- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


اسلام محمدی حقیقی اور مصنوعی اسلام کا مختصر تاریخی وتقابلی جائزہ ۔۔۔۔۔ پہلی سیریز
21 رجب 1443هـ

فجر اسلام کے طلوع کے ساتھ ہی جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اور اسلام جن ڈرامائی تبدیلیوں کا سامنا کرتا گیا اس کےساتھ اسلام کا ایک مصنوعی نسخہ بھی ایک طرف تیار ہونے لگا جو اسلام کی اصلی شکل و صورت سے بالکل جدا اور ایک بگڑی ہوئی شکل تھی جس کو اس دین حنیف سے کوئی شباہت نہیں تھی کہ جو دین انسان کی پاک اور سلیم فطرت کے عین مطابق تھا ۔ یہ مصنوعی دین حتی اسلام ناب  محمدی کی کاپی (copy - paste) پیسٹ بھی نہیں تھا۔ بلکہ ایک منصوبہ بندی ہوئی اور اس کے تحت یہ خود ساختہ اسلام درست کیا گیا جو آج تک ایک جانب جاری ہے، اور عالمی تاریخی اعتبار سے اس جعلی نسخے کو اس اسلام کے نام سے دیکھا اور لیا گیا کہ یہ وہ دین ہے جسے محمد مصطفی ﷺ لے کر آئے ہیں۔ جبکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ اس لئے کہ یہ نسخہ اسلام ناب محمدی کا نہیں اس پر فقط اسلام ناب کا لبادہ چڑھادیا گیا اور اسلام کا نام رکھا گیا ہے۔ پس اسلام کا نسخہ محمدیہ و علویہ اور چیز ہے اور دوسرا مصنوعی نسخہ کوئی اورر چیز ہے۔ وہ اسلام درحقیقت بنو امیہ کا تیار کیا ہوا ہے جو ایک منحرف اور بگڑی ہوئی شکل ہے جس کا حقیقی اسلام کی روح اور اس کے جوہر سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ یہ بنو امیہ کے اسکول میں پروان چڑھا ہوا اسلام ہے۔ لیکن رسول اکرم ﷺ کی شہادت کے تھوڑے عرصے بعد حالات نے یوں کروٹ بدل دی کہ ایک ھولناک زمانہ آیا خصوصا دوسرے خلیفہ عمر بن الخطاب کے بعد کہ جن کو کچھ دشوار اور کٹھن حالات مین قتل کردیا گیا اور ان کے بعد جس انتخاب سے ان کے جانشین آئے کہ وہ بھی ایک ناگوار حالات کے نتیجے میں قتل ہوگئے۔ اس سارے دور کے بعد ایک نیا پیچیدہ وقت آیا جس میں معرکہ صفین واقع ہوا کہ اس جنگ میں مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ امام علی بن ابیطالب کے خلاف شام سے معاویہ بن ابی سفیان علم بغاوت بلند کر کے آیا اور اسلامی شرعی نطام کے خلاف سرکشی کا پرچم بلند کیا اور مکر و فریب  کے ذریعے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی غرض سے قرآن کو نیزوں پر بلند کیا گیا۔ یہ پہلا شگاف تھا جو نظام شرعی کے پیکر میں پڑگیا۔ جو بعد میں کئی  داخلی خونین جنگوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ جن میں بقول وہ کبارصحابہ بھی نظر آتے ہیں جن کے بار ے جنت کی بشارت کی بات مشہور ہے۔ ان ہی بڑے افراد میں نبی اکرم ﷺ کی زوجات میں سے بھی ایک زوجہ ہے جو میدان جنگ میں نکل آئی ہیں۔ بھرکیف ان انتہائی کٹھن حالات میں تیسرا خلیفہ عثمان بن عفان اموی کا قتل بھی ہوتا ہے جو کہ داخلی جنگ کے بالکل قریب ہے جو مسلمانوں کے درمیان واقع ہونے والی اندرونی جنگ کے بعد کا آغاز بھی  کہلا سکتا ہے۔

یہ اس کے برخلاف رونما ہوا جو نہ ہونا چاہئیے تھا اس لئےکہ امت مسلمہ کو تو ایک امت واحدہ ہونا چاہئیے تھا۔ جس کی قرآن کریم اور رسول اکرم ﷺ بشارت دیتے ہیں "

(( كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ)) (سورة آل عمران ۔ ۱۱۰)

 ترجمہ: تم بہترین امت ہو جس کو  لوگوں کے لئے منظر عام پر لایا گیا ہے تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لے آتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا لیکن ان میں صرف چند مومنین ہیں اور اکثریت فاسق ہے۔" لیکن قرآن کریم کی اس تاکید و ارشاد کے باوجود امت گروہ و قبائل میں بٹ گئی اور ایک دوسرے کو قتل کرنے لگی، ایک گروہ دوسرے گروہ کے خلاف اسلحہ اٹھا کر میدان میں اتر پڑا۔ اس لئے کہ اب ان کے ہر سردار کی اسلحہ بردار سوچ آئیڈیالوجی بن چکی تھی گویا گرم جنگ ان کا نصب العین بن چکا تھا جس کے ذریعے جیسے تیسے ہو مال جمع کرنا مقصود ہوا کرتا تھا۔ اس لئے وہ ایک دوسرے کی تکفیر بھی کیا کرتے تھے۔ اس کی داغ بیل تو بہر کیف جھوٹے پروپیگنڈوں اور درباری واعظوں نے ڈال دی تھی اس میں سونے پر سہاگےکا کام ان افراد نے کیا جو امت بیضا کے اندر تفرقہ پھیلانے کے درپے تھے وہ بھی میدان میں اتر پڑے اور امت اسلامیہ کے مراکز اور امت کے یکجا ہونے کے مقامات کو ملت سے جدا کرنے کی کوشش کی کہ جس میں پھر وہ ایجنسیاں بھی کود پڑیں جو بنی ہی اس لئے تھیں کہ مسلمانوں کے درمیان نفاق و تفرقہ کے بیج بوئیں۔ اور جس کے نتیجے میں ملت کے اتحاد و انسجام میں تفرقہ پڑ جائے۔ یہ سلسلہ جاری رہنےلگا اور یہ کوشش ہونے لگی کہ خود بیت نبوی ﷺ بھی اس سے محفوظ نہ رہا۔ یوں نظریہ خلافت و حکومت دو قسموں میں تقسیم نظر آیا۔ ایک وہ نظریہ ہے جس کی بنیاد حکومت الہیہ پر ہے کہ جس کے وارث رسول اکرم ﷺ کےاہلبیت اطھار علیھم السلام ہیں اور دوسرا نظریہ وہ ہے جس کی بنیاد اہلبیت رسول ﷺ نہیں بلکہ بیت نبوی سے باہر اجتماع کے ذریعے درست کیا گیا ہے اور اس کی بنیاد زور غلبہ اور حکومت و طاقت ہے۔ اس طرح مسلمانوں کے یہ حالات چلنے لگے کہ جس کا آغاز بنو امیہ کی حکومت سے ہوا اور عثمانی حکومت کے اختتام تک جاری رہا ۔ یہاں تک کہ پہلی عالمی جنگ کے موقع پر عثمانی حکومت کا خاتمہ ہوا۔

پس اس تغیر و اختناق کے حالات کے نتیجے میں اسلام سے منسوب دو طرح کی آیئڈیا لوجیاں سامنے آئیں جو ایک دوسرے  کے برخلاف تھیں۔ ان دونوں میں سوائے اسلام کے نام کے کسی اور چیز کا اشتراک نہیں تھا۔ بس ان دونوں میں اگر کسی چیز کا اشتراک تھا بھی تو صرف اسلام کی بالکل ابتدائی چیزوں میں۔ ورنہ اس کے سوا ان دونوں کے درمیان کوئی مماثلت نہیں تھی۔ بلکہ ہر چیز میں ان دونوں آیئڈیالوجیز ایک دوسری سے مکمل مختلف تھیں۔ان میں سےایک وہی اسلام حقیقی اور اصلی ہے جو وحیانی دین ہے۔ یہ اس دوسرے اسلام سے ہر چیز میں جدا ہے اس کا دوسرے نظریے کےساتھ کسی چیز میں اشتراک نہیں ہے۔ کیونکہ یہ دوسرا جو نسخہ تیار کیا گیا ہے وہ ایک منحرف و بگڑا ہواہے۔ یہ وہی اسلام ہے جو ۶۱ ہجری کو  کربلا کے واقعے کا سبب بنا۔ جو تاریخ میں اسلام کے پاکیزہ پیکر پر ایک بڑا شگاف پڑگیا یہ وہی اسلام تھا جو درحقیقت اموی اسلام کہلاتا ہے جو تیسرےخلیفہ عثمان بن عفان کے قتل کے بعد اس اصلی اور واقعی اسلام کے مقابلے میں بطور عام رائج ہونے لگا جو اسلام ناب محمدی تھا ۔ اس زور و غلبہ والے اسلام کا پلہ روز بہ روز بھاری ہوا جس کے نتیجے میں بنو امیہ کا پہلا خلیفہ معاویۃ بن ابی سفیان نے مسند خلافت پر اپنے پاؤں جمائے ۔(۴۵ ۔ ۶۰ ھ)  جبکہ اس کے واقعی حقدار علی بن ابیطالب علیہ السلام تھے ۔آپ کے بعد کچھ عرصے کے لئے امام حسن مجتبی علیہ السلام نے امت کی راہنمائی فرمائی آپ کو انتہائی دشوار حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر کار ان تمام ناگوار حالات میں امام علیہ السلام کچھ شرائط کے اوپر امیر شام کے ساتھ صلح کرنے پر مجبور ہوئے۔ یوں اب اسلام بنو امیہ کو اپنی جڑیں مضبوط کرنے کا بھر پور موقع ملا اور یہی خود ساختہ اسلام اپنے روز تاسیس  یعنی ۵۰ ہجری سے لے کر ۱۳۲ہجری تک اسلامی سرزمینوں اور مسلمانوں پر اپنی طاقت اور زبردستی کی حکومت   کا مظاہرہ کرتا رہا۔ خلاصہ یہ کہ بنو امیہ کی طرف سے رائج کردہ اس اسلام کا زور و غلبہ واقعہ کربلا سے شروع ہوتا ہے اور اس کے بعد تو کھلم کھلا  عام مسلمانوں کے اوپر اپنے ظلم و بربریت کی  خونین داستانیں رقم کرتا رہا۔دوسری جانب جو واقعی اسلام ناب محمدی کے پیروکار تھے ان پر بھی ایک خاص طریقے سے  ستم ڈھاتا رہا۔ یوں اسلام کو سمجھنے ک معیارات و موازین بدل گئے اور اسلام ناب محمدی سے  بالکل دور بنو امیہ کی رائج کردہ منحرف  آیئڈیالوجی زور پکڑتی گئی۔ یوں امت کی جڑوں میں اس آیڈیالوجی نے سرایت کیا اور ایک سفید انقلاب رونما ہوا اور ایک عجیب و غریب سوچ کو پروان چڑھنے کا موقع ملا اور یہ سوچ اسلام کے نام پر دنیا والوں کی رائے بن کر رہ گئی اور اسلام ناب کی واقعی معرفت سے ناواقف عام انسان یہ سمجھنے لگے کہ یہی واقعی اسلام ہے اس کے سوا کوئی اور اسلام نہیں ہے ۔ اس طرح تاریخ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کا وہ واقعی نسخہ جو اللہ کے رسول ﷺ لائے اور علی و اولاد علی علیھم السلام نے قربانیاں دے کر پھیلایا تھا وہ لوگوں کے اذہان سے غائب ہوا اور اس کی جگہ معاویہ و عمرو بن عاص اور یزید کے دئے ہوئے اسلام نے لے لیا۔