فجر اسلام کے طلوع کے ساتھ ہی جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اور اسلام جن ڈرامائی تبدیلیوں کا سامنا کرتا گیا اس کےساتھ اسلام کا ایک مصنوعی نسخہ بھی ایک طرف تیار ہونے لگا جو اسلام کی اصلی شکل و صورت سے بالکل جدا اور ایک بگڑی ہوئی شکل تھی جس کو اس دین حنیف سے کوئی شباہت نہیں تھی کہ جو دین انسان کی پاک اور سلیم فطرت کے عین مطابق تھا ۔ یہ مصنوعی دین حتی اسلام ناب محمدی کی کاپی (copy - paste) پیسٹ بھی نہیں تھا۔ بلکہ ایک منصوبہ بندی ہوئی اور اس کے تحت یہ خود ساختہ اسلام درست کیا گیا جو آج تک ایک جانب جاری ہے، اور عالمی تاریخی اعتبار سے اس جعلی نسخے کو اس اسلام کے نام سے دیکھا اور لیا گیا کہ یہ وہ دین ہے جسے محمد مصطفی ﷺ لے کر آئے ہیں۔ جبکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ اس لئے کہ یہ نسخہ اسلام ناب محمدی کا نہیں اس پر فقط اسلام ناب کا لبادہ چڑھادیا گیا اور اسلام کا نام رکھا گیا ہے۔ پس اسلام کا نسخہ محمدیہ و علویہ اور چیز ہے اور دوسرا مصنوعی نسخہ کوئی اورر چیز ہے۔ وہ اسلام درحقیقت بنو امیہ کا تیار کیا ہوا ہے جو ایک منحرف اور بگڑی ہوئی شکل ہے جس کا حقیقی اسلام کی روح اور اس کے جوہر سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ یہ بنو امیہ کے اسکول میں پروان چڑھا ہوا اسلام ہے۔ لیکن رسول اکرم ﷺ کی شہادت کے تھوڑے عرصے بعد حالات نے یوں کروٹ بدل دی کہ ایک ھولناک زمانہ آیا خصوصا دوسرے خلیفہ عمر بن الخطاب کے بعد کہ جن کو کچھ دشوار اور کٹھن حالات مین قتل کردیا گیا اور ان کے بعد جس انتخاب سے ان کے جانشین آئے کہ وہ بھی ایک ناگوار حالات کے نتیجے میں قتل ہوگئے۔ اس سارے دور کے بعد ایک نیا پیچیدہ وقت آیا جس میں معرکہ صفین واقع ہوا کہ اس جنگ میں مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ امام علی بن ابیطالب کے خلاف شام سے معاویہ بن ابی سفیان علم بغاوت بلند کر کے آیا اور اسلامی شرعی نطام کے خلاف سرکشی کا پرچم بلند کیا اور مکر و فریب کے ذریعے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی غرض سے قرآن کو نیزوں پر بلند کیا گیا۔ یہ پہلا شگاف تھا جو نظام شرعی کے پیکر میں پڑگیا۔ جو بعد میں کئی داخلی خونین جنگوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ جن میں بقول وہ کبارصحابہ بھی نظر آتے ہیں جن کے بار ے جنت کی بشارت کی بات مشہور ہے۔ ان ہی بڑے افراد میں نبی اکرم ﷺ کی زوجات میں سے بھی ایک زوجہ ہے جو میدان جنگ میں نکل آئی ہیں۔ بھرکیف ان انتہائی کٹھن حالات میں تیسرا خلیفہ عثمان بن عفان اموی کا قتل بھی ہوتا ہے جو کہ داخلی جنگ کے بالکل قریب ہے جو مسلمانوں کے درمیان واقع ہونے والی اندرونی جنگ کے بعد کا آغاز بھی کہلا سکتا ہے۔
یہ اس کے برخلاف رونما ہوا جو نہ ہونا چاہئیے تھا اس لئےکہ امت مسلمہ کو تو ایک امت واحدہ ہونا چاہئیے تھا۔ جس کی قرآن کریم اور رسول اکرم ﷺ بشارت دیتے ہیں "
(( كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ)) (سورة آل عمران ۔ ۱۱۰)
ترجمہ: تم بہترین امت ہو جس کو لوگوں کے لئے منظر عام پر لایا گیا ہے تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لے آتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا لیکن ان میں صرف چند مومنین ہیں اور اکثریت فاسق ہے۔" لیکن قرآن کریم کی اس تاکید و ارشاد کے باوجود امت گروہ و قبائل میں بٹ گئی اور ایک دوسرے کو قتل کرنے لگی، ایک گروہ دوسرے گروہ کے خلاف اسلحہ اٹھا کر میدان میں اتر پڑا۔ اس لئے کہ اب ان کے ہر سردار کی اسلحہ بردار سوچ آئیڈیالوجی بن چکی تھی گویا گرم جنگ ان کا نصب العین بن چکا تھا جس کے ذریعے جیسے تیسے ہو مال جمع کرنا مقصود ہوا کرتا تھا۔ اس لئے وہ ایک دوسرے کی تکفیر بھی کیا کرتے تھے۔ اس کی داغ بیل تو بہر کیف جھوٹے پروپیگنڈوں اور درباری واعظوں نے ڈال دی تھی اس میں سونے پر سہاگےکا کام ان افراد نے کیا جو امت بیضا کے اندر تفرقہ پھیلانے کے درپے تھے وہ بھی میدان میں اتر پڑے اور امت اسلامیہ کے مراکز اور امت کے یکجا ہونے کے مقامات کو ملت سے جدا کرنے کی کوشش کی کہ جس میں پھر وہ ایجنسیاں بھی کود پڑیں جو بنی ہی اس لئے تھیں کہ مسلمانوں کے درمیان نفاق و تفرقہ کے بیج بوئیں۔ اور جس کے نتیجے میں ملت کے اتحاد و انسجام میں تفرقہ پڑ جائے۔ یہ سلسلہ جاری رہنےلگا اور یہ کوشش ہونے لگی کہ خود بیت نبوی ﷺ بھی اس سے محفوظ نہ رہا۔ یوں نظریہ خلافت و حکومت دو قسموں میں تقسیم نظر آیا۔ ایک وہ نظریہ ہے جس کی بنیاد حکومت الہیہ پر ہے کہ جس کے وارث رسول اکرم ﷺ کےاہلبیت اطھار علیھم السلام ہیں اور دوسرا نظریہ وہ ہے جس کی بنیاد اہلبیت رسول ﷺ نہیں بلکہ بیت نبوی سے باہر اجتماع کے ذریعے درست کیا گیا ہے اور اس کی بنیاد زور غلبہ اور حکومت و طاقت ہے۔ اس طرح مسلمانوں کے یہ حالات چلنے لگے کہ جس کا آغاز بنو امیہ کی حکومت سے ہوا اور عثمانی حکومت کے اختتام تک جاری رہا ۔ یہاں تک کہ پہلی عالمی جنگ کے موقع پر عثمانی حکومت کا خاتمہ ہوا۔