اسلام نے فرد اور جماعت کے تزکیہ و طہارت پر بہت زیادہ توجہ اور اخلاق سے آراستہ ہونے کی طرف دعوت دی ہے حتی کہ پیغمبر اکرمؐ کی زبان مبارک سے یہ حدیث جاری ہوئی: ’’مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔‘‘ بعض اوقات علماء اسلام، اسلام کے فقط عقائدی اور فقہی پہلو پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ اور بعض اوقات ان کی تصانیف کے سارے مجموعے فقط دو شعبوں اصول دین اور فروع دین کے موضورع پر ہی ہوتے ہیں جو اخلاق کے شعبے کو قابل اعتنا نہ سمجھنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جبکہ انصاف تو یہ ہے کہ اس شعبے کی اہمیت مذکورہ دو شعبوں سے کسی طور کم نہیں ہے۔ اس بنا پر اسلامی تعلیمات کو تین شعبوں؛ عقائد، فقہ اور اخلاق کی طرف تقسیم کرنا مناسب ہے۔ عصر حاضر میں اسلامی معاشروں کو فقط اس چیز کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنی تمام تر کوششیں صحیح عقائد کے بیان کرنے پر موقوف رکھیں کیونکہ متعدد زبانوں میں سینکڑوں کتب، تحقیقات اور مطالعات نے اس ضرورت کو پورا کر رکھا ہے بلکہ بہت کم ہی ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ اجتہاد، تحقیقات اور فقہی مطالعات کی بدولت فقہی فکر کے ثروت مند ہونے میں کوئی کمی نظر آتی ہو لیکن اخلاقی پہلو کے حل میں ہمیشہ واضح اور محسوس طور پر کوتاہی موجود رہی ہے۔ اس بنا پر ہم بعض ایسے اخلاقی موضوعات کو حل کرنے کے حوالے سے بات کریں گے جن کے بارے میں ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ تبلیغ کے اعلیٰ ہدف اور اجراء کے کمالات و فضائل تک پہنچنے میں ہماری مدد کریں گے۔
کیا حیاء شخصیت کا مثبت پہلو ہے یا منفی؟ کیا حیاء شخصیت کی تعمیر کرتی ہے یا اسے منہدم کر دیتی ہے؟ اور بالآخر میں کیا ہمیں اس خصلت کو مضبوط کرنا چاہیے یا اس سے چھٹکارا پانا چاہیے؟
ان سوالوں کا جواب دینے سے پہلے ہمارے لیے حیاء کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔
حیاء: ایک ایسے نفسیاتی تاثر اور انفعالیت کا شعور ہے جو دوسروں کی طرف سے ملامت اور تنبیہ کے خوف کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے اور بعض اوقات بہت سے ظواہر و آثار میں اس کے ساتھ شرمندگی کا احساس بھی شامل ہوتا ہے۔ یہ نفسیاتی حالت کسی کام کو انجام دینے میں ہچکچاہٹ کے ساتھ منسلک ہوتی ہے۔ کمی اور شدت کے لحاظ سے اس کے کئی مراتب ہیں لیکن عمومی طور پر ہم اسے دو قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں: ایک قسم وہ ہے جو ممدوح ہیں اور دوسری قسم مذموم ہے۔ اس حوالے سے ہم پیغمبر اکرمﷺ کی ایک حدیث مبارک کا سہارا لیتے ہیں: ’’حیاء کی دو قسمیں ہیں: عقل والی حیاء اور حماقت والی حیاء۔ عقل والی حیاء علم ہے جبکہ حماقت والی حیاء جہالت ہے۔‘‘ امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے آباؤ اجداد کے سلسلہ سند کے ذریعے رسول اللہﷺ سے نقل کرتے ہوئے اس کی یوں وضاحت فرماتے ہیں: ’’حیاء کی دو صورتیں ہیں؛ جن میں سے ایک کمزوری ہے اور دوسری قوت، اسلام اور ایمان ہے۔‘‘ اس بنا پر بعض اوقات ہچکچاہٹ اور تنقید کا خوف ایسی چیز سے متصل ہوتا ہے جو انسانی شخصیت کی تعمیر کرتی ہے اور اسے لغزش اور گناہ کی آلودگی سے محفوظ رکھتی ہے۔ پس اس جہت سے یہ نقطۂ قوت اور عاقلانہ حیاء ہے۔ اور بعض اوقات اس میں ضرورت سے زیادہ جھجھک اور حق کو بیان کرنے کی جرأت کا فقدان شامل ہوتا ہے۔ اس صورت میں یہ ا نسانی شخصیت کے منہدم ہونے کا باعث بنتی ہے لہٰذا اس جہت سے یہ نقطۂ ضعف اور جاہلانہ حیاء بن جاتی ہے۔
شاید حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ کہ جب وہ مدین میں پانی کے کنویں پر پہنچے اور وہاں پر کچھ لوگوں کو پانی بھرتے دیکھا، حیاء کی پہلی قسم کی سب سے بہترین مثال ہے: خداوند کریم فرماتا ہے: فَجاءَتْهُ إِحْداهُما تَمْشي عَلَى اسْتِحْياءٍ قالَتْ إِنَّ أَبي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ ما سَقَيْتَ لَنا۔ (القصص: 25) [پھر ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک حیا کے ساتھ چلتی ہوئی موسیٰ کے پاس آئی اور کہنے لگی: میرے والد آپ کو بلاتے ہیں تاکہ آپ نے جو ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے آپ کو اس کی اجرت دیں۔] اس آیت میں قرآن مجید ایک مومنہ لڑکی کے چلنے کا انداز بیان کرتا ہے جو اپنے باپ کی طرف سے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ایک پیغام لائی تھی۔ اس کی یہ چال وقار، حیاء اور عفت کے سب مفاہیم سمیٹے ہوئے تھی۔
دوسری نوع کی مثال ایک ایسا طالب علم ہے جو محنت اور کوشش سے درس پڑھتا ہے اور اپنے نصاب کی ساری کتابیں اچھی طرح یاد کر لیتا ہے لیکن امتحان یا مقابلے میں ضرورت سے زیادہ جھجھک اور شدید حیاء کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ شخصیت کی کمزوری کی علامت ہے۔ اس کا نتیجہ ناکامی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ یہ صورتحال بچوں میں بہت زیادہ نظر آتی ہے، جہاں وہ بڑوں کے ساتھ ملنے کی جرأت نہیں رکھتے اور عمومی محافل میں شرکت سے خوف کھاتے رہتے ہیں۔ گویا وہ اس حد تک تمسخر اور حقارت کے خوف میں مبتلا ہوتے ہیں کہ بعض اوقات اپنے رشتہ داروں کے گھر جانے اور ان کے ساتھ بات چیت کرنے سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔ بلوغت اور بڑھاپے کے مراحل تک پہنچتے پہنچتے یہ ایک لاینحل عقدہ بن جاتا ہے۔ شاید ادب و آداب جرأت کا نہ ہونا اور زیادہ لوگوں میں بات کرنے سے ہچکچانا اور اس طرح کی حالت جیسے زبان کا لڑکھڑا جانا وغیرہ حیا کی اس مذموم حالت کی واضح ترین مثالیں ہیں۔
چونکہ حیاء کا مثبت پہلو محبوب و مطلوب ہے اسی لیے اکثر اسلامی نصوص میں اسے ایمان اور خیر کا ساتھی شمار کیا جاتا ہے جیسا کہ امام علی علیہ السلام کا فرمان ہے: ’’حیاء ہر چیز کی کنجی ہے۔‘‘ اسی طرح امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’حیاء اور ایمان ایک ہی ڈوری میں بندھے ہوئے ہیں پس جب ان میں سےا یک چلا جاتا ہے تو دوسرا بھی رخصت ہو جاتا ہے۔‘‘
چونکہ مومن ہمیشہ اپنے نفس کے تزکیے کا مکلف ہوتا ہے اور اپنے رویوں اور اعمال کو اس راستے سے ہم آہنگ کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے جس پر چلنے کا حکم خداوند کریم نے دیا ہے تاکہ وہ اس کی رضا تک پہنچ سکے اور اس کے کمال کا راستہ مکمل ہو سکے۔ لہٰذا ہمیں دیکھنا چاہیے کہ حیاء کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
متعدد دینی نصوص حیاء اور عفت کے درمیان ربط دیتےہوئے نظر آتی ہیں۔ ایک مسلمان انسان کے رویوں اور اعمال میں عفت کی اہمیت ہم سے پوشیدہ نہیں ہے، یہاں تک کہ امیر المومنین امام علی علیہ السلام ایک عفیف شخص کو اس مقام پر فائز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جہاں وہ فرشتوں کے ہم مرتبہ ہونے کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’وہ مجاہد جو خدا کی راہ میں شہید ہو اس شخص سے زیادہ اجر کا مستحق نہیں ہے جو قدرت و اختیار رکھتے ہوئے پاکدامن رہے۔ کیا بعید ہے کہ پاکدامن شخص فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہو جائے۔‘‘
علماء اخلاق کے نزدیک عفت کی کئی اقسام ہیں: ہاتھ کی عفت، زبان کی عفت اور شرمگاہ کی عفت جو کہ سب سے عظیم ہے۔ یہ اقسام انسان کے تمام اعضاء و جوارح پر عفت کی عکاسی کرتی ہیں اور اسے انحراف سے بچاتی ہیں۔
پس عفت وہ کیفیت ہے جو مومن کو لغزش اور گناہوں سے آلودہ ہونے سے محفوظ رکھتی ہے اور مومن کے رویوں اور عمل میں حیاء کو ایک مثبت اور واضح اثر عطا کرتی ہے۔
اسے ہم لوگوں سے حیاء کے مثبت پہلو سے تعبیر کرتے ہیں جہاں حیاء ایک ایسی چاردیواری بنا دیتی ہے جو معاشرے کو لاپرواہی اور بے ہودگی سے بچاتی ہے۔ یہاں زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہےکہ ہم پیغمبر اکرمﷺ کی اس حدیث مبارک سے رہنمائی حاصل کریں: ’’جو لوگوں سے حیاء نہیں کرتا وہ خدا سے بھی حیاء نہیں کرتا۔‘‘
یہاں سے ہمیں بچوں کے اندر حیاء کا ملکہ پیدا کرنے کے حوالے سے والدین کے کردار کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ والدین پر ضروری ہے کہ وہ اپنے فرزند کو بچپن ہی سے حیاء کی مشق کروائیں اور اسے سمجھائیں کہ بےہودگی کتنی قبیح ہے اور گناہگار شخص لوگوں کی نظروں سے کس حد تک گر جاتا ہے۔ اس طریقے سے والدین بچے کو انحراف اور قانون کی خلاف ورزی سے روک سکتے ہیں۔
مذموم حیاء (یعنی حد سے زیادہ ہچکچاہٹ اور جھجھک)، مذموم صفات میں سے ہے۔ اس کی بنیاد انسانی شخصیت کی کمزوری اور احساس کمتری ہے۔ رسول اعظمﷺْ نے اسے حماقت اور جہالت والی حیاء سے تعبیر کیا ہے۔
یہ مشکل بعض اوقات بری تربیت سے پیدا ہوتی ہے، بعض اوقات انسان کے
طبعی عیوب سے اور بعض اوقات معاشرتی نقائص کی وجہ سے وجود میں آتی
ہے۔ خلاصہ یہ کہ انسان کے اندر احساس کمتری کی پیدائش کے متعدد
عوامل اور وجوہات ہیں جو انسان کو حد سے زیادہ ہچکچاہٹ اور بلاجواز
حیاء کی طرف لے جاتے ہیں۔ تحقیر کی وہ تمام حقیقی اور مجازی علامتیں
جنہیں ایک بچہ اس ماحول کے ساتھ اپنے آپ کو ہم آہنگ کرتے ہوئے
محسوس کرتا ہے جس میں وہ زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے، ممکن ہے اس کے
اندر یہ نفسیاتی پیچیدگی پیدا کر دیں۔