- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


الہی حکومت کی بنیادیں
7 جمادى الاول 1443هـ

زمین پر اللہ کی حکومت کو قائم کرنے کے لیےایک نظام کا ہونا انتہائی اہم ہے۔ ہاں اللہ کی حکومت اور اللہ کا نظام ہونا چاہیے۔اب یہ ہو رہا ہے کہ وہ حکومتیں جن کے لیے لوگ کوشش کرتے ہیں ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کے ذریعے پرودگار اور خالق کے علاوہ دیگر کئی طرح کےرب بنا لیں۔

اسلامی اور الہی حکومت کے قیام سے پہلے کچھ مقدمات کا ہونا ضروری ہے،جن کے ذریعے ایک عادل حکومت قائم ہو گی اور  دوسری حکومتوں سے ممتاز ہو گی کیونکہ وہ نیک لوگوں کی نیکی کے ساتھ حکومت ہو گی۔قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

((الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ))(سورة الحج ـ 41)

یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے اور نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام امور کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

اس آیت مجیدہ میں اللہ تعالی ہمیں بتا رہا ہے کہ اللہ کی مدد اور نصرت سے یہ منصب ربانی اسے ملے گا جس سے وہ راضی ہو گا۔یہ حکومت انسانوں کو ان کے تخلیق کا مقصد اول کی طرف لے کر چلے گی جو عبادت الہی ہے ارشاد ربانی ہے:

((وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ))(سورة الذاريات ـ56)

اور میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں۔

اس کا مصداق وہ نماز ہے جو مسلمان دن میں پانچ وقت پڑھتے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کی اجتماعی مالی ضرورت کے لیے زکوۃ کی ادائیگی ہے اور پھر ان دو مقدمات کے نتیجے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا قیام ہے۔اس آیت مجید کا اہم ترین مقصود یہ ہے کہ اللہ کے خاص بندے اس زمین پر اللہ کانظام اللہ کے حکم سے سنبھال لیں گے اور اللہ کے نظام کے علاوہ تمام نظاموں کو معطل کر دیں گے اور ہر اس چیز کو ختم کر دیں گے جو شریعت کے خلاف ہو گی۔وہ حق کے ساتھ فیصلے کریں گے اور لوگوں کے درمیان عدل کو قائم کریں گے۔

یہ سوال کیا جاتا ہے کہ نماز جو ایک عبادت ہے اسے معاشرے میں حاکم کے ذریعے سے کیوں قائم کیا جائے گا؟ حق یہ ہے کہ کہا جائے اصل میں نماز کا قیام اور لوگوں میں اس کی ترویج و نشر و اشاعت اور اس کو پڑھنے پر تاکید جس جگہ بھی ہو یہ ایمان کا عملی اظہار ہے۔یہ بڑا واضح اقرار ہے کہ کہ اللہ کے علاوہ تمام معبود وں کا انکار ہو رہا ہے اورحاکم اصلی فقط وہ ہے جس کی نماز ادا کی جا رہی ہے۔یہ انصاف کی فراہمی کا ایک ذریعہ بھی ہے اس سے فقط تعظیم اور تقدس ہی حاصل نہیں ہوتا۔جب حکمرانوں کو تاکید کی جا رہی ہے کہ وہ اللہ کے لیے نماز کو قائم کرائیں تو لوگوں کو یہ معلوم ہو گا کہ اصل مالک وہ ہے جس کی عبادت کا  یہ حکام بھی کہہ رہے ہیں اور ان حکمرانوں کی حیثیت فقط ایک ملازم کی ہے۔یہاں اگر اللہ کے حکم اور ان حکمرانوں کے حکم میں ٹکراو ہوتا ہے تو عوام ایسی حکومت کو گرا دیں گے۔نماز جماعت پر تاکید اس لیے بھی ہے کہ اس کے ذریعے لوگوں کی بڑی تعداد کا آپس میں ایک دوسرے سے رابطہ ہوتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر شوق و ترغیب سے اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔اس طرح ایک فرد سے معاشرے تک یکجہتی ہوتی ہے جس سے ہر دو کا فائدہ ہوتا ہے۔ایک عادل اور منصف حاکم یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ اللہ کے بتائے راستے پر چلے اور ایمان و اخلاق کا مظاہرہ کرے۔وہ ان لوگوں پر سختی کرتا ہے جو اللہ کے حکم کو ترک کر دیتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے بھٹکاتے ہیں ان کو برے راستے دکھاتے ہیں کہ لوگ اللہ کا راستہ چھوڑ دیں،لوگ عبادت کے ساتھ تعلق کو ترک کر دیں جو انسان کے ایمان کی علامت اور اس کی روح کی غذا ہے۔

اس سے بھی اہم بات کریں تو عادل حکمران ایک امین کی طرح کام کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی طرف لے جاتا ہے جس نے اسے ان پر حکمران بنایا ہوتا ہے جو رب ہے تاکہ یہ لوگ اس کا واجب ادا کریں اسی لیے یہ حکومت کا  فریضہ  ہے کہ وہ نماز قائم کروائے۔

دوسری طرف اس آیت مجیدہ میں سماجی ذمہ داری کو بھی بڑی اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کسی بھی اچھے معاشرے میں ہر شخص کو سماجی ذمہ داری کو ادا کرنا پڑے گا یہاں زکوۃ کی ادائیگی پر تاکید اسی لیے کی گئی ہےکہ ایک فلاحی معاشرے کے قیام کے لیے زکوۃ کی ادائیگی بہت ضروری ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ زکوۃ طبقاتی نظام اور معاشرتی تفاوت کو بھی روکتی ہے اور سماجی ہم آہنگی پیدا کرتی ہے۔

زکوۃ معاشرے کے اقتصادی نظام کو مستحکم کرتی ہے، معاشرے کے تمام گروہوں کے درمیان توازن کو فروغ دیتی ہے یہ دینے اور لینے والے کی حیثیت کو متعین کر دیتی ہے اور یوں ان کے درمیان ایک توازن قائم ہوتا ہے اس کے نتیجے میں کوئی مالدار سرکشی نہیں کرتا اور کسی فقیر کو بھی کوئی شکایت نہیں ہوتی۔

اسلامی نظام اور معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا قیام ایک اہم اور تیسری ذمہ داری ہے ۔اس کی اہمیت نماز کے پڑھنے اور زکوۃ کی ادائیگی سے کم نہیں ہے۔اس کے ذریعے لوگوں کو اس بات کی رغبت دلائی جاتی ہے کہ قوانین کو ہلکا نہ لیں اور ان کے خلاف سرکشی نہ کریں۔محسن انسانیت نبی اکرم نے فرمایا:اگر میری بیٹی فاطمہ بنت محمدبھی چوری کرے گی تو میں اس کے ہاتھ کاٹ دوں گا۔یہ اس بات کا بیان ہے کہ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا بغیر کسی اگر مگر کے اور ہر وقت ہونا چاہیے اور اس میں حاکم اور محکوم کی کوئی تمیز نہیں ہونی چاہیے۔اس سے عام لوگوں میں قوانین کا احترام بڑھے گا اور معاشرے میں لوگ قوانین پر عمل کریں گے اور اپنی زندگی کو اس طرح گزاریں گے جیسے اللہ تعالی چاہتا ہے حضرت علی ؑ کا فرمان ہے:

"من أمر بالمعروف شد ظهر المؤمن ومن نهى عن المنكر أرغم أنف المنافق وأمن كيده"

جو نیکی کا حکم دیتا ہے وہ مومن کا بوجھ ہلکا کرتا ہے جو برائی سے روکتا ہے وہ وہ منافق کی ناک رگڑتا ہے اور اس کے جال سے محفوظ رہتا ہے۔

اس طرح اللہ تعالی نے زمین پر اسلامی حکومت کی تین بنیادیں بتائی ہیں پہلی نماز کا قیام،دوسری ادائیگی زکوۃ اور تیسری  نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ان بنیادوں پر پہلی حکومت نبی آخرالزمان حضرت محمد  نے قائم کی اور آپ کے بعد آپ کے خلیفہ بر حق حضرت علی ؑ نے قائم کی جس میں اس طرح حق و عدالت قائم تھی جیسے اللہ تعالی چاہتا ہے۔ایسی حکومت جو مخلوق کو خالق کے قریب کر دے،ایسی حکومت جس کی بنیاد ذاتی خواہشات اور تعصب پر نہ ہو۔ نبی اکرمﷺ اور امیر المومنین ؑ ان لوگوں کے لیے جو زمین پر کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت اللہ کی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں بہترین اسوہ چھوڑ کر گئے ہیں۔