- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


حجاب مسلمان عورت کی پہچان
17 شعبان 1443هـ

اسلامی قانون سازی(شریعت) مفادات اور نقصانات کے گرد گھومتی ہے یعنی اسلامی قانون سازی دو میں سےایک بات پر منحصر ہے یا تو کسی چیز کی قانون سازی میں نفع ہو گا تو اسکو وجود میں آنا چاہئے اور اگر اس میں نقصان و ضرر ہے تو اس سے روکنا چاہئے  یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ یہ قانون سازی خود ساختہ اور من پسند ہے پس ہر حکم کی کوئی نہ کوئی علت اور سبب ہے خاص طور پر چونکہ یہ ایسی ہستی کی جانب سے ہیں جو حکمت والے اور جاننے والا ہے ۔

سائنس نے بھی اس شریعت کے حلال و حرام میں دقت کومحکم قراردیا ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ انسانی فطرت اور تجربات نیز وجدان سے بھی ہم آہنگ ہے اس بنا پر جس چیز کو بھی شارع نے حلال قرار دیا اس میں مصلحت اور مفاد ہے اور جس چیز کو بھی حرام قرار دیا ہے اس میں مفسدہ و نقصان ہے ۔

جب ہم گفتگو کو عورت کے حجاب کی جانب موڑتے ہیں تو اسکو بھی اسی عمومی قاعدہ پر منطبق کرنا ہوگا کہ شارع مقدس نے عورت پر حجاب کو لازم قرار دیا اور الزامی و نا قابل معافی ہونے کی حیثیت سے اس پر تاکید کی ہے جیسا کہ قول پرودگار ہے:

 وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ))(سورة النور ـ 31)

"اور مومنہ عورتوں سے بھی کہدیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو بچائے رکھیں اور اپنی زیبائش (کی جگہوں) کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو اس میں سے خود ظاہر ہو اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں سوائے اپنے شوہروں، آبا، شوہر کے آبا، اپنے بیٹوں، شوہروں کے بیٹوں، اپنے بھائیوں، بھائیوں کے بیٹوں، بہنوں کے بیٹوں، اپنی (ہم صنف) عورتوں، اپنی کنیزوں، ایسے خادموں جو عورت کی خواہش نہ رکھتے ہوں اور ان بچوں کے جو عورتوں کے پردوں کی باتوں سے واقف نہ ہوں، اور مومن عورتوں کو چاہیے کہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جس سے ان کی پوشیدہ زینت ظاہر ہو جائے اور اے مومنو! سب مل کر اللہ کے حضور توبہ کرو، امید ہے کہ تم فلاح پاؤ گے “

اس کا مطلب یہ ہے کہ حجاب میں  عورت کی مصلحت اور فائدہ ہے بالخصوص  جب ہم جانتے ہیں کہ بعض مرد  اسے فقط استعمال کا سامان سمجھتے ہیں اور اس کا دائرہ کار فقط تفریع ہے نہ کہ ایک ایسی ہستی جس کی انسانی قدرباقی سب سے بڑھ کر ہو چہ جائیکہ  اسکی عریانیت جو نعوذ باللہ خدا وند تعالی کے غضب کا سبب بنتی ہے ۔اس بات کے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ قبل اسکے کہ وہ اپنے جسم کو طمع رکھنے والوں کی لالچ سے آلودہ کرے اسکی عریانیت اسکی پہلی جبلت سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتی  ۔

 جس طرح اوپر والے فرمان خداوندی میں فرمایا گیا ہے  کہ عورت کا شرعی حجاب اتنا ہے کہ جو اسکے پورے وجود کو ڈھانپ لے سوائے  اسکے چہرے اور دونوں ہاتھوں کے جسکی شارع مقدس نے اجازت دی ہے  بلکہ خدا نے اسے بالواسطہ زینت وآرائش سے بھی منع کیا ہے ۔

باوجود اس بات کے کہ پردہ عورت کے شرعی واجبات میں سے ہے اور فقہی تاکید کے علاوہ اس کو قرآن اور احادیث میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے پھر بھی عورت کی آزادی کے حامی اسکے پردہ کو اسکی آزادی کے خلاف سمجھتے ہیں بلکہ وہ حجاب کو عورت کے لئے قید اور اسکے عزائم کے لئے دیوار سمجھتے ہیں ۔یہ لوگ اسی طرح کے کمزور ہتھیار رکھتے ہیں جو کہ نئی اور پرانی تہذیبوں سے قطعا مطابقت نہیں رکھتے اور یہ بھی کہ حجاب خواتین کے عملی زندگی میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے ۔

ان غلط فہمیوں کا جواب دینے کے لیئے (کہ جو شک پیدا کرنے والوں کی روش ہے ) یہ لوگ حقیقت کا ایک رخ لے رہے ہوتے ہیں جسکی بنیاد  غیر منطقی ہوتی ہے کیونکہ وہ خود کو ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ گویا وہ خواتین کا دفاع کرنے والے ہیں اور جنگجو افراد کی طرح اسلحہ سے بھرپور وہ انکی حفاظت کر رہے ہیں اور اسکے زریعہ وہ کچھ خواتین کی ہمدردی لینا چاہتے ہیں اور خواتین بھی اپنی جسمانی ساخت اور جذبات کے سبب انکی طرف زیادہ مائل ہوتی ہیں (جو انکے اس جنبہ کی ستائش کرے وہ اس سے ہمدردی کرتی ہیں )

ان (لغو)باتوں کی چھان بین کرنے والا جلد اس نتیجہ تک پہنچ جاتا ہے کہ کسی بھی دور میں پردہ عورت کے کام میں رکاوٹ نہیں بنا  یا اسکی زندگی کے امور اور کاروبار اور دیگر کاموں سے رکاوٹ نہیں بنا بلکہ معاملہ اسکے برعکس ہے یعنی اس کی بے حجابی ان تمام امور کی انجام دہی میں رکاوٹ بنتی ہے خاص طور پر جب یہ بات آزاد معاشرے(یہاں اس سے مراد ایسا معاشرہ ہے جس میں بد اخلاقی ہو) میں ثابت ہو چکی ہے کہ کام کرنے والی خواتین کو انتہائی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بہت ہراساں کیا جاتا ہے اس میں اعلی سطح کے صدارتی محل بھی شامل ہیں جنکے متعلق  اخبار(پرنٹ میڈیا )نے ہمیں باخبر کیا تھا ۔

اسلام نے عورت پر پردہ واجب کیا اس کا مقصد یہ نہیں تھا اسکو قید کیا جائے اور نہ ہی اس پر لازم کیا کہ وہ اسکے علاوہ کوئی کام نہ کرے بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کہ عورت تمام تر مشکل تر امور جیسے سیاست ،اقتصادیات ،تجارت میں مردوں کے ساتھ شریک کار ہے اور اسلامی میراث میں اسکی بہت مثالیں اور مصادیق ملتے ہیں جبکہ اسکے برعکس آج کے دور میں بھی کچھ باپردہ خواتین تنزانیہ ،سنگاپور،اور بنگلا دیش جیسے ممالک میں ہیں انہیں سیاسی اور حکومتی عھدوں سے روکا گیا ہے کیونکہ بعض نظریات کی حساسیت اسی میں مضمر ہے کہ حجاب کے معاملہ میں ضد سے کام لیا جائے (اور اس سے روکا جائے )اور یہ(سبب تراشا جائے ) کہ حجاب عورت کے حسن کی نمائش میں رکاوٹ بنتا ہے اور وہ بہت سارے اقتصادی فوائد سے محروم رہ جاتی ہے عالمی منڈی عربوں ڈالر  سے بھری پڑی ہے جو میک اپ اور فیشن کے زرائع نقل وانتقال سے متعلق ہیں پس عورتوں کو اس سے روکنا اسے محدود کر سکتا ہے دوسری بات یہ کے ایسا کرنا عالمی سطح پر پالیسی بنانے والوں کے عزائم میں بھی رکاوٹ بن سکتا ہے ان سے میری مراد وہ شریر کاروباری افراد اور لابیاں ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف مال اور جسم فروشی ہے تاکہ معاشرہ میں انتشار اور افراتفری کاسبب بنے ۔کیونکہ افراتفری میں ان ظالموں کے مقاصد پورے ہو سکتے ہیں یہ معاشرے میں اثرو رسوخ کے بل بوتے پر ہی مردوں کو جنسی کاموں اور نشہ آور چیزوں پر مسلط کر سکتے ہیں اور انکی عورتوں کو(اولا و آخرا) ہرلحاظ سے مردوں سے جنسی تسکین پر ابھار سکتے ہیں۔

 (ہمیں معلوم ہونا چاہئیے کہ ) خواتین کو لباس سے آزادی کے لئے اپنے مطالبات میں یہ کس حد تک سنجیدہ ہیں بالخصوص عورت کو اسکی فطرت یعنی حجاب سے الگ کرنے میں انکے عزائم کیا ہیں ؟

ہمیں چاہئے کہ انکی معاشرتی خبروں کو جانیں( جنہوں نے عورت کو آزادی کے فائدے دئیے ہیں )تاکہ انکے جرائم کی حد جان سکیں کہ انکا معاشرہ ایسے ہراساں کرنے والے لاکھوں چہروں سے بھرا پڑا ہے جو خواتین کو اپنی بیمار خواہشوں کے پورا کرنے کا ظرف سمجھتے ہیں اور بس۔

اسکے برعکس ہمیں ان ملکوں سے بھی مطلع ہونا چاہئے جو پردہ کو ضروری سمجھتے ہیں تاکہ انکے جرائم کو دوسروں سے پرکھ سکیں جہاں آزادی خصوصیت سے جرائم کا خاصہ بن چکی ہے اور اپنی جگہ پر ان معاشروں میں اسلام سے لڑنے کا جواز اور مسلمان  عورتوں کو حجاب سے روکنا اور انکی شخصیت کو چھیننا اور اس پر اپنے قانون  تھوپنا  جو اس خاتون کے عقیدہ سے مطابقت نہیں رکھتے (یہ سب ان آزاد ملکوں کا وطیرہ بن چکے ہیں ) اور ہمیں ان مخفی سانحات سے باخبر ہونا چاہئیے جہاں آزادی کے عنوان ہونے کے باوجود عورت مغلوب اور مظلوم ہے  ۔

کیا واقعی وہاں پر آزادی پائی جاتی ہے ؟

یا فقط اسکی عریانیت میں محدود ہے بس ؟

اور( ہمیں سوچنا ہوگاکہ )کیا حجاب مسلمان عورت کو اسی سرگرمیوں سے روکتا ہے؟ چاہئے وہ مسلم معاشرے میں رہتی ہو یا  آزاد معاشرے میں رہتی ہواور اپنے حجاب کی حفاظت کرتی ہو؟