مصنف ہراس لیف مجلہ" اسلامک جرنل آف انگلش" میں لکھتے ہیں کہ "مساوات اور برابری کی دعوت دینے میں کوئی بھی مذہب مجھے مطمئن نہیں کرسکا، میں نے تمام مذاہب کا مطالعہ کیا تو سوائے چند مذہب کے باقی تمام مذاہب مساوات کی طرف دعوت دیتے ہوئے نظر نہیں آئے۔ میں نے بہت سارے چرچ اور مندروں کا دورہ کیا لیکن جیسے ان کے باہر تفریق نظر آتی تھی ویسے ان کے اندر بھی اختلاف نظر آیا۔ اس طرح کے اختلافات مسلمانوں کی مساجد میں بھی پائے جاتے تھے ،لیکن مجھے اس وقت زیادہ حیرت ہوئی جب میں نے لندن کی ایک مسجد میں نمازِعید فطر کے موقع پر مسلمانوں کے درمیاں مساوات کو دیکھا، وہاں پر مختلف طبقے سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو ایک ہی صف میں ایک بھائی کی حیثیت سے پایا۔ میں نے اس طرح کی کیفیت کو کبھی نہیں دیکھا تھا، میں نے وہاں دیکھا کہ اس مسجد میں جہاں مصر سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے تاجر فقیروں سے مصافحہ کررہے تھے، وہاں دیگر عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے سیاسی لوگ، ناداروں سے مل رہے تھے، یعنی ان میں سماجی، سیاسی اور اقتصادی اختلافات تھے تاہم وہ ایک دوسرے سے ملنے میں فرق محسوس نہیں کرتے تھے۔ سب لوگ مساوی نظر آتے تھے۔ یہ مساوات آپ بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں، آپ مسجد میں لوگوں کو اچھی جگہ کی تلاش کرتے ہوئے نہیں دیکھیں گے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ مسجد میں کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جو دوسری جگہ کی نسبت بہتر ہو، بلکہ سب جگہ اللہ کے نزدیک برابر ہے۔
لہذا نماز نہ صرف مساوات اور برابر کا مظہر ہے بلکہ نماز براہ راست مساوات کی طرف دعوت بھی دیتی ہے کیونکہ نماز بذات خود باجماعت نماز ادا کرنے والوں کو مساوات اور برابری کا احساس دلاتی ہے۔ اوروہ نماز ہی نہیں ہے کہ جس کو پڑھتے ہوئے امیر غریب کے پیچھے کھڑے ہونے کو ناپسند کرے یا حاکم محکوم کے پیچھے اور صاحب اقتدار کمزورشخص کے پیچھے کھڑا ہونے کو عار سمجھے۔ نماز مساوات کے حکم دیتی ہے اور مساوات ایک داخلی ایمان اور عقیدے کا نام ہے جس میں سب امیر اور غریب، حاکم و محکوم، قوی اور ضعیف سب برابر ہیں۔
پس مساوات وہ ہے کہ جس میں امیر بڑا اور تکبر محسوس نہیں کرتے، فقیر ذلت اور کمتری محسوس نہیں کرتے، حکمراں آزادی محسوس نہیں کرتے اور محکوم اور کمزور افراد غلامی محسوس نہیں کرتے، اور نہ کمزور انسان ضعیفی اور ناتوانی کا احساس کرتا ہے، بلکہ ہر ایک مساوات، ہم اہنگی اور اطمنان کا احساس کرتے ہیں۔ اور جب حالت نماز میں یہ سب ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں تو اس وقت یہ سب اطاعت کے چھتری تلے جمع ہوتے ہیں۔
اسی وجہ سے اسلام اپنی ظاہری جدجہد کی وجہ سے معاشرے میں موجود نفرت اور بدعت کو ختم کرنے اور انقلاب کی جد وجہد میں کامیاب رہا ہے۔ لہذا اسلام چاہتا ہے کہ طبقاتی نظام اور اس میں موجود نفرتوں اور جھوٹ کو نکال دیا جائے تاکہ معاشرے میں موجود مختلف طبقات اور گروہوں کے درمیان محبت، شفقت اور ہم آہنگی پیدا ہوجائے ۔اس سلسلے میں اسلام ہمیشہ تضاد اور جھگڑے کو ختم کرنے میں نمایاں رہا ہے۔کیونکہ اسلام امور زندگی میں صلاحیت اور قابلیت کو دیکھتے ہوئے تقسیم کار کے قائل ہے جس کی بنا پر ہر طبقہ اپنے فریضے کو انجام دیتا ہے اور ہر صاحب حق اپنے حق کو حاصل کرتا ہے، جس میں چھوٹے اور بڑے میں کوئی تفریق نہیں ہوتی ،کیونکہ اسلام کے عظیم مقاصد کے حصول میں یہ افعال راستے کی حیثیت رکھتے ہیں۔جس میں نہ کوئی ظلم اور دھوکہ دہی کی اجازت ہے اور نہ کسی کے ساتھ ناانصافی کی گنجائش ۔
پس اسلام میں ہر انسان کی قدر و قیمت اس کے عمل کے حساب سے لگائی جاتی ہے اور اس عمل کی اہمیت اس کے لوگوں کے لئے باعث نفع اور خیر ہونے کی وجہ سے۔ لہذا ہر عامل اپنے مالک کے سامنے ناقص فعل انجام نہیں دیتا، غلام اپنے مولا کے سامنے بیکار نہیں رہتے، اور فقیر امیروں کے سامنے محرومی کا احساس نہیں کرتا۔ بلکہ یہ سب ان لوگوں پر اپنی فوقیت کا احساس کریں گے، کیونکہ اسلام میں فوقیت اور تفریق کی بنیاد "تقوی" ہے اور خدا سے زیادہ سے زیادہ نزیک ہونا ہے۔((يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وأنثى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ)) (الحجرات ـ13) اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والا، باخبر ہے"