- 26 جمادى الاول 1446هـ -
- 26 جمادى الاول 1446هـ - 28 2024


بعثت سے پہلے نبی اکرمﷺ کا عقیدہ
24 محرم 1444هـ

نبی اکرمﷺ کی زندگی پر جو بھی علمی کام کرتے ہیں انہیں یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ آپ اللہ کی چنیدہ مخلوق ہیں۔نبی اکرمﷺ اللہ کی وحدانیت پر اس زمانے میں بھی ایمان رکھتے تھے جب لوگ شرک کی گمراہیوں میں بھٹکے ہوئے تھے اور قریش کی اکثریت کافر تھی۔اس بات پر یقین اور بھی پختہ ہو جاتا ہے جب انسان ان تاریخی واقعات کا بھی مشاہدہ کرتا ہے جو سیرت کی کتب میں منقول ہیں اور ان کا تعلق قبل از اعلان رسالت سے ہے کہ آپ دین حنیف کے پیرو تھے۔آپ ﷺ نے کبھی کسی بت کے سامنے سجدہ نہیں کیا۔آپ نے ایک لمحے کے لیے بھی کفر و شرک کو قریب نہیں بھٹکنے دیا۔اس سب کے ساتھ ساتھ آپ  کو پروردگار نے اخلاق حمیدہ عطا فرمائے یہاں تک کہ آپ بعثت سے پہلے ہی صادق اور امین کے لقب سے پکارے گئے۔اس وقت کے مکی معاشرے کا مشاہدہ کیا جائے تو اس میں ظالم اپنی طاقت سے محتاجوں اور کمزوروں پر ظلم کر رہے تھے۔

سیرت نبی ﷺ میں کچھ ایسے واقعات مذکور ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ بعثت سے پہلے بھی اللہ پر ایمان رکھتے تھے اور چنے ہوئے تھے۔ آپ کی زندگی میں پروردگار کے متعلق کوئی شک و شبہ نہ تھا بلکہ آپ پیدائش کے ساتھ ہی کامل ایمان کے ساتھ دنیا میں تشریف لائے اور اپنے رب کوجانتے تھے ۔چند واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں جن سے آپ ﷺ کے ایمان کی شہادت ملتی ہے۔

۱۔آپ کا اللہ پر ایمان کہ وہ حفاظت کرنے والا اور خیال رکھنے والا ہے

یہ روایت کی گئی ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے حضرت حلیمہ سعدیہ رض سے دریافت کیا (جب آپ ان کے ہاں تین سال تک ان کی تربیت میں رہے) میرے بھائی  کہاں ہیں؟وہ بکریاں چرانے گئے ہیں۔اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں ان کے ساتھ باہر کیوں نہیں جاتا؟اس پر حضرت حلیمہ رض نے پوچھا کہ کیا آپ ﷺ کو جانا پسند ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں،جب صبح ہوئی تو حضرت حلیمہ رض نے سرمہ لگایا اور آپ کے گلے میں ایک یمانی ڈالا،آپﷺ نے اسے اتار دیا اور پھر ان سے فرمایا  رکیں اماں جان میرا کوئی ہے جو میری حفاظت کرے گا۔

۲۔آپﷺ کالات اور عزی سے نفرت کرنا اور ان دونوں پر قسم نہ اٹھانا

جب آپﷺ اپنے چچا حضرت ابوطالبؑ کے ساتھ شام کا سفر کر رہے تھے اور یہ آپ کا پہلا سفر تھا اور آپ کو راستے میں ایک راہب ملا تھا جس کا نام بحیرا بیان کیا جاتا ہے۔اس نے پوچھا تھا اے جوان لات اور عزی کے واسطے مجھے وہ بتاو گے جو میں تم سے دریافت کروں؟آپﷺ نے فرمایا:تم مجھ سے لات اور عزی کے ذریعے سوال نہ کرو،خدا کی قسم میں ان سے زیادہ کسی چیز نفرت نہیں کرتا جتنی ان دونوں سے کرتا ہوں۔اس پر اس بحیرا نامی راہب نے کہا  تمہیں اللہ کی قسم تم مجھے ان سوالات کے جواب دو جو میں تم سے پوچھوں؟اس پر آپﷺ تم مجھ سے پوچھو جس کا آغاز تم نام خدا سے کر رہے ہو۔

اسی طرح کا ایک اور واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے جس میں آپﷺ شام ہی تشریف لے جا رہے تھے اور آپ ﷺ کے پاس کافی سامان تجارت بھی تھا۔ آپ ﷺ سے کہا گیا کہ لات و عزی کی قسم اٹھائیں۔آپﷺ نے فرمایا میں کبھی بھی ان دونوں کی قسم نہیں اٹھاوں گا،مجھے ان سے دوری کا حکم دیا گیا ہے۔بعض روایات میں ہے کہ آپ ﷺ فرمایا کہ تیری ماں تیرے غم میں روئے اور یہ کلام عرب میں کسی کے لیے کہنا بڑی بات ہے۔پھر اس بندے نے کہا کہ آپ کی بات ہی معتبر ہے۔پھر اس شخص نے حضرت خدیجہؑ کے غلام میسرہ جو کہ  تجارت میں حضرت خدیجہ ع کی طرف سے آیا اس سے کہا کہ خدا کی قسم یہ نبی ہیں۔

۳۔نبی اکرمﷺ اللہ کی عبادت کی کرتے تھے

اس پر تاریخ دان اور سیرت نگار متفق ہیں کہ نبی رحمتﷺ غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے اور تنہائی میں وہاں رہتے تھے۔یہاں آپ اللہ تعالی اور مخلوق خدا کے بارے میں غور و فکر اور تدبر کیا کرتے تھے اور یہ عمل مہینوں جاری رہتا تھا۔اس بات کو آپ کے چچا کے بیٹے اور آپ کے تربیت یافتہ حضرت علیؑ نے بیان کیا ہے کہ آپﷺ ہر سال غار حرا تشریف لے جاتے تھے اور میں انہیں دیکھتا تھا جبکہ کوئی اور دیکھنے والا نہیں تھا۔بچپن سے ہی وحی آپﷺ کے ساتھ تھی۔اللہ تعالی نے آپ ﷺ کے ساتھ ایک عظیم فرشتے کو رکھا جو آپ کو بچپن سے ہی اللہ کی راہ کی رہنمائی کرتا تھا۔یہ دن رات آپ ﷺ کے ساتھ ہوتا تھا یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ نے کئی بار اسلامی طریقے کے مطابق حج کو انجام دیا۔وہ تمام اعمال حج کو قریش کی نظروں سے بچ کر انجام دیتے تھے کیونکہ اس طرح آپﷺ اپنی مرضی کے مطابق حج کر پاتے تھے۔امام صادق ؑ نے فرمایا کہ نبی اکرمﷺ نے دس حج چھپ کر کیے۔