اسلام دیگر تمام ادیان سے اس معاملے میں منفرد ہے کہ اس نے تمام انسانوں کے لیے مسلمانوں کے مال سے کفالت کی تعلیم دی ہے۔یہ اسلام کا اقتصادی نظام ہے جو اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ معاشرے کا ہر فرد باوقار زندگی بسر کرے۔اس حوالے سے اسلامی نظام دنیا کا بہترین اقتصادی نظام ہے۔اسلامی نظام میں یہ ہوتا ہے کہ بیت المال کا محکمہ قائم کیا جاتا ہے جس میں ہر شہری کو ماہانہ،ہفتہ وار یا روزانہ کچھ رقم اسلامی ریاست کے سربراہ کی طرف سے دی جاتی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسلامی ریاست میں بسنے والے تمام شہریوں میں مساوات قائم کی جاتی ہے۔کسی کالے کو کسی گورے پر، کسی عربی کو کسی عجمی پر،کسی مہاجر کو کسی انصاری پر اور کسی آقا کو کسی غلام پر کوئی برتری نہیں ہے۔سب کے سب انسان زمین پر اللہ کا کنبہ ہیں، اسلامی ریاست کے سربراہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کو نافذ کرے اور اس سے ہٹ کر نہ چلے۔بیت المال میں جو مال جمع ہوتا ہے وہ سب لوگوں کا مال ہوتا ہے اور سب لوگ اس مال میں برابر کے شریک ہوتے ہیں ا س لیے ضروری ہے کہ یہ تمام اہل وطن میں برابر طور پر تقسیم کیا جائے۔
اسلام کی کفالت کا یہ نظام نبی اکرمﷺ نے ریاست مدینہ میں شروع فرمایا تھا۔اس طرح آپ ﷺ نے تمام تہذیبوں میں سبقت حاصل کی۔اس سے پہلے یہ یوں بطور نظام نہیں تھا یہاں تک کہ آسمانی ادیان میں بھی نظام نہیں تھا۔آپﷺ کا قائم کردہ یہ نظام ایک لمبی مدت تک قائم رہا اور مسلمان اس پر عمل کرتے رہے۔
آپﷺ کے بعد جو حکمران آئے انہوں نے اس طریقے کو تبدیل کیا۔ نبی اکرمﷺ کے نظام میں عربی کو غیر عربی پر کوئی برتری نہیں تھی یہاں دے دی گئی،کسی آقا کو کسی غلام پر برتری نہیں تھی مگر اب دے دی گئی،کسی قریشی کو کسی عربی پر برتری نہیں تھی مگر اب دے دی گئی۔یوں ایک بڑی خطرناک تبدیلی کی گئی جس نے مستقبل قریب میں پورے معاشرے کو خطرے سے دوچار کر دیا۔
اسی طرح حکمرانوں نے قبیلوں کے سربراہ کو قبیلے کے افراد پر ترجیح دی،اسی طرح قوم کے سرداروں کو عام افراد پر ترجیح دی گئی۔اس کے ذریعے ان کا حکومت کرنا آسان ہو گیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عدم مساوات قائم ہو گئی اور ایک قلیل گروہ عوام کے دولت سے ہی ان پر مسلط ہو گیا اور معاشرے میں غربت بڑھ گئی۔اسی بنیاد پر تیسرے حکمران نے اس معاشرتی تفاوت کو خطرناک حد تک توسیع دے دی۔ ایک گروہ وجود میں آگیا اور مسلمانوں کا مال حکمران طبقے میں ہی محدود ہو گیا۔اس وقت اقرباء پروری ہونے لگی اور صرف اردگرد والے نوازے جانے لگے یہاں تک کہ لوگ متنفر ہونے لگے۔کچھ لوگ تو اسے اصل اسلامی تعلیم سمجھ کر اسلامی شریعت سے ہی بھٹکنے لگے۔اس سے اسلامی معاشرے میں حالات خراب ہوئے اور فتنوں نے سر اٹھا لیا۔مالدار گروہ وجود میں آ گئے اور ان میں اور عام لوگوں میں مالی تفاوت بہت زیادہ ہو گیا۔کچھ لوگوں کی جائیدادیں حد سے زیادہ بڑھ گئیں اور کچھ حد سے زیادہ فقیر ہو کر کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے۔اس کے خلاف لوگ اٹھ کھڑے ہوئے یوں مالدار اور سماجی طور پر پسماندہ لوگوں کے درمیان ایک کشمکش شروع ہو گئی۔اس وقت یہ صورتحال پیدا ہو گئی تھی کہ نبی اکرمﷺ نے جس عدالت اجتماعی کی بات کی تھی وہ ختم ہو چکی تھی۔اس تفاوت کے آثار واضح طور پر معاشرے میں نظر آرہے تھےجس کا آغاز دوسرے کے دور میں ہوا تھا۔یہ طریقہ بہت برا ثابت ہوا اس سے اسلامی معاشرے میں منفی تبدیلیاں آئیں جس نے معاشرے کو تباہ کیا جس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔اس کا خود تیسرے حکمران کو احساس ہو گیا تھا اسی لیے کہا کہ اگر میں اس سال زندہ رہا تو میں لوگوں کے درمیان مساوات قائم کروں گا جیسے رسول اکرمﷺ اور ابوبکر نے کی تھی لیکن اس کی موت نے انہیں مہلت نہ دی۔جو اس کے جانشین شام میں بنے انہوں نے ان کی قائم کردہ روش ہی جاری رکھی۔نبی اکرمﷺ کے قائم کردہ طریقے کو تبدیل کر دیا گیا اور اس کی اہم بنیادوں کو گرا دیا گیا۔اسلامی معیشت کو برباد کر کے اس کی جگہ ایک اور خطرناک طریقے کی بنیاد رکھی گئی جو بنو امیہ اور ان کے بعد بنو عباس میں جاری رہا۔
جب نبی اکرمﷺ کے جانشین حضرت علیؑ نے زمام حکومت سنبھالی جیسا کہ اللہ کی طرف سے اصل حق حکومت بھی آپ کا ہی تھا ایسا نہیں کہ مسلمانوں کا ایک گروہ ان کوکسی کو حکمران بنا دے۔ آپ نے نبی اکرمﷺ کی سنت کے مطابق عمل کیا۔آپ نے لوگوں کی بیت المال سے کفالت کا اعلان کیا اور ان کے درمیان بیت المال سے برابری کی بنیادی پر وظیفہ جاری کیا گیا۔ آپ نے ہر طرح کے تفاوت کو ختم کر دیا اس تفاوت کی بنیاد جو بھی تھی آپ نے اس کی پرواہ نہیں کی۔آپ نے سب کے ساتھ برابری کا سلوک کیا اور آپ کی نے حکومت کی بنیاد اسی کو بنایا آپ نے فرمایا: رعیت میں عدل ہو گا اور بیت المال ان کے درمیان برابر تقسیم کیا جائے گا۔ آپ نے نبی اکرمﷺ کی سنت کے مطابق اللہ کی مخلوق کی کفالت برابری کی بنیاد پر شروع کی اور یہی وہ بات جس میں اسلام دیگر سے امتیاز رکھتا ہے۔اسلام کا عدل ہی اسے لوگوں کے درمیان محبوب کر دیتا ہے کہ اسلام وہ دین ہے جس کے مطابق لوگوں میں مال کو عادلانہ اور منطقی انداز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔یہ اسلام کے سیاسی نظام کی تشکیل میں اہم دینی قدر ہے۔اسلام کا آغاز ہی اس بات سے ہوتا ہے کہ انسان عدل کا اقرار کرے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے برحق جانشین کے لیے اللہ کے رسول ﷺ کے طریقے پر عادلانہ انداز میں عمل کرنا آسان نہیں تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ سے پہلے لوگوں کو مختلف بنیادوں پر غیر متوازن مالی حقوق دیے جاتے تھے۔جب آپ نے برابری کے نظام کو قائم کیا تو وہ لوگ آپ کی مخالفت میں سامنے آگئے کیونکہ برابری میں ان کا مالی نقصان ہوتا تھا۔حضرت علیؑ نے ہمیشہ برابری اور مساوات کی بات کی۔ آپ کہا کرتے تھے کیا اللہ کے نبیﷺ تمام مسلمانوں کے درمیان برابر تقسیم نہیں فرمایا کرتے تھے؟
آپ نے اپنے نظریہ عدالت کو بڑی تفصیل سے سے بیان کیا آپ فرماتے ہیں:جب آپ اور آپ بھی بھائی عقیل بن ابی طالبؑ کے درمیان بات چیت ہو رہی تھی اور عقیل اپنے اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان امتیاز برتنے کا مطالبہ کر رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں زیادہ دیں آپ نے فرمایا کہ آپ اور میں (مسلمانوں کے بیت المال میں)دوسروں مسلمانوں کے ساتھ برابر ہیں۔اسی طرح آپ ؑ نے ایک اور طرح سے ان کے اور عام لوگوں کے درمیان مساوات کی یہ کہتے ہوئے واضح کیا آپ فرماتے ہیں کیا تم مجھے یہ حکم دیتے ہوکہ میں اس مال کو ظلم سے لے لوں جس پر میں امانتدار ہوں؟۔ اگر یہ مال میرا بھی ہوتا تو میں لوگوں کے درمیان برابر تقسیم کرتا یہ تو پھر اللہ کا مال ہے۔جان لو کہ جس کا حق نہیں اس کو مال دینا اسراف اور تبذیر ہے۔یہ دنیا میں تو اسے بلند کر دے گا مگر آخرت میں اس کو گرا دے گا،یہ لوگوں کے درمیان عزت کو بڑھا دے گا مگر اللہ کے ہاں عزت کو کم کر دے گا۔تاریخ دانوں نے اس کا تذکرہ کیا ہے کہ دو عورتیں ایک عرب تھی اور ایک لونڈی تھی حضرت علیؑ نے ہر دو کا بیت المال سے وظیفہ پچیس درھم مقرر کیا اور ایک جتنا کھانے کا سامان دیا۔عرب خاتون نے کہا اے امیر المومنین ع میں عرب ہوں اور یہ عجمی عورت ہے؟ امیر المومنین ؑ نے فرمایا خدا کی قسم میں بنی اسماعیل ؑ اور بنی اسحاقؑ میں کوئی فرق نہیں پاتا۔
حضرت امیر المومنین ؑ نے اسلام کے قوانین عدالت کو نافذ کیا اور ان
کی بنیاد نبی اکرمﷺ کے بنائے قوانین پر رکھی جو آپ ﷺ نے اپنی حکومت
میں بنائے تھے۔حضرت علیؑ تک پہنچتے ہوئے ان قوانین میں بہت تبدیلیاں
آچکی تھیں۔اگر امام علیؑ کا ہدایت یافتہ دور نہ ہوتا تو نبی اکرمﷺ
کی سنت ضایع ہو جاتی حضرت امیرؑ نے آپﷺ کی سنت کو زندہ کر دیا۔آپ
ؑ کی سیرت سے اسلامی کے عظیم اقتصادی نظام کا پتہ چلا یہ ایسا عظیم
نظام ہے جس سے اسلام کی عظمت کا پتہ چلتا ہے