- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


نماز اور آسمانی شریعتیں
17 جمادى الاخير 1440هـ

تاریخِ ادیان کا مطالعہ اور حضرت آدم ؑ سے حضرت محمد ﷺ تک انسانی زندگی کے تمام ارتقائی مراحل کا جائزہ لیا جاے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نماز در حقیقت ایک ایسا آفاقی پیغام ہے جس کی طرف تمام انبیاء ؑ اور رسولوں نے دعوت دی اور مومنین ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہوے اسے ساری زندگی بجالاتے رہے ۔

قران مجید کی ایک سے زیادہ سورتوں میں نماز کی اہمیت اور اس کے سابقہ شریعتوں میں موجود ہونے کے بارے میں واضح پیغامات موجود ہیں۔ جن سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ نماز تمام آسمانی شریعتوں میں ایک مشترک عبادت ہے۔ چونکہ تمام آسمانی شریعتوں کی بنیاد اور نظام کا سرشمہ ذات خداوندی ہے۔ لہذا ان مذاہب کے مابین جو فرق ہے وہ ایک صف میں موجود فرق کی مانند ہے یعنی واقع اور حقیقت میں یہ سب ایک ہی مذہب ہے۔ اور دین انسانی زندگی کے تکامل، ترقی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کو مورد نظر رکھتے ہوے مرحلہ وار حکم تشریع کرتا ہے اور وہ حکم اپنے دور کے مکلف کی عمر، سطح  ِذہنی، سماجی اور اقتصادی حالات کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔

جب انسان ارتقائی مرحلے میں داخل ہوا اور وہ دینی فرائض جو ہر زمان و مکان کےلئے مناسب ہوں انہیں مکمل طور پر بجا لانے کے قابل ہوا، تو اللہ سبحانہ و تعالی نے ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کے قلب مبارک پر قران کی صورت میں ایک جامع کتاب وحی نازل فرمائی، جو دونوں جہانوں کے لئے رحمت اور ہدایت ہے۔ اس طرح اسلام ادیان الٰہی میں سے آخری اور کامل دین کے طور پر قرار پایا، کہ جس میں انسانی زندگی کے موجودہ اور مستقبل کے حالات اور احکام موجود ہیں۔ جیساکہ ہمارے سامنے ان چودہ سو سالوں کی تاریخ اور حالات واقعات ہیں ۔

انبیاء ماسلف کی طرح ہمارے آخری نبی حضرت محمد ص نے بھی نماز کی طرف دعوت دی اور یہ دعوت باقی تمام دعوتوں میں ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے جو نسل در نسل ہم تک منتقل ہوئی۔ جیساکہ سورہ مریم کی آیت اشارہ کرتی ہے کہ نماز ایک ایمانی اور روحانی عمل ہے جو اولاد آدم، نوح، ابراہیم اور اسرائیل علیھم السلام پر لازم قرار دیا گیا۔ اس سورہ میں غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ ان قوموں پر جب آیات خداوندی کی تلاوت کی جاتی تھی تو وہ روتے ہوے سجدے میں گرپڑتےتھے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ سجدہ ایک ایسا عمل ہے جو مومن کے ایمان اور عبادت کی عکاسی کرتا ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ مسلمان کے ہاں سجدہ اجزاء نماز میں سے ہے۔ جیساکہ اللہ تعالی فرماتا ہے (أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا)" یہ وہ انبیاء ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا جو اولاد آدم میں سے ہیں اور ان میں سے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں اٹھایا اور ابراہیم و اسرائیل کی اولاد میں سے اور ان لوگوں میں سے جنہیں ہم نے ہدایت دی اور برگزیدہ کیا، جب ان پر رحمن کی آیات کی تلاوت کی جاتی تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے) سورۃ مریم: 58) "( فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا) پھر ان کے بعد ایسے ناخلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشات کے پیچھے چل پڑے پس وہ عنقریب ہلاکت سے دوچار ہوں گے۔"(سورہ مریم: 59)

اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ہیں(رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي ) (إبراهيم ـ 40)"پروردگار مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی، اے ہمارے پروردگار اور میری دعا قبول فرما"

اور دوسری آیت میں حضرت اسماعیل کے بارے میں  فرماتے ہیں (وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ ..) (مريم ـ 55)" وہ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیتے تھے ۔۔۔"

اسی طرح حضرت شعیب علیہ السلام کی اپنی قوم سے بحث اور گفتگو ہمارے سامنے ہے کہ انہوں نے بہتریں انداز میں اپنی قوم  کونماز کا حکم دیا (قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا ... ) (سورہ هود ـ 87)"انہوں نے کہا: اے شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم انہیں چھوڑ دیں جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں۔۔۔۔"

اسی طرح  حضرت موسیٰ و ہارون علیھما السلام کے بارے میں فرماتے ہیں:(وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ وَأَخِيهِ أَن تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۗ ...) (سورہ يونس: 87) "اور ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی کہ مصر میں اپنی قوم کے لیے مکانات مہیا کرو اور اپنے مکانوں کو قبلہ بناؤ اور نماز قائم کرو اور مومنوں کو بشارت دو"

اور اسی طرح اللہ تعالی نے بنی اسرایئل کے ساتھ مدد و معاونت فراہم کرنے کا وعدہ کیا لیکن ایک شرط کے ساتھ کہ وہ سیدھے راستے پر چلیں گے اور نماز قائم کرینگے جیساکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: (وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا ۖ وَقَالَ اللَّهُ إِنِّي مَعَكُمْ ۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُسُلِي ...) (المائدة ـ 12) " اور اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ہم نے ان میں سے بارہ نقیبوں کا تقرر کیا اور اللہ نے (ان سے) کہا: میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی اور اگر تم میرے رسولوں پر ایمان لاؤ ۔۔۔"

اسی طرح قرآن مجید حضرت عیسی کے بارے میں فرماتا ہے کہ جب وہ گہوارے میں تھے اور لوگوں سے ہمکلام تھے : (قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا (سورہ مریم: 30) )"بچے نے کہا: میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔" وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا ))(سورہ مريم: 31) "ا ور میں جہاں بھی رہوں مجھے بابرکت بنایا ہے اور زندگی بھر نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا ہے"

ہاں، نماز ہی ایک روحانی اور حیات بخش عبادت ہے کہ جس کی طرف تمام انبیاء اور رسولو ں نے دعوت دی اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے مومنین اس کو بجالاتے رہے، یوں وہ اسرار اور برکاتِ نماز پوری زندگی مستفید ہوتے رہے۔ نماز صرف ایک روحانی عمل نہیں ہے بلکہ ایک ایسا عمل ہے جو ہر زمان و مکان میں انسان کی سعادت ، اور استحکام کا ضامن ہے۔جب ہم نے ان تمام مشاہدات اور نظریات کو جان لیا تو ہم آپ کو یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ "نماز ایک ایسی عبادت ہے جو انسان اور خالق کے درمیان احساسات، عقیدے کے اظہار اور تعلقات کا ایک اہم ذریعہ ہے اور جب بندہ مومن اللہ کے حضور خشوع اور اطمینان قلب کے ساتھ ایک لمحے کےلئے بھی نماز میں مشغول ہوتا ہے تو اس وقت وہ آسمان کی بلندیوں تک پہنچتا ہے "

امام صادق علیہ السلام سے جب پوچھا گیا کہ حضرت ابراہیم کا اللہ نے دوست کے طور پر کیوں انتخاب فرمایا؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا "حضرت ابراہیم کا اللہ تعالی نے کثرت سجود کی وجہ سے دوست کے طور پر انتخاب کیا "

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں " اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم کو ان کی سخاوت اور رات کو نماز تہجد بجالانے جبکہ لوگ  سورہے ہوتے ہیں کی وجہ سے دوست بنا لیا"

اللہ تعالی نے انبیاء کی تاریخ اور ان کے آثار کو مسجد سہلہ میں جوکہ عراق کے شہر کوفہ میں موجود ہے محفوظ رکھا ہے۔ یہ مسجد حضرت ادریس علیہ السلام سے منسوب ہے۔ کیونکہ آپ اس میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو بھی شخص اس مسجد میں جاکے اللہ سے اپنی حاجات طلب کرے گا تو اللہ تعالی اس کی حاجت روائی کرے گا اور وہ روز قیامت حضرت ادریس کے ساتھ محشور ہو گا اور دنیا کی نفرتوں اور دشمنوں کے شر سے محفوط رہے گا۔ یہ مسجد آج کل مسجد صاحب الزمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے نام سے معروف ہے۔

اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام جب حالت نماز میں ہوتے تھے تو کفار آپ کو بہت زیادہ اذ یتین اور تکالیف بہنچاتے تھے۔ پھر حضرت نوح ان کو دن رات تبلیغ کرنے لگے، مخفیانہ تبلیغ کا تو کوئی جواب نہ ملتا تھا اور جب علی الاعلان دعوت دیتے تھے تولوگ ان سے منہ موڑ لیتے تھے۔ جب قوم نے حضرت نوح کی دعوت کو مکمل نظر انداز کیا تو وہ نماز فجر کے بعد اللہ کے حضور بیٹھ گئے اوراللہ سے دعا مانگی ۔اللہ تعالی نے حضرت نوح علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی اورکہا: اے نوح !آپ کی د عا قبول ہوگئی ہے اب آپ ایک کشتی تیار کریں۔ پس اس کے بعد طوفان آگیا، اور لوگ عذاب الھی کا شکار ہوگئے، یوں آپ اور اپ پر ایمان لانے ولاے کامیاب ہوگئے باقی سارے تباہ ہوگئے۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں نے چھے مہنے بیٹھ کر نماز ادا کی کیونکہ کشتی میں اتنی ہی گنجائش تھی۔

اسی طرح قوم عاد نے جب سرکشی کی تو سات سال تک بارش نہیں ہوئی یہاں تک کہ قحط پڑگیا تو انہوں نے ایک وفد کو حضرت ھودعلیہ السلام کے پاس بھیجا تاکہ جس پریشانی میں یہ لوگ مبتلا تھے اس سے حضرت ھود کو آگاہ کیا جائے۔ حضرت ھود علیہ السلام نے نماز کے بعد ان کے لئے طلب استغفار کی اور فرمایا : وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَىٰ قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِينَ  "اور اے میری قوم! اپنے رب سے مغفرت مانگو پھر اس کے حضور توبہ کرو وہ تم پر آسمان سے موسلادھار بارش برسائے گا اور تمہاری قوت میں مزید قوت کا اضافہ کرے گا اور مجرم بن کر منہ نہ پھیرو۔")سورہ ھود: 52) 

( قَالُوا يَا هُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ وَمَا نَحْنُ بِتَارِكِي آلِهَتِنَا عَن قَوْلِكَ وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)(سورہ هود: 53)

کہنے لگے: اے ہود! تم ہمارے سامنے کوئی شہادت نہیں لائے اور ہم تمہاری بات پر اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے اور نہ ہی ہم تجھ پر ایمان لا سکتے ہیں۔(سورہ ھود:53)

اور جب یہ لوگ ایمان نہیں لاے تو اللہ تعالی نے ان پر سخت، تیز اور سرد ہواوں کے زریعے ان پر عذاب نازل کیا۔ لہذا اسلام میں نماز اپنی جامعیت اورمقاصد کے ساتھ اسلامی پیغامات کی عالمگیریت اور عمومیت کی ترویج کرتی ہے۔

اور اسی طرح نماز ایک تحریک ہے جو عام معاشرے کی تحریک سے جدا نہیں ہے بلکہ یہ معاشرے سے جڑی ہوہی ہے اور روح اور زندگی کی سہولیات فراہم کرنے میں دل کا کردار ادا کرتی ہے اور معاشرے میں توازن، ہم آہنگی پیدا کرنے کےلئے ایک بنیاد ہے۔

ان حقائق کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ اعلان فرمایا کہ " نماز دین کا ستون ہے اگر نماز قبول ہوگئی تو دوسرے اعمال بھی قبول ہوجائیں گے اور اگر نماز ردّ ہوگئی تو دوسرے اعمال بھی ردّ ہوجائیں گے "

نماز کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ نماز کسی راہبانہ یا کسی صوفیانہ عمل کا نام نہیں ہے اور نہ ہی کسی اجنبی زبان میں بجالانے والا فعل ہے کہ جس کا خود نمازی کو بھی پتہ نہ ہو کہ وہ کیا کر رہا ہے، ایسا ہرگز نہیں، بلکہ اسلام میں نماز ایک روحانی مشق ہے جو انسانوں اور انسانی معاشرے کو خواہشات نفس اور غلامی سے آزادی دلاتی ہے اور نمازی کو ایک ایسے درجہ تک پہنچاتی ہے کہ جہاں سے وہ انسانیت اور زندگی کی قیادت اور رہنمائی جیسے عظیم پیغمبرانہ کردار کو ادا کرسکے تاکہ انسانیت کی صحیح رہبری بھی ہو سکے۔