میں دین مقدس اسلام کی بھلائی اور خیرخواہی نہیں چاہتے تھے، انہوں نے اپنی فقہی مسائل اور طرز عمل میں کتاب الٰہی،اور سیرت وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انحراف کیا، ایسے راستوں کا انتخاب کیا جس میں اپنی رائے اور فقہ سے اختلاف رکھنے والے باقی مسلمانوں کی تکفیر، قبروں کا انھدام، معصوم لوگوں کے سروں کو قطع کرنا، فصلوں اور نسلوں کو ختم کرنا جیسے دہشت اور وحشت پر مشتمل عقائد پائے جاتے ہیں اس کی واضح مثال آپ طول تاریخ میں خاص کر عصور متاخرہ اور حالیہ سالوں میں مشاہدہ کرسکتے ہیں، ان لوگوں نے اقوام عالم میں اسلام کا ایک مسخ شدہ چہرہ پیش کیا اور ہر طرح سے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ زمان حال میں اگر ان کی تخریبی کاروائیوں اور انسانیت سوز مظالم کو ملاحظہ کیا جائے تو ان کے افکار اور عقائد  بڑی آسانی سمجھ میں آسکتے ہیں۔

انہوں نے سر عام اپنے عقیدے سے اختلاف رکھنے والوں کا قتل عام کیا، ان کے گھروں کو مسمار، انبیاء کرام علیھم السلام اور صلحاء کےمقدس مقامات کو منھدم، بے گناہ مجبور ومقہور خواتین کو اسیر، اور اسیروں کو زندہ جلانا جیسے مظالم کی انتہا کردی، جو دین اسلام کے مسلمہ اصولوں جیسے عفو درگزر، رحم، شفقت، احترام انسانیت، محبت واخوت وغیرہ  کے سراسر خلاف تھے، ان تخریبی کاروائیوں کے ذریعے دین مقدس اسلام کے امن وآشتی اور محبت و احترام پر مبنی تعلیمات اور اصولوں کو غیر مسلمانوں کی نگاہ میں مشکوک قرار دیدیا اوران تمام تخریبی اور دہشت گردی کے جواز کے لیے دلیل کے طور شرک وکفر کا سہارا لیا، اور یہ اعلان کیا کہ توحید صرف وہی ہے جو ان کی سمجھ میں آئی ہوئی ہے، اس کے علاوہ جو بھی اسلامی فرقے ہیں وہ سب گمراہ اور شرک کے مرتکب ہوئے ہیں۔ جب کہ یہ سارے استعماری سازشوں اور اسلامی دشمنی میں سرانجام دیا گیا اور ظاہرا اسلام کو بدنام کرنے لیے اللہ اکبر کی صدائیں بلند کی گئیں۔

انہدامِ قبور کے لیے وہابیوں کے حملے:

ان کی فکری پستی اور عقیدتی انحراف کی علامات اور نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ عمدا مسلمانوں کی قبروں کو منھدم اور سطح زمین کے برابر کرنے کے قائل ہیں چاہیے وہ جنت البقیع ہو، یا کوئی اور قبرستان، وہ قبروں کے نشانات کو مٹانے، لوگوں کو قبروں کی زیارات کرنے سے روکنے، اور مقدس مقامات کی توہین اور ہتک حرمت کو دین کا حصہ سمجھتے ہیں، اسی غلط عقیدہ کی وجہ سے ۱۲۲۰ ہجری میں مدینہ منورہ پر یلغار کیا، ان کے محافظین کو قتل، مقدس آثارِدینیہ کو منہدم، اور عظیم اسلامی تاریخی درسگاہوں کو کو تباہ کردیا۔  اس ناپاک اور مذموم مقاصد پر مشتمل حملہ آور ہجوم نے مسجد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی نہیں بخشا، وہاں پر موجود تبرکات، قیمتی اشیاء، جواہرات کو لوٹ لیا، اور بقیع میں موجود تمام مقدس مقامات کو منھدم کردیا، من جملہ چار معصوم اماموں کے مقدس مزارات کو بھی تباہ کردیا۔ اسی طرح ایک اور تخریبی حرکت اور دھاوا سن !۳۴۴ ھجری میں بھی دہرایا گیا، اور پہلی تخریب کاری کے بعد جو مقدس مقامات دوبارہ سے تعمیر کی گئی تھی انہیں پھر سے منھدم کرکے سطح زمین کے برابر کردیا ۔ یہاں تک مسجد نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قبہ اور ضریح مبارک کو منھدم کرنے کی دھمکی مسلسل دی گئی اور ابھی تک  دی جارہی ہے، اگر باقی مسلمانوں کے رد عمل کا خوف نہ ہوتا تو شاید ابھی تک منھدم کرچکے ہوتے۔  وہابیوں کے یہی نا معقول اور عقل سے خالی تاویلات کی بنیاد پر کی جانے والی تخریبی کاروائیوں نے مسلمانان عالم کے احساسات کو مجروح اور ان کو وہابیت کے خلاف غیظ وغضب اور احتجاجات کرنے پر مجبور کیا۔ عالم اسلام کے علماء، محققین، اور سکالرز نے وہابیت اور ان کے باطل عقائد ونظریات کے خلاف ابھی تک سینکڑوں کتابیں اور مقالے  لکھ چکے ہیں۔

آج اور کل میں  موجود شباہتیں

اس فرقہ کے باطل اور گمراہ ہونے کی واضح دلیل داعش (آئی ایس ایس جو درحقیقت وہابی عقائد کے حامل دہشت گروں کی ایک جماعت ہے)  کی طرف سے دور حاضر میں کیے جانے غیر شرعی اور غیر اسلامی اقدامات اور دہشت گردانہ کاروائیں ہیں۔ اس دہشت گرد تنظیم نے عراق اور شام میں اولیاء کرام کے مزارات کو منہدم کردیا، یہاں تک حضرت ھود نبی علیہ السلام اور حضرت شیث نبی علیہ السلام کے مراقد  شریفہ کو بھی نہیں بخشا اور انہیں دھماکے سے اڑادیا۔ موصل میں المنارة الحدباء الأثريّة، سامراء میں موجود دونوں اماموں  امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے مزارات کو بھی دھماکے سے ذریعے منھدم کردیا ۔ شام میں واقع رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے جلیل القدر صحابی حجر بن عود الکندی  رضوان اللہ تعالی علیہ کے مزار کو تباہ کردیا گیا۔ اس کے علاوہ انسانی اور اسلامی تہذیب وتمدن کی جتنے بھی آثار اور جتنے بھی ثقافتی یاگاریں تھیں ان سب کو مسمار کردیا گیا۔