مادہ پرست اس دنیا کو فقط مادہ سمجھتے ہیں اور وہ کائنات کو حواس مادی کے مطابق ہی دیکھتے ہیں جن کا دائرہ طبیعت کی حد تک کیا ماوراء مادہ بھی کوئی اورشی ہے انکو اسکی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ انکا نظریہ یہ ہے کہ موت بھی عدم کی طرح محض فنا ہے اور زمانے کو وجود پر حکمرانی حاصل ہے (فقط زمانہ ہی سب کچھ ہے اور کوئی خدا نہیں جس نے انکو عدم سے وجود بخشا ہو )وہ در اصل اس آیت کے مصداق ہیں
((وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ ۚ وَمَا لَهُم بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ))(سورة الجاثية ـ 24)
“ اور وہ کہتے ہیں: زندگی تو بس یہی دنیاوی زندگی ہے (جس میں) ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہی مارتا ہے اور انہیں اس کا کچھ علم نہیں ہے، وہ صرف ظن سے کام لیتے ہیں”(جاثیہ /24)
انکی نظر میں انسان بھی کائنات کی مانند فقط مادہ ہے اور اسکے پاس فقط لذت اور فائدہ اٹھانے کے لئے خاص شکل کا جسم ہے اور اس بدن کی حقیقت فقط اسکا (مادی )ہونا ہے اور انسان کی مرد و عورت کے اعتبار سے کوئی نوع دوسرے پر فضیلت نہیں رکھتی بلکہ یہ دیگر جمادات اور حیوانات کی مانند فقط اجسام ہیں ۔
یہ بعینہ وہ شی ہے جس کے لئے مغربی مادیت پسند فلاسفر نے ہاتھ پاؤں مارے ہیں اور انسان کو ایک فضلہ قرار دیتے ہوئے اسکی جنس و نوع کو چھین لیا ہے اور اس قسم کی لغویات پر صفحات بھر دئیے ہیں اس بات سے ہٹ کر انہوں نے انسان کو جنس ثالث اور رابع کا نام دیکر بھی اسکی توہین کی ہے اور اسکے علاوہ ایسے ایسے نام دئیے ہیں جو انسانی تخلیق کی فطرت سے قطعاً مناسبت نہیں رکھتے ہیں حتی کہ انہوں نے اس بنا پر ہم جنس پرستی کو بھی جائز قرار دیا ہے، انہوں نے عورت سے اسکی شناخت اور پہچان بھی چھین لی ہے اور وہ جملہ امتیازات اور خصوصیات جو اللہ نے خواتین کو عطا کی تھیں اورانسانی زندگی میں ان کی عمومی شناخت جیسے حاملہ ہونا، دودھ پلانا اور اسکے علاوہ وہ سب جو اسکی طبعی خلقت سے سازگارحیثیت تھی (سب چھین لیں) اور اس کو فقط تفریح کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جس سے وہ اپنی نسوانی خوبصورتی کھو بیٹھی ۔ اس کے علاوہ مغرب نے عورت سے اس منصبِ عاطفت کو بھی چھین لیا ہے جس کے ذریعہ وہ انسانی نسل کو دوام دے سکتی ہے اور اور اسکی پرورش کر سکتی ہے جس طرح اللہ نے اسکی فطرت قرار دی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ معاشرہ میں اس اجتماعی تربیت کا فقدان بھی ہوا جوفقط عورت کی فطرت ہی کے سبب پیار و محبت اور شفقت کے ذریعہ وجود میں آتا ہے اور عورت اسی کیساتھ انسانی معاشرے کو فیض یاب کرتی ہے ۔
ایک ایسی فکر کے ساتھ وہ جس چیز کی طاقت رکھتے تھے انہوں نے غیر فطری جنسی طریقہ عام کیا اور ایسے راستے اختیار کئے جن سے انسانی طبیعت نفرت کرتی ہے اور اس سے ایسی نسلیں وجود میں آئیں جو خاندان کے معنی بھی نہیں جانتی تھیں اور نہ ہی انکی اپنی نظر میں اسکی کوئی وقعت تھی اور یہ چیز اس بات کا مقدمہ قرار پائی کہ انسان کا وجود ایک بے معنی شی ہے اور اسکا روح سے کوئی تعلق نہیں۔
اسکے برعکس اسلام نے انسان کو مادہ پرستوں کے برخلاف یہ سمجھایا کہ وہ ایک ایسی مخلوق ہے جو جسم و روح رکھتی ہے جواپنے بنانے والے کے بہت قریب ہے اور اللہ نے اسے عظیم خلقت سے نوازا اور اسے زمین پر اپنا جانشین قرار دیا ہے۔
اسی طرح انسان دو انواع یعنی مرد و عورت میں سے کسی ایک صفت کا حامل ہوتا ہے اور انکا اپنے خدا سے تقرب کوئی فرق نہیں رکھتا اور نہ ہی خدا انکی نوع(مردوزن ) کی بناء پر کوئی تفریق کرتا ہے بلکہ قرآنی خطاب میں اللہ فقط انکے عمل اور تقوی کو دیکھتا ہے
((مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ))(سورة النحل ـ 97)، وقوله تعالى: ((يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ))(سورة الحجرات ـ 13(
" جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی ضرور عطا کریں گے اور ان کے بہترین اعمال کی جزا میں ہم انہیں اجر (بھی) ضرور دیں گے” (النحل /97) اور قول پروردگار ہے “اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والا، باخبر ہے" (الحجرات /13) یعنی خدا کی ذات فقط ایمان عمل اور عقیدہ دیکھتی ہے اسکے علاوہ کچھ نہیں ۔
مردو عورت میں فرق کسی تفریق کے لئے نہیں بلکہ تمیز اور پہچان کے لئے ہے کیونکہ ان میں کمال کے لحاظ سے کوئی تفریق نہیں ہے ان میں کسی ایک کو اگر دوسرے پر کوئی نہ کوئی فضیلت حاصل ہے تو ایک لحاظ سے مرد ،عورت سے افضل ہے اور دوسرے لحاظ سے عورت افضل ہے اور یہ چیز انکی ایک دوسرے پر تفضیل کے لئے معیار نہیں بنتی ہے بلکہ فقط تمیز کے لئے ہے اور مرد کی عورت پر فوقیت اسکی فضیلت نہیں بلکہ اسکے بدنی قوت کی فضیلت ہے اور اسکے مقابل عورت کے پاس قوت عاطفت ہے۔ اس لحاظ سے کبھی عورت کی شفقت و عاطفت کا جذبہ مرد کی بدنی طاقت پر برتری لے جاتا ہے۔ پس ہمیں سوچنا چاہئے کہ اگر یہ معاشرہ اس جذبہ سے خالی ہو تو یہ لاشعوری طور پر بچوں اور انکی زندگی نیز انکی تربیت و نشوونما کے حوالہ سے فقدان تک پہنچ جائے گا اسکی عکاسی معاشرے کی اجتماعی زندگی میں لازم ہوتی ہے لہذا جب بھی عورت معاشرے کو اپنی سچی شفقت اور مخلصانہ تربیت مہیا کرے گی وہ معاشرہ ممتاز اور مثالی ہو گا
لہذا انسانی جسم میں مرد و زن کی تقسیم ان کے مابین تفریق و تفاضل کے لئے نہیں بلکہ یہ مطلوب و مقصود تفاوت ہے بلکہ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کردار متعدد ہیں (الگ الگ ہیں )لیکن مقصد وہدف ایک ہے ۔
مرد کی طاقت عورت کی جسمانی کمزوری پر ممتاز ہے جبکہ دوسری جانب عورت کا شدید جذبہ عاطفت اور اسکی نرم مزاجی مرد کی تندمزاجی اور خشکی پر فوقیت رکھتی ہے۔ اور قدرت الہی تو یہ چاہتی ہے کہ اسکے جذبہ عاطفت کو قوت جسمانی سے ملا دے تاکہ ایک متوازن خاندان کو تشکیل دے اور اس سے منظم معاشرہ وجود میں آئے ۔
یہ عورتوں اور مردوں کے مابین ایک حقیقت پسندانہ نظریہ ہے لہذا اسلام نے عورت کے متعلق خاص نظریہ اختیار کیا اور اسے مردوں کے شانہ بہ نشانہ زندگی کے معاملات سنبھالنے میں اسکا شریک قرار دیا اور اس مادی تصور کو قبول نہیں کیا جس میں عورت فقط جسمانی لذت تک محدود ہے کیونکہ اس کے سبب اسکی وہ صفت عاطفت چھن جاتی ہے جو مرد کے قوت بدنی کے ساتھ (معاشرہ سازی میں ) شرط ہے اس طرز عمل سے ہم معاشرے میں انسانی حیات کے اہم ترین مرکز کو کھو دیں گے اور اسکو اس وظیفے سے ہٹا دیں گے جسکے لئے اللہ نے عورت کو پیدا کیا ہے اور پھراس کے سبب معاشرہ میدان جنگ کی صورت اختیار کر لیتا ہے جس میں تشدد اور طاقت کے سوا کچھ جائز نہیں سمجھا جاتا اور یہ اسکے جلد زوال کا سبب بنتا ہے (عقل حکم لگا دیتی ہے کہ ایسا معاشرہ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا )
مرد و زن میں یہ تخلیقی تقسیم انکے انتظامی ذمہ داریوں کے فرق کی وجہ سے ہے مرد کی ذمہ داری طعام اور ضروریات زندگی اور اسباب حیات کو مہیا کرنے میں مضمر ہے جبکہ عورت کا منصب اسکی عاطفت کی بدولت نسل کی بقا اور اسکی تربیت میں مضمر ہے اس لحاظ سے مرد و زن میں سے کسی کوبھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے امتیازات دوسرے پر فوقیت دینے کا سبب جانے۔
خصوصاان انتظامی عہدوں پر بہت بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن سے کسی بھی صورت میں چشم پوشی نہیں کی جا سکتی وگرنہ بد نظمی اور بے راہ روی معاشرہ پر راج کرے گی ۔