- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


مرد کا عورت کے لئے "قوام"یعنی نگہباں ہونا ... مرد کا عورت پر فضیلت کی دلیل ہے یا مرد کی مسئولیت کا بیان ہے؟
27 شوال 1441هـ

مرد کے "قوام "ہونے کا مطلب عورت کو اس جہت سے فضیلت دینا ہے کہ اسلام عورتوں کی مخصوص جسمانی ساخت و بافت اورفطری و نفسیاتی خصوصیات کو بہت اہمیت دیتا ہے اورمردوں پران فطری خصوصیات کا احترام کرنے کو لازم قرار دیتا ہے،(الرِّجال قوّامون على النِّساء بما فضّل الله بعضهم على بعض وبما أنفقوا من أموالهم فالصّالحات قانتات حافظات للغيب بما حفظ الله...) مرد عورتوں پر نگہبان ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس لیے کہ مردوں نے اپنا مال خرچ کیا ہے، پس جو نیک عورتیں ہیں وہ فرمانبردار ہوتی ہیں، اللہ نے جن چیزوں (مال اور آبرو) کا تحفظ چاہا ہے، (خاوند کی) غیر حاضری میں ان کی محافظت کرتی ہیں ۔۔۔(النساء ـ 34)، تاکہ مرد کے اس قوامیت کے ذریعے ( مرد اور عورت کے اشتراک سے) خاندان کے بنیادی ستون تشکیل دئے جا سکے ،اور خاندان کی تشکیل کو ایک مقدس اجتماعی فریضے کے طور پر لوگوں کو شعور دلایا جائے۔ (ولهنّ مثل الّذي عليهنّ بالمعروف) عورتوں کو دستور کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں، (البقرة ـ 228)

(لينفق ذو سعة من سعته)  وسعت والا اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرے (الطّلاق ـ 7)، (وعاشروهنّ بالمعروف) اور ان کے ساتھ اچھے انداز میں زندگی بسر کرو،  (النساء ـ 19)،  (وتعاونوا على البرِّ والتقوى ولا تعاونوا على الاثم والعدوان) اور (یاد رکھو) نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی (کے کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کیا کرو۔( المائدة ـ 2)

جس طرح قرآن نے خاندان کے انسانی اور قانونی روابط کے بارے میں بات کی ہے ، سنت نبوی میں بھی اس سلسلے میں ہمیں رہنمائی ملتی ہے ،جس طرح حدیث شریف  سے بھی واضح ہے کہ "كلّكم راع فمسؤول عن رعيّته، فالأمير الذي على الناس راع وهو مسؤول عن رعيّته، والرّجل راع على أهل بيته، وهو مسؤول عنهم، والمرأة راعية على بيت بعلها وولده، وهي مسؤولة عنهم، والعبد راع على مال سيِّده، وهو مسؤول عنه، ألا كلّكم راع وكلّكم مسؤول عن رعيّته

آگاہ رہو تم میں سے ہر ایک نگرانی کرنے والا ہے اور ہر ایک اپنے زیر اثر لوگوں کے بارے میں مسؤل ہیں ،پس لوگوں پر جوسردار ہے وہ اپنی رعایا کے بارے میں مسؤل ہے۔ مرد اپنے اہل خانہ کے بارے میں مسولیت رکھتا ہے ،عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے اور ان کی نسبت اس سے سوال کیا جائے گا ،غلام اپنے آقا کے مال کا نگہبان ہے،اور وہ اس بارے میں مسؤل ہے، پس تم میں سے ہر ایک نگہبان بھی ہے اور ہر ایک اپنی رعایا کے بارے میں مسؤل بھی ہے "  اسی طرح حضرت امام جعفر الصادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ "من خُلق الأنبياء حبّ النساء"،عورتوں سے محبت انبیاء کی سنت میں سے ہے ۔ اسی طرح آپ علیہ السلام سے ہی مروی ہے کہ "ما أظنّ رجلاً يزداد في الايمان خيراً إلاّ ازداد حبّاً للنساء". میں نہیں سمجھتا  کہ مرد کے ایمان میں اضافہ ہو اور خواتین کے لئے اس کی محبت میں اضافہ نہ ہو "

مرد کا قوام ہونے کا سب سے بنیادی فائدہ مرد پر عورت کا نفقہ واجب ہونا ہے:

اسلام نے انسان کی بنیادی ضروریات کی رعایت کی بلکہ اس سے کہیں زیادہ کا خیال رکھا ہے ،لیکن اسے اسراف اور حد سے زیادہ خرچ کی جانب بھی نہیں لے کر گیا۔ ان بنیادی انسانی ضروریات میں سے ایک بیوی کا نفقہ شوہر کے اوپر واجب کرنا بھی ہے، اسلام نے بیوی کا نفقہ شوہر کے اوپر واجب کیا ،اور اس میں کوتاہی کو ایساگناہ قرار دیا کہ قیامت کے دن جس کا عقاب ہوگا ۔معاملہ یہیں نہیں رکتا بلکہ اگر شوہر اپنی بیوی پر انفاق سے روگردانی کرتا ہے تو اسے حاکم شرع کے ذریعے انفاق پر مجبور کیا جا سکتا ہے، کیونکہ بیوی کا خرچہ دینا شوہر کی شرعی زمہ داری ہے۔ کیونکہ زوجیت شوہر کے اوپر بیوی کا نفقہ واجب ہونے کا سبب ہے حتی کہ اگر طلاق رجعی کے ذریعے ان دونوں کے مابین جدائی بھی ہو جائے تب بھی چونکہ مرد کو (عدت کے ختم ہونے تک)قوامیت حاصل رہتا ہے۔ اس لئے نفقہ بھی اس پر واجب رہتا ہے ۔(الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ) (النساء ـ 34)، ((وعلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ  بِالْمَعْرُوف)  اور بچے والے کے ذمے دودھ پلانے والی ماؤں کا روٹی کپڑا معمول کے مطابق ہو گا، (البقرة ـ 233)

اسلام نے شوہر پر واجب نفقہ کی مقدار کا تعین عرف پر چھوڑا ہے، پس عرف میں جتنا ایک عورت کو نفقہ کی ضرورت سمجھا جاتا ہے اتنا مرد کے اوپر واجب ہے ۔ البتہ خاندانی نظام میں انفاق کے بارے میں لوگوں کی عمومی رہنمائی کی بنایدیں بتائی ہیں۔ جس طرح خاندان پر خرچ کے بنیادی نظام کی جانب اسلام نے رہنمائی کی ہے۔ مثال کے طور پر ہم قرآن میں "عباد الرحمن" خدا کے بندوں کی جو صفات بیان کی ہیں ان کو دیکھتے ہیں۔ کہ جو شریعت کے احکام پر عمل کرنے میں اعلی مثال ہیں ، وہ احکام کہ جن پر عمل کرنا افراد اور گروہوں کے لئے ضروری ہے ، اور گھر کا وہ بجٹ کہ جس کومنظم کرنے اور اسراف سے بچتے ہوئے اس کی تدبیر کرنا عورت کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔(والذين إذا أنفقوا لم يسرفوا ولم يقتروا وكان بين ذلك قواماً) اور یہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل کرتے ہیں بلکہ ان کے درمیان اعتدال رکھتے ہیں۔ (الفرقان ـ 67)،  (وكلوا واشربوا ولا تُسرِفوا) اور کھاؤ اور پیو مگر اسراف نہ کرو، (الاعراف ـ 31)، (وآتِ ذا القربى حقّه والمسكين وابن السّبيل ولا تبذِّر تبذيراً ( اور قریب ترین رشتے دار کو اس کا حق دیا کرو اور مساکین اور مسافروں کو بھی اور فضول خرچی نہ کیا کرو۔ (الاسراء۔ 26) إنّ المبذِّرين كانوا اُخوان الشّياطين وكان الشيطان لربِّه كفوراً)) فضول خرچی کرنے والے یقینا شیاطین کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔ (الاسراء  ـ 27)، (ولا تجعل يدك مغلولة إلى عنقك ولا تبسطها كلّ البسطِ فتقعد ملوماً محسوراً)  اور نہ تو آپ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھ کر رکھیں اور نہ ہی اسے بالکل کھلا چھوڑ دیں، ورنہ آپ ملامت کا نشانہ اور تہی دست ہو جائیں گے۔ (الاسراء ـ29)

اسی طرح خاندان کے بجٹ ،خرچ اور نفقہ کی عمومی بنیادیں قوانین کو بھی دو پیرایوں میں معین کیا ، یعنی قانون سازی و تربیت ، اوراخلاقی ہدایات ۔ اوریہی دونوں اجتماعی اور خاندانی پیرائے ہیں ۔ ان قوانین سے جہاں مرد کے اوپر عورت کے نفقے کا وجوب ۔حتی کہ طلاق رجعی کی عدت کے دوران بھی ۔ ثابت ہوتا ہے بلکہ امور خانہ داری ، گھر کے اقتصاد اورخاندان کے مالی معاملات میں عورت کے اہم ترین کردار اور خاتون خانہ کا خرچ میں اعتدال ، دکھاوے کی خواہش سے احترازکی کوشش جیسی خوبیاں بھی واضح ہو کر سامنے آتی ہیں ۔ (أسكنوهنّ من حيثُ سَكنتُم مِن وُجْدِكُم وَلا تَضارُوهُنَّ لِتُضَيِّقوا عَلَيهِنّ وَإن كُنّ أُوْلاتِ حَمْل فَأنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ فَإنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنّ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُمْ بِمَعْرُوف وَإنْ تَعاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرى)

ان عورتوں کو (زمانہ عدت میں) بقدر امکان وہاں سکونت دو جہاں تم رہتے ہو اور انہیں تنگ کرنے کے لیے تکلیف نہ پہنچاؤ، اگر وہ حاملہ ہوں تو وضع حمل تک انہیں خرچہ دیتے رہو پھر اگر تمہارے کہنے پر وہ دودھ پلائیں تو انہیں (اس کی) اجرت دے دیا کرو اور احسن طریقے سے باہم مشورہ کر لیا کرو اور (اجرت طے کرنے میں) اگر تمہیں آپس میں دشواری پیش آئے تو (ماں کی جگہ) کوئی اور عورت دودھ پلائے گی۔ (الطلاق ۔6) (لِيُنْفِقْ ذُو سَعَة مِن سَعَتِهِ وَمَن قَدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمّا آتاهُ اللهُ لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْساً إلاّ ما آتاها سَيَجْعَلُ اللهُ بَعْدَ عُسْر يُسْراً) وسعت والا اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرے اور جس پر اس کے رزق میں تنگی کی گئی ہو اسے چاہیے کہ جتنا اللہ نے اسے دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرے، اللہ کسی کو اس سے زیادہ مکلف نہیں بناتا جتنا اسے دیا ہے، تنگدستی کے بعد عنقریب اللہ آسانی پیدا کر دے گا۔ (الطّلاق ۔7)