- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


قرآن کی نظر میں موت کی حاکمیت اور اس کا اٹل ہونا
9 ذو الحجة 1443هـ

موجودات کی موت، زندہ اور اشیاء کی موت کا معنی

قرآن اللہ کی کتاب ہے جو بہت دقیق اور وسیع ہے۔ بلکہ یہ اس سے پہلے کی کتابوں اور صحیفوں کی خاتم ہے ۔چونکہ قرآن کریم کی عمومیت زندگی اور اس کے تمام پہلوؤں کو شامل ہے لہذا اس کاتقاضا یہ ہے کہ ہر شے کا بیان اس میں ہو۔ یعنی کچھ پہلے واقع ہوچکا ہے اور جو کچھ ابھی وقوع پذیر ہو رہا ہے اور جو واقع ہونے واا ہے اس سب کے بارے میں قرآن کا بیان اس طرح سے ہو کہ انسان اس حوالے سے کسی اور کتاب یا چیز کا ہرگز محتاج نہ رہے۔

البتہ قرآن ایک آسمانی کتاب ہے، ا س کا بنیادی مقصد تشریع و تقنین ہے ۔ لہذا یہ تاریخ یا دوسرے علوم کی کتاب نہیں ہے۔ البتہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ قرآن ہر چیز کا ذکر بھی کرتا ہے اور انتہائی باریکی کے ساتھ نئے رونما ہونے والے حوادث کو احاطہ کئے ہوئے ہے۔ خاص طور سے اس کا علمی اور سائنسی لحاظ سے معجزہ ہونے کا پہلو کہ ہم آئے دن نئے نئے ایجادات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ جن کے متعلق قرآن نے کہیں کہیں اشاروں کے ذریعے بتادیا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن کریم ہر چیز پر احاطہ رکھتا ہے۔ لیکن ہم اس سے واقف نہیں ہیں۔ خاص طور پر خلا اور فلک کے متعلق کہ جس کے بارے میں قرآن کریم میں حیرت انگیز انداز سے بتایا گیا ہے ۔ جو کہ سائنسی اور معاشروں میں تاریخی سنتوں کے اعتبار سے بعید نظر آتا ہے۔ چہ جائے کہ تشریعی اعتبار سے ان کو سمجھا جاسکے۔ قرآن کریم نے کچھ خاص چیزوں کو بہت باریکی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ جس کی جانب آدمی پہلے متوجہ بھی نہیں ہوسکا ہے۔ ان میں سے ایک موت کا قطعی ہونا ہے، یہ صرف انسان کی حد تک نہیں ہے، بلکہ اس کا دائرہ تو معاشروں اور جہانوں تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو سماجی اور سیاسی علوم کی بنیادی اکائی ہوسکتی ہے بلکہ یہ ہر زندہ شے کے بارے میں جاننے کی بنیاد بن سکتی ہے ۔ ( موت کے ذریعے سے کسی کے زندہ ہونے کو سمجھا جاتا ہے )

قرآن کے مطابق موت کو تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے یعنی موت جن پر واقع ہوتی ہے اس لحاظ سے، اور وہ اقسام یہ ہیں :

فرد کی موت

قرآن کریم کبھی موت کو فرد کی مدت کے ختم ہونے کے اعتبار سے ذکر فرماتا ہے، اس میں سارے افراد یکساں حیثیت رکھتے ہیں، کیونکہ موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جو ہر مخلوق پر آکر رہے گی، پس اس آباد دنیا میں رہنے والے ہر شخص پر ایک نہ ایک دن موت آئے گی چاہے وہ جتنی بھی طویل عمر کرے  اس کا خاتمہ ہر صورت میں موت پر ہی ہوگا،  اس لئے کہ قرآن کریم کا واضح ارشاد ہے

((وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ))(سورة الأنعام ـ 61)

ترجمہ:اور وہی خدا ہے جو اپنے بندوں پر غالب ہے اور تم سب پر محافظ فرشتے بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے نمائندے اسے اٹھالیتے ہیں اور کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔

نیز ارشاد فرمایا :

((وَأَنْذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُولُ الَّذِينَ ظَلَمُوا رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ نُجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ أَوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُمْ مِنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِنْ زَوَالٍ))()ابراهيم ـ 44)

 ترجمہ: اور آپ لوگوں کو اس دن سے ڈرائیں جس دن ان تک عذاب آ جائے گا تو ظالمین کہیں گے پروردگار ہمیں تھوڑی مدت کے لئے پلٹا دے کہ ہم تیری دعوت کو قبول کرلیں اور تیرے رسولوں کا اتباع کرلیں تو جواب ملے گا کہ کیا تم نے اس سے پہلے قسم نہیں کھائی تھی کہ تمہیں کسی طرح کا زوال نہ ہوگا۔

پھر ارشاد  خدا وندی ہوتا ہے :

((ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ (14) ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ لَمَيِّتُونَ (15) ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ))(اسورة المؤمنين ـ 14 ـ16

)ترجمہ: پھر نطفہ کو علقہ بنایا اور پھر علقہ سے مضغہ پیدا کیا ہے اور پھر مضغہ سے ہڈیاں پیدا کی ہیں اور پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا ہے اور پھر ہم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنا دیا ہے تو کس قدر بابرکت ہے وہ خدا جو سب سے بہتر خلق کرنے والا ہے ۔ . (۱۴) پھر اس کے بعد تم سب مرجانے والے ہو (۱۵) پھر اس کے بعد تم روز قیامت دوبارہ اٹھائے جاؤگے (۱۶)

بلکہ یہ قاعدہ ہر اس پر جاری ہے جو زندہ شمار ہوتا ہے۔ یہ قاعدہ تمام مادی مخلوقات جو روئے زمیں پر چلتے ہیں ان سب کو شامل ہے بلکہ اس سے جیلیٹینس والی مخلوقات جیسے فرشتے اور جنات بھی خالی نہیں ہیں ۔ جیسا کہ قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے:

 ((كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ))(سورة أل عمران ـ185  (

ترجمہ: ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے اور تمہارا مکمل بدلہ تو قیامت کے دن ملے گا اس وقت جسے جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل  کردیا گیا وہ کامیاب ہے اور زندگانی دنیا تو صرف دھوکہ کا سرمایہ ہے ۔" لیکن اس موت کے اٹل ہونے کے بارے میں حیران کن بات یہ ہے کہ یہ انسانوں کے علاوہ دوسری مخلوقات پر بھی ضرور آتی ہے اور اس موت سے اقوام و ملل اور معاشرے بھی دوچار ہوتے ہیں۔

امت کی موت:

فرد کی طرح امم بھی ہیں جن کی ایک مدت ہے جس کے بعد وہ بھی موت کے انجام سے دوچار ہوجاتی ہیں اور ان کا بھی اس پر خاتمہ ہوجاتا ہے۔ خاص طور سے کوئی بھی امت ہو یہ تو وہی اجتماعی وجود ہے جو انسانی افراد اور گروہوں پر مشتمل ہے ۔ یہی مرتا اور زوال و فنا کا شکار ہوتا ہے ، بالکل اسی طرح جس طرح ایک فرد  مر جاتا ہے تو اس کی حیات کا خاتمہ ہوجاتا ہےاسی طرح معاشرے بھی اجل کا شکار ہوتے ہیں، ا س لئے کہ یہ ایک سنت الٰہیہ ہے جس سے معاشرے بھی خالی نہیں ہیں، جس طرح ان معاشروں کے افراد موت سے  دوچار ہوتے ہیں اسی طرح معاشرے بھی موت کا سامنا کرتے ہیں۔ لہذا ہماری یہ امتیں اور ہماری تہذیبیں چاہے روحی ہوں یا مادی وہ بھی نہیں رہیں گی یہ بھی ماضی کی امتوں کی طرح فناء و زوال کا شکار ہوجائیں گی ، جس طرح قوم سباء ختم ہوگئی، چنانچہ قرآن اس سلسلےمیں ارشاد فرماتا ہے:

((لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ ۖ جَنَّتَانِ عَن يَمِينٍ وَشِمَالٍ ۖ كُلُوا مِن رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوا لَهُ ۚ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ (15) فَأَعْرَضُوا فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنَاهُم بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَيْ أُكُلٍ خَمْطٍ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِّن سِدْرٍ قَلِيلٍ (16) ذَٰلِكَ جَزَيْنَاهُم بِمَا كَفَرُوا ۖ وَهَلْ نُجَازِي إِلَّا الْكَفُورَ (17) وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَقَدَّرْنَا فِيهَا السَّيْرَ ۖ سِيرُوا فِيهَا لَيَالِيَ وَأَيَّامًا آمِنِينَ (18) فَقَالُوا رَبَّنَا بَاعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا وَظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ فَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ وَمَزَّقْنَاهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ (19))(سورة سبأ ـ 15 ـ19)

 ترجمہ : اور قوم سباء کے لئے ان کے وطن میں ہی ہماری نشانی تھی کہ داہنے بائیں دونوں طرف باغات تھے تم لوگ اپنے پروردگار کا دیا رزق کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو تمہارے لئے پاکیزہ شہر اور بخشنے والا پروردگار ہے  (۱۵) مگر ان لوگوں نے انحراف کیا تو ہم نے ان پر بڑے زوروں کا سیلاب بھیج دیا اور ان کے دونوں باغات کو ایسے دو باغات میں تبدیل کردیا جن کے پھل بے مزہ تھے اور ان میں جھاؤ کے درخت اور کچھ بیریاں بھی تھیں (۱۶) یہ ہم نے ان کی ناشکری کی سزادی ہے اور ہم ناشکروں کے علاوہ کس کو سزا دیتے ہیں (۱۷)اور جب ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں کچھ نمایاں بستیاں قرار دیں اور ان کے درمیان سیر کو معین کردیا کہ اب دن و رات جب چاہو سفر کرو محفوظ رہوگے( ۱۸) تو انہوں نے اس پر بھی یہ کہا کہ پروردگار ہمارے سفر دور دراز بنادے اور اس طرح اپنے نفس پر ظلم کیا تو ہم نے انہیں کہانی بنا کر چھوڑ دیا اور انہیں  ٹکڑے کردیا کہ یقینا اس میں صبر وشکر کرنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں پائی جاتی ہیں (۱۹)

اور قوم عاد کے بارے میں آیا ہے :

((وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّأَكُمْ فِي الْأَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِن سُهُولِهَا قُصُورًا وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُيُوتًا ۖ فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ))(سورة الأعراف ـ 74)، ترجمہ :

اور اس وقت کو یاد کرو جب اس نے تم کو قوم عاد کے بعد جانشین بنایا اور زمین میں اس طرح بسایا کہ تم ہموار زمینوں میں قصر بناتے تھے اور پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر گھر بناتے تھے تو اب اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔"(۷۴)

اور قوم مدین اور ثمود کے انجام کا بھی قرآن میں ذکر آیا ہے :

((كَأَنْ لَمْ يَغْنَوْا فِيهَا أَلَا بُعْدًا لِمَدْيَنَ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُودُ)) (سورة هود ـ 95)

ترجمہ: جیسے کبھی یہاں بسے ہی نہیں تھے اور آگاہ ہوجاؤ کہ قوم مدین کے لئے ویسے ہی ہلاکت ہے جیسے قوم ثمود ہلاک ہوگئی تھی ۔(۹۵)ایسے ہی روم اور فارس والوں کا بھی تذکرہ ہوا ہے :  

((غُلِبَتِ الرُّومُ (2) فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ (3) فِي بِضْعِ سِنِينَ ۗ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ ۚ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ (4) بِنَصْرِ اللَّهِ ۚ يَنصُرُ مَن يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ (5))(سورة الروم ـ 2 ـ5)

ترجمہ : روم والے مغلوب ہوگئے (۲) قریب ترین علاقہ میں لیکن یہ مغلوب ہوجانے کے بعد  عنقریب پھر غالب ہوجائیں گے (۳) چند سال کے اندر ، اللہ ہی کے لئے اول و آخر ہر زمانے کا اختیار ہے اور اسی دن صاحبان ایمان خوشی منائیں گے (۴) اللہ کی نصرت و امداد کے سہارے کہ وہ جس کی مدد چاہتا ہے کردیتا ہے اور وہ صاحب عزت بھی ہے اور مہربان بھی (۵) ۔

بنو اسرائیل کے متعلق قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے :

((وَلَمَّا وَقَعَ عَلَيْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوا يَا مُوسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِندَكَ ۖ لَئِن كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِي إِسْرَائِيلَ  (134)

ترجمہ : اور جب ان پر عذاب نازل ہوگیا تو کہنے لگے  کہ موسی اپنے رب سے دعا کرو جس بات کا اس نے وعدہ کیا ہے اگر تم نے اس عذاب کو دور کرادیا تو ہم تم پر ایمان بھی لائیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے حوالے بھی کردیں گے (۱۳۴)۔(۱۳۷) ولمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ إِلَىٰ أَجَلٍ هُم بَالِغُوهُ إِذَا هُمْ يَنكُثُونَ (135)

ترجمہ :" اس کے بعد جب ہم نے ایک مدت کے لئے عذاب کو برطرف کردیا تو پھر اپنے عہد کو توڑنے والوں میں شامل ہوگئے

فَانتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غَافِلِينَ (136)

ترجمہ: "  پھر ہم نے ان سے انتقام لیا اور انہیں دریا میں غرق کردیا کہ انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا اور ان کی طرف سے غفلت  برتنے والے تھے

 وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۖ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَىٰ عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا ۖ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُوا يَعْرِشُونَ(137))

ترجمہ :اور ہم نے شرق و غرب زمین کا وارث بنادیا اور اس میں برکت عطاکردی اور اس طرح بنی اسرائیل پر اللہ کی بہترین بات تمام ہوگئی کہ انہوں نے صبر کیا تھا اور جو کچھ فرعون اور اس کی قوم والے بنارہے تھے ہم نے سب کو برباد کردیا اور ان کی اونچی اونچی عمارتوں کو مسمار کردیا ۔

ان امتوں کے علاوہ سینکڑوں دوسری امتیں کہ جن کا ذکر قرآن کریم اشارتا  بیان کرتا ہے

((وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ))(سورة الأعراف ـ34)

ترجمہ: ہر قوم کے لئے ایک وقت مقرر ہے جب وہ وقت آجائے گا تو ایک گھڑی کے لئے نہ پیچھے ٹل سکتا ہے اور نہ آگے بڑھ سکتا ہے (۳۴)۔  

بلکہ ان کی موت یقینی اور اسی وقت ہی آجائے گی جب اس کا وقت ہوجائے گا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امتوں پر موت کا انطباق افراد کی موت کے ساتھ بہت زیادہ شباہت رکھتا ہے اور ان کو بھی موت سے فرار حاصل نہیں ہے ۔

جہاں کا فنا ہونا:

موت  افراد اور امتوں سب پر آتی ہے ، پس موت ہی وہ چیز ہے جو ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے ، زندہ ہو یا کوئی جاندار، چھوٹا سا ذرہ ہو یا ایک بڑے جسم والا سب کو موت کی گھڑی سے ہمکنار ہونا ہوگا ، تاکہ  سوائے اللہ حی و قیوم  کے سب کچھ فنا ہوجائے گا۔ ،

(( كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ (26) وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ (27))(سورة الرحمن ـ 26 ـ.27ـ( 

ترجمہ: جو بھی روئے زمین پر ہے سب فنا ہوجانے والے ہیں۔ (۲۶) اور صرف تمہارے رب کی ذات جو صاحب جلال و اکرام ہے وہی باقی رہنے والی ہے (۲۷)

یہاں ہم ان لوگوں کو رد کرنا چاہتے ہیں جو زندوں کے علاوہ میں موت کے تصور پر سوال اٹھاتے ہیں، ان کے نزدیک موت تو صرف ذی روح کے لئے ہوتی ہے، ان کو ہمارا یہ جواب ہے کہ اشیاء کی موت ( چاہے چھوٹی ہوں یا بڑی ) عبارت ہے فنا  و تبدیل و تغیر سے، جیسے آسمان کا شق ہونا اور اس کے رنگ کا بدل جانا

((فَإِذَا انشَقَّتِ السَّمَاءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِ))(سورة الرحمن ـ 37) ترجمہ: پھر جب آسمان پھٹ کر تیل کی طرح سرخ ہوجائے گا ۔"  اسی طرح سورج کا تبدیل ہوکر تاریک ہوجانا اور ستاروں کا بے نور ہوجانا ، پہاڑوں کا حرکت میں آجانا اور حمل کا  معطل ہوجانا، سمندروں کا آگ میں بدل جانا , قرآن کریم ان سب کے بارے میں یوں ارشاد فرماتا ہے:

((إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ (1) وَإِذَا النُّجُومُ انكَدَرَتْ (2) وَإِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْ (3) وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ (4) وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ (5) وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ(6))(سورة التكوير ـ 1 ـ 6) )،

ترجمہ: جب چادر آفتاب کو لپیٹ دیا جائے گا (۱) جب تارے گر پڑیں گے (۲) جب پہاڑ حرکت میں آجائیں گے (۳) جب عنقریب جننے والی اونٹنیاں معطل کردی جائیں گی (۴) جب جانوروں کو اکٹھا کیا جائے گا (۵) جب دریا بھڑک اٹھیں گے (۶)اسی طرح آسمان کا پھٹ جانا اور اس کا شق ہوجانا:

((إِذَا السَّمَاءُ انفَطَرَتْ (1) وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انتَثَرَتْ (2) وَإِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ  (3) وَإِذَا الْقُبُورُ بُعْثِرَتْ (4) عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَأَخَّرَتْ(5))

ترجمہ: "  جب آسمان شگافتہ ہوجائے گا (۱) اور جب ستارے بکھر جائیں گے (۲) اور جب دریا بہ کر ایک دوسرے سے مل جائیں گے (۳) اور جب قبروں کو ابھار دیا جائے گا (۴) تب ہر نفس کو معلوم ہوگا کہ کیا مقدم کیا ہے اور کیا مؤخر کیا ہے (۵)

(سورة الانفطارـ 1 ـ 5)، ((إِذَا السَّمَاءُ انشَقَّتْ (1) وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ (2) وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ (3) وَأَلْقَتْ مَا فِيهَا وَتَخَلَّتْ (4) وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ(5))(سورة الانشقاق ـ 1 ـ 5) 

ترجمہ: جب آسمان پھٹ جائے گا (۱) اور اپنے پروردگار کا حکم بجا لائے گا اور یہ ضروری بھی ہے (۲) اور جب زمین برابر کر کے پھیلا دی جائے گی (۳) اور وہ اپنے ذخیرے پھینک کر خالی ہوجائے گی (۴) اور اپنے پروردگار کا حکم بجا لائے گی اور یہ ضروری بھی ہے (۵) یہ سب موجود کی علامات موت ہیں، کہ یہ سب کچھ فنا ہوجائے گا بس اللہ سبحانہ و تعالی جو اجل و اکرم ہے وہی باقی ہے:

(( كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ (26) وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ)(سورة الرحمن ـ 26 ـ27)