- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


مسلمان اور حضرت عیسی مسیح
20 جمادى الاخير 1443هـ

اسلامی تہذیب و ثقافت میں حضرت مسیح ؑ کی ولادت کے ذکر کو خاص اندا زمیں منایا جاتا ہے اور مسلمان حضرت مسیح ؑ کی پیدائش کے دن کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور یہ بات اہم ہے کہ یہ دن فقط مسیحیوں کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ حضرت مسیحؑ کے یوم ولادت کی باقی ادیان اور بالخصوص اسلام میں بہت اہمیت ہے۔ اسلام نے اپنے تمام ماننے والوں کے لیے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ وہ تمام انبیاء اور رسل پر ایمان لائیں اور حضرت عیسی بن مریمؑ رسول ہیں آپ نے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں بتایا تھا۔ قرآن نے دسیوں مرتبہ حضرت عیسی ؑ کا ذکر کیا ہے بطور مثال قرآن میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ))(سورة البقرة ـ136)

( مسلمانو !) کہو: ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر ایمان لائے جو ہماری طرف نازل کیا گیا ہے اور جو ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد کی طرف نازل کیا گیا اور جو موسیٰ و عیسیٰ کو دیا گیا اور جو انبیاء کو ان کے رب کی طرف سے دیا گیا (ان سب پر ایمان لائے)ہم ان میں سے کسی میں بھی تفریق نہیں کرتے اور ہم صرف اسی کے فرمانبردار ہیں۔

اسی آیت کے حکم کے مطابق مسلمانوں کے لیے یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ تمام انبیاءؑ پر ایمان لائیں اور ان میں کسی قسم کی تفریق نہیں کرنی چائے۔ سارے کے سارے نبی ؑ اللہ کی طرف سے مبعوث ہوئے ہیں اور ان تمام کا مقصد و ہدف بھی ایک ہی ہے اگرچہ ان کے زمانے مختلف ہیں۔اللہ تعالی نے سلسلہ نبوت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ختم فرمایا اورآپ جو دین لائے یہ آخری دین ہے اور اس پر تمام پہلے رسالتوں کا بھی اختتام ہو گیا ہے۔ اسلام کا پیغام اتنا جامع ہے کہ یہ پہلے والی تمام شریعتوں کے پیغام کو بھی لیے ہوئے ہے۔ اسلام کا پیغام اتنا وسیع ہے کہ اس میں تمام درپیش مسائل کا حل ہے اور روزگار زندگی کو چلانے کا طریقہ تفصیل سے موجود ہے۔

آیت شریفہ میں جب انبیاء پر ایمان کا حکم آیا تو ساتھ ہی اس میں حضرت موسی ؑ اور حضرت عیسیؑ کا ذکر آگیا اوران دو کا ذکر ان کے احترام کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ جو اللہ کے کسی بھی نبی کی نبوت کا انکار کرتا ہے وہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق کافر ہو جاتا ہے اس کا حکم یہ ہے کہ ملتِ دین حنیف سے خارج ہو جائے گا۔ یہ دین میں ایک متفقہ رائے ہے اور اصول دین میں سے بھی ہے کہ جو بھی کسی نبی کا انکار کرے گا وہ دین سے خارج ہوجائے گا اور اسے کافر اور اللہ کا دشمن کہا جائے گا ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

(( مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِلْكَافِرِينَ))(سورة البقرة ـ 98)

۹۸۔ جو کوئی اللہ، اس کے فرشتوں، رسولوں اور (خاص کر) جبرائیل و میکائیل کا دشمن ہو تو اللہ(ایسے) کافروں کا دشمن ہے۔

حضرت عیسی ؑ کے معاملے میں اس سے بڑھ کر یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ یہ عام نبیؑ بھی نہیں ہیں بلکہ سلسلہ انبیاءؑ میں ان کی اعلی شان و منزلت ہے اور اللہ تعالی نے انہیں اولی العزم نبی بنایا ہے۔ اولی العزم نبی اس نبی کو کہا جاتا ہے جن کی نبوت صرف ایک قوم قبیلہ کےلیے نہ ہو بلکہ تمام اقوام کے لیے ہو جو بھی اس زمانے میں موجود ہوں ان کی نبوت ان سب کے لیے ہو۔یہ کسی خاص قوم،قبیلہ یا علاقہ کی محدودیت نہیں رکھتے۔ حضرت عیسیؑ کا اسلام میں اعلی مرتبہ ہے اللہ نے انہیں عصمت ،قدسیت اور ہر طرح کے گناہ و نافرمانی کی معصیت سے پاک رکھا ہے جیسے ہمارے نبی اکرم محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ اعلی مقام دیا ہے۔

حضرت عیسیؑ کی یہ شان بھی ہے کہ آپ ؑ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشخبری دی۔حضرت عیسیؑ اور نبی اکرمﷺ کے درمیان کوئی اور نبی یا رسول نہیں ہے۔ قرآن مجید میں حضرت  عیسیؑ کی زبان سے نقل ہوا ہے:

((وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُبِينٌ ))(سورة الصف ـ 6)

اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا: اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اور اپنے سے پہلے کی (کتاب) توریت کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے رسول کی بشارت دینے والا ہوں جن کا نام احمد ہو گا، پس جب وہ ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے تو کہنے لگے: یہ تو کھلا جادو ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت اسی سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہے جس کے نبی حضرت عیسیؑ ہیں۔ حضرت عیسیؑ کی نبوت پر ایمان رکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ خاتم الانبیاءحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت پر ایمان لائیں اسی سے ان کے ایمان کی تکمیل ہوگی جس طرح دنیا بھر کے مسلمان حضرت عیسیؑ کی نبوت پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ ایمان رکھنا ضروری ہے۔ اس لیے حضرت عیسیؑ کی ولادت کی مناسبت اہم دینی مناسبت ہے اور یہ اسی طرح ہے جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت ہے ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے دن خوشی کے اظہار کو ایمان کی علامت سمجھتے ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمان اس دن خوشیاں مناتے ہیں جس دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے تھے۔

حضرت مسیح ؑ کی تاریخ ولادت پر تاریخی اعتبار سے تحقیق کی جائے تاکہ اس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہ رہے اور پھر اس مناسبت سے خوشی منانا بلکہ کسی بھی نبی ؑ کی ولادت کی خوشی منانی چاہیے۔ حضرت مسیحؑ کی ولادت کی خوشی منانا مومنین کا کام ہے۔ خوشی منانی چاہیے مگر اس میں ایسے کام انجام نہیں دینے چاہیں جو اللہ کی نافرمانی کی علامت ہیں جیسے محافل لہو و لہب ،غنا اور فسق و فجور کے اعمال انجام دینا ۔ محبت کرنے والوں کی خوشی ان کے مطابق ہوتی ہے جن سے وہ محبت کرتے ہیں۔اس طرح خوشی منائیں جیسے ایک اولی العزم خوشی منائیں گے۔اللہ کے نبی ان امور کو ہرگز انجام نہ دیں جیسے آج کل ان محافل میں انجام دیے جاتے ہیں اور وہ فسق و فجور پر مبنی ہے یہ افعال انجام دینے والوں کا تعلق جس بھی مذہب سے ہو اس سے فرق نہیں پڑتا۔

حضرت مسیح ؑ تو سب کے ساتھ حسن سلوک فرماتے تھے آپؑ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت دی ،آپ نے کلمہ الہی کو بلند فرمایا ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((... يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا ... ))(سورة آل عمران ـ 64)

اے اہل کتاب! اس کلمے کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے ، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ بنائیں

آپ نے مکالمہ کا طریقہ تاسیس فرمایا،دینی طرز زندگی کی تعلیم دی،امن و یکجہتی،غلط فہمیوں کے ازالے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی سیرت چھوڑی ہے اور یہ سیرت ایسی ہے جس کی طرف تمام انبیاءؑ نے دعوت دی ہے۔