اسلام جس طرح امت کے معاملات کا انتظام اور حقیقی اسلامی حکومت کی تعمیر کا قیام چاہتا ہے اسکی حقیقی تصویر امام علی علیہ السلام کی خلافت میں تجربہ سے حاصل ہوتی ہے ۔جو اپنی نوعیت کا بہترین ،واحد اور مثالی تجربہ تھا اور خصوصا اس لیئے کہ وہ اس دور میں تھا جس میں ملک شام میں اموی حکومت کی تاسیس کردہ سیاسی سرکشی کا محور نظام بھی رائج تھا لیکن لوگوں پر سیاست اور شہروں کے معاملات چلانے کی بابت ایک عمدہ مثالی حکومت امام علی علیہ السلام کی عدالت سے پیدا ہوئی باوجود یہ کہ امام علی علیہ السلام نے کئی عسکری جنگوں اور کئی اقتصادی اور اجتماعی جنگوں کا سامنا کیا ۔علاوہ ازیں ان سرد جنگوں کے شعلے اس وقت سے خاموش نہیں ہوئے تھے جب سے امام ؑ نے حکومتی معاملات کی چابیاں سنبھالیں خواہ وہ بنی قریش کے داخلی لشکر کی جانب سے ہو یا شام و بصرہ جیسے بیرون لشکروں کی جانب سے باوجود یہ کہ امام علی علیہ السلام سلطنت کو قبول کرنے میں سب سے زیادہ زاہد تھے اور اس میں دلچسپی لینے کے معاملےمیں سب سے زیادہ پرہیز گار حتی کہ جب خلیفہ ثالث کی وفات کے بعد لوگوں نے آپ کے ہاتھ بیعت کرنے کا کہا تو آپ نے انہیں یوں فرمایا
"مجھے چھوڑو اور میرے علاوہ کسی اور سے خلافت کی بات کرو اور آگاہ رہو کہ اگر میں نے خلافت قبول کر لی تو تمہیں اس پر سوار کرونگا جسے میں ہی جانتا ہوں تو پھر کسی رائے دینے والے کی رائے نہیں سنوگا اور نہ ہی کسی تنگ کرنے والے کے دباؤ کو خاطر میں لاؤں گا تمہارے لیئے بہتر ہے اس سے کہ میں تمہارا امیر بن جاؤں "
مگر جب آپؑ نے بحالت مجبوری خلافت کو قبول فرما لیا تو آپ ؑ نے حکومت کو عادلانہ شکل میں چلایا کہ تاریخ میں جس کی مثال کبھی نہیں ملتی جسکی ابتدامیں آپ ؑ نے ایسا ماحول پیدا کرنے سے فرمائی جو امت کے درست سمت سفر اور صحیح منھج نبوی پر کاربند رہنے سے سازگار ہو کیونکہ آپؑ کی امامت دراصل نبوت محمدیہ کا نتیجہ ہے آپ ؑ سے پہلے خلافتوں کے دور میں جو مفاسد پیدا ہوئے اسکے بعد کا مرحلہ جن اصلاحات کا تقاضا کرتا ہے انکو تاسیس کرنے سے آپ ؑ نے خلافت کے ارتقاء کو مکمل فرمایا ۔آپؑ کا سیاسی منصوبہ اس عظیم نبوی حکومت کا برحق تتمہ تھا جسکی بنیادیں نبی اکرم ﷺ نے خود استوار فرمائیں اور بلاشبہ آپؑ نے ایسی پرحکمت سیاست کے طریقہ کار کو اپنایا جس کا معنی یہ تھا کہ حکام محکومین کی بیعت کو رغبت اور فرمہ داری سے قبول فرمائیں ترغیب اور ترہیب سے دور رہتے ہوئے اور پھر ایسا ہی ہوا دیکھیں کہ امام ؑکیا فرما رہے ہیں کہ ایسے تمام لوگوں میں سے اس خلافت کا اہل وہ ہے جو اس کے نظم و نسق کے برقرار رکھنے کی سب سے زیادہ قوت (صلاحیت)رکھتا ہو اور اسکے بارے میں اللہ کے احکام کو سب سے زائد جانتا ہو اس صورت میں اگر کوئی فتنہ پرواز فتنہ کھڑا کرتے تو پہلے اسے تو یہ بازگشت کے لیئے کہا جائے گا اگر وہ انکار کرئے تو اس سے جنگ و جدال کیاجائے گا ۔
مجھےاپنی جان کی قسم ! اگر خلافت کا انعقاد تمام افراد امت کے ایک جگہ اکٹھا ہونے سے ہو تو اسکی کوئی سبیل نہیں، بلکہ اسکی صورت تو انہوں نے یہ رکھی تھی کہ اس کے کرتا دھرتا لوگ اپنے فیصلہ کا ان لوگوں کو بھی پابند بنائیں گے جو (بیعت کے وقت)موجود نہ ہوں گے پھر موجود کو یہ اختیار نہ ہوگا کہ وہ (بیعت سے )انحراف کرئے اور یہ غیر موجود کو یہ حق ہوگا کہ وہ کسی اور کو منتخب کرئے۔
کیونکہ آپؑ نے انتہائی وضاحت کے ساتھ جس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں نفی فرمائی ہے ہر اس بیعت کی جو حاکم کو حاصل ہو یکسر نظر انداز کرکے اور دراصل اس میں آپؑ اپنے سے پہلی اور والی حتی کہ شام میں آپکی معاصر بیعتوں کی طرف اشارہ فرماء رہے تھے،باوجود ان سیاسی اور عسکری مشکلات کے جوآپکے زمانہ خلافت سنبھالتے ہی آپکو درپیش ہوئیں آپؑ نے مضبوط حکومت کی بنیادوں کو بنانے میں انتھک جدوجہد فرمائی اور اس میں آپ ؑحکومت کے قیام میں بنیادی و جوہری عناصر اور محکومین کی رضا سے حکومت کے نفوذ کو بڑھانے جیسے قواعد پر اعتماد کیا ان عناصر میں سے کچھ یہ ہیں ۔
1:عادلانہ مالی سیاست:
آپؑ نے اپنے کندھوں پر گزشتہ مالی نظام کا ذمہ اٹھا لیا کہ جو نظام ترجیحات کی بناء پر عطائیں کرنے اور قرابت ،رفاقت اور صحبت کی بنیاد پر لوگوں کے مابین تفریق کرتے ہوئے خزانے لوٹانے پر استوار تھا اور یہی چیز باعث بنی کہ آپؑ مالیاتی نقطہ نظر سے حقوقی مفاہیم میں جوہری فرق کو ایجاد فرمائیں اور یوں آپؑ نے ایک طرف سے عوام اور دوسری جانب سے حاکم قوتوں کی سطح پر ترجیحات کیں اور خصوصا آپ نے نبی اکرمﷺ کے طریقہ پر لوگوں کے درمیاں مساوات کی روشنی کو اپنایا اس سیاست کو مسترد کرتے ہوئے جو عدل و حق کے معیارکوسوں دور ذاتی نوعیت کے معیاروں کے مطابق مال کی تقسیم کی قاتل تھی اور اسی عدل و انصاف کی روشنی پر کاربند رہنے کے نتیجہ میں متنوع اور بڑے پرخطر ردعمل کا سامنا کرناپڑا اور خصوصا ان افراد سے جنکے مساوات اس عدالت سے نقصان کا شکار ہوتے تھے وہ بطورخاص گزشتگان کے نوازے ہوئے اور گزشتہ کے قریبی افراد ہے اور ظاہر ہے کہ وہ گزشتہ خلفاء کے قریبی اور بڑے بڑے نام اور منصب والے لوگ تھے۔
2: بہترین انتظامی سیاست:
آپ ؑ کی حکومت میں مدیریت سے مربوط عہدوں کے سونپنے میں قدرت اور استطاعت کی روشنی کے مطابق ان لوگوں کا انتخاب فرمایا جو عدل وانصاف کے تابع ہوں اور ظاہر ہے کہ اسکا تقاضا تھا کہ مفادات اور قبائلی اغراض کے پیش نظر مقررکردہ گزشتہ حکومتوں کے تعینات یا خریداروں کو معزول کر کے انکی جگہ متبادل لوگوں کو لایا جائے اور یقینا یہ عدل و انصاف سے قریب تر سیاست کی داغ ڈالنے کے لیئے ضروری تھا کہ آپ نے مفاد پرستوں اور اغراض کے حامل افراد کو مسترد کیا اور انکی جگہ پر ایسے رشید افراد کو لائے جو انصاف سے سرشار ہوں اور خوف خدا سے آراستہ ہوں وہ دنیا کے طبقات سے بلند ہوں اور اسی موقع پر آپنے یہ عظیم فقرہ فرمایا تھا
)واللہ لا أداهن في ديني، ولا أعطي الدنية في أمري(
"بخدا میں اپنے دین میں چالاکی سے کام نہیں لوں گا اور نہ ہی اپنا معاملہ کسی گھٹیا کو دونگا "
3:اجتماعی نظام کی اصلاح اور تقویم :
گزشتہ خلفاء نے قبائلی صف آرا ئی کی سیاست اور خاندانی سیاست کی تقویت پر اعتماد کیا تاکہ عوام کے مقابلے ایک متین اور مضبوط دیوار کھڑی کی جاسکے اور یہ ایسی سیاست تھی جسکا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے اور خصوصا اسکے بعد کی جب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔ "لا فضل لعربی علی اعجمی الا بالتقوی"
"کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ہے سوائے تقوی کے"۔ اسی کو امام علی علیہ السلام نے عملی سطح پر نافذ کر دیکھایا اور اصلی اسلامی اقدار کو زندہ کیا جو عہد نبی اکرم ﷺ میں عام تھی اور وہ مساوات عامہ ، سماجی انصاف اور الفت پر مبنی اسلامی اقدار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ السلام نے فرمایا: "کہ لوگوں کی دو قسمیں ہیں یا تو وہ دین میں تمہارا بھائی ہے یا وہ خلقت میں تم جیسا ہے اور بلاشبہ آپؑ نے اپنے اس اصلاحی برنامہ کے مطابق اغلبیت کی رضا مندی کو پورا کر دکھایا یا سوائے ان افراد کے جو خفیہ انداز میں سلاطین جو کہ زیرتسلط رہے یا مادی اغراض کی خاطر انکے موافق اور جہاں تک ممکن ہوسکا آپؑ نے اقلیت کی رائے کا احترام کیا اور ان میں بطور مثال خوارج بھی تھے یہانتک کہ آپ ؑ نے فرمایا۔
"تمہیں سب طریقوں سے زیادہ وہ طریقہ پسند ہونا چاہیئے جو حق کے اعتبار سے بہترین، انصاف کے لحاظ سے سب کو شامل اور رعایا کے زیادہ سے زیادہ افراد کی مرضی کے مطابق ہو، کیونکہ عوام کی ناراضگی خواص کی رضا مندی کو بے اثر بنا دیتی ہے اور خواص کی ناراضگی عوام کی رضا مندی کے ہوتے ہوئے نظر انداز کی جاسکتی ہے اور دین کا مضبوط سہارا مسلمانوں کی قوت اور دشمن کے مقابلہ میں سامان دفاع یہی امت کے عوام ہوتے ہیں لہذا تمہارا پوری توجہ اور تمہارا رخ انہی کی جانب ہونا چاہیئے۔ اور اسی کی وجہ سے آپ پہلے مسلم قائد ہیں بلکہ تنہا مسلم قائد ہیں کہ جنہوں نے اس عادلانہ حکومت کے نظام کی بنیاد رکھی جو اقلیتوں پر ظلم کیئے بغیر ( خواہ وہ اقلیتیں کتنی بھی ظالم و باغی کیوں نہ ہوں اغلبیت کی حجیت پر تقیہ کرتا ہے اور یہی چیز تو ہے جسکی گواہی آپکے شیعوں اور محبین سے پہلے آپ کے دشمن نے دی ہے ۔