- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


نماز کی تعریف اور مفہوم:
17 جمادى الاخير 1440هـ

لفظ "الصلاۃ" لغت میں دعا کو کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر دعا من جانب اللہ ہو تو رحمت اور اگر بندوں کی طرف سے ہو تو طلبِ رحمت ہوگا۔اور دعا کے لئے لفظ " الصلاۃ" کو قراردیا گیا جو کہ رفتہ رفتہ بہت سے مشترک معانی  میں استعمال ہونے لگے۔

لہذا لفظ " صلاۃ" لغت میں دعا اور رحمت  دونوں میں عام ہے یعنی اشتراک معنوی کی حیثیت سے یہ ایک کلی اور جامع  مفہوم رکھتے ہیں جس میں رحمت، استغفار،طلب رحمت اور دعا وغیرہ شامل ہیں۔

شریعت میں لفظ " صلاۃ" ایک منقول شرعی کا نام ہے یعنی شارع نے اس لفظ کو معنی لغوی سے معنی شرعی کے لئے نقل کیا ہے، لھذا صلاہ سے مراد وہ مخصوص کیفیت ہے کہ جس میں شارع کی طرف سے مقرر کردہ افعال جیسے تکبیر، قراءۃ، رکوع، سجود وغیرہ کو بجالاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں لفظ صلاۃ کو شارع نے ان کیفیات کے لیے وضع کیا ہے جو بعد میں اسی معنی کے لئے خاص ہوگیا۔

 یہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ لفظ "صلاۃ" لغت اور شریعت دونوں میں ایک ہی معنی میں استعمال ہوا ہے اور وہ ہے "خاص توجہ" لھذا شارع نے لفظ "صلاۃ"کو اس کے معنی لغوی سے نقل نہیں کیا بلکہ شارع نے لفظ صلاۃ کے بعض مصادیق میں سے اس معنی مخصوص کو متعین کیا ہے۔

مفهوم الصلاة لغة وشرعا:

لفظ ِصلاۃ لغت اور شریعت دونوں میں ایک ہی مفہوم رکھتا ہے تاہم مصادیق کے اعتبار سے ان میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔جیساکہ صلاۃ کا مفہوم حضرت عیسی بن مریمؑ  کے اس قول کے مطابق کہ جس کو قرآن نے یو ں بیا ن کہ ہے (وأوصاني بالصلاة...)(مريم ـ31) "اور زندگی بھر نمازکی پابندی کا حکم دیا ہے"

 اسی طرح زمانہ جاہلیت میں بھی مفہوم صلاۃ جیساکہ قرآن مجید میں مذکور ہے (وما كان صلاتهم عند البيت إلا مكاء وتصدية)(الأنفال ـ35) "اور خانہ کعبہ کے پاس ان کی نماز سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ نہ تھی "اسی طرح اللہ تعالی فرماتے ہیں : (إن الله وملائكته يصلون على النبي...)(الأحزاب ـ56) "اللہ اور اس کے فرشتے یقینا نبی پر درود بھیجتے ہیں" (ولا تصل على أحد منهم مات أبدا...)(التوبة ـ 84)، "اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس پر آپ کبھی بھی نماز نہ پڑھیں "  وغیرہ تمام موارد میں لفظ صلاۃ ایک ہی مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور وہ ہے "خاص توجہ" تاہم ان کے مصادیق میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

پس صلاۃ کے مفاہیم کلی میں سے ایک مفہوم شرعی ہے اس سے مراد ارکان مخصوصہ ہیں  گویا کہ شارع مقدس نے اس لفظ سے ایک خاص کیفیت مراد لی ہے کہ جس میں شرائط مخصوصہ درکار ہیں۔