- 26 جمادى الاول 1446هـ -
- 26 جمادى الاول 1446هـ - 28 2024


جناب عمار یاسر ؓ ْ
11 رجب 1440هـ

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تربیت یافتہ افراد میں سے ایک نمایاں شخصیت جناب عمار یاسر کی تھی۔ آپؓ ان ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے جنہوں نے دین مقدس اسلام کی ترویج اور دعوت کے لیے مختلف قسم کی سختیاں برداشت کیں۔  آپؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں شامل تھے، آپؓ کو دو قبلوں کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا بھی شرف حاصل تھا، اس کے ساتھ ہی دین مقدس اسلام کی حفاظت کے لیے عصر رسالت میں جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں ان تمام میں شرکت کا بھی اعزاز آپ کے حصے میں آیا۔ عمار یاسرؓ  کو انحضرت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خواص اور مقربین میں سے شمار کیا جاتا تھا، اورآپ  رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین برحق علی ابن ابی طالب ع کے بہت ہی قریبی اور وفادار ساتھیوں میں سے  ایک تھے۔ علی ابن ابی طالب ع کے امام برحق ہونے اور آپؑ کے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلا فصل جانشین ہونے کے بارے میں آپؓ  کا تاریخی موقف تھا۔( یعنی آپؓ علی ابن ابی طالبؑ کو رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے جانشین برحق سمجھتے تھے)۔  آپ ایمان، تقویٰ، شجاعت، علم وحکمت اور اخلاق کریمہ کے مالک تھے۔ آپؓ کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:  عمار سر تا پا مجسمہ ایمان ہے، ایمان تو اس کے گوشت وخون میں رچ بس گیا ہے۔  جس طرح آپ ؓ کی زندگی  حق کی سر بلندی میں گزری، اسی طرح آپؓ کی شہادت بھی حق اور حقانیت کی  دلیل بنی۔ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمار یاسرؓ  کی شان بیان  کرتے ہوئے فرمایا: عمار تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔آپ جنگ صفین میں مولیٰ علی ؑ کے ساتھ تھے، اسلام کی سربلندی اور کلمہ حق کے اعلاء کے لیے آپ نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے اللہ سے ملاقات کی۔ آپؓ نے وقت کے امام علی ابن ابی طالبؑ کی ہمرکابی میں  ناکثین (عہد وپیمان توڑنے والے یعنی جنگ جمل میں مولیٰ کے ساتھ جنگ کرنے والے) ، اور قاسطین (جنگ صفین میں ظلم وستم کرنے والے مخالفین) کے ساتھ جہاد  کیا اور اپنے امام کے محضر میں جام شہادت نوش کیا۔