"ذمہ"عہد اور کفالہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اس کی جمع "ذمما" اور "ذماما" ذال کے کسرہ کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔جب یہ کہا جاتا ہے کہ اس کے لیے ذمہ ہے تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ اس کے لیے حق ہے۔
اہل ذمہ کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ اہل ذمہ وہ اہل کتاب ہیں جو مسلمانوں کے ممالک میں رہتے ہیں۔ اہل ذمہ و اہل عقدہ جن کے ساتھ معاہدہ عقد کیا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ امان کا وعدہ ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:کوئی معمولی آدمی بھی کسی کا ذمہ لے سکتا ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:میں تمہیں اپنے اہل ذمہ کے ساتھ بھلائی کی وصیت کرتا ہوں۔ حضرت علیؑ فرماتے ہیں جس کا میں نے ذمہ اٹھایا میں اس کا ذمہ دار ہوں۔
اس صفت کا اطلاق ان اہل کتاب پر ہوتا ہے جنہوں نے جزیہ کو ادا کیا اور یہ جزیہ در اصل ان غیر مسلموں سے ان بہت سے امور کے بدلے میں ہے جو مسلمان انجام دیتے ہے جیسے فوجی خدمات،صدقات اور دیگر مالی حقوق جو صرف مسلمان ہی ادا کرتے ہیں۔اسی طرح اس جزیہ کے بدلے میں یہ غیر مسلم تحفظ،اقتصادی اور اجتماعی مواقع سمیت بہت سی چیزیں حاصل کرتے ہیں۔اسی طرح اس جزیہ کے بدلے میں ان کا خون اور مال محوظ رہتے ہیں۔
اسی وجہ سے لفظ "ذمہ" عہد،ضمان اور امان میں تبدیل ہو چکا ہے اور ان ذمیوں کو اہل ذمہ کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی ذمہ داری اللہ،رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں پر ہوتی ہے۔کیونکہ ان اہل کتاب اور مسلمانوں کے درمیان عقد و عہد موجود ہوتا ہے۔
ذمہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریاست مدینہ کو بناتے ہوئے تاسیس فرمایا۔یہ اس وقت بنایا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غیر مسلموں کے لیے قوانین و احکام وضع فرمارہےتھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیر مسلموں کے حقوق کی ضمانت اور مسلمان معاشرے میں ان کے بہتر زندگی گزارنے کے لیے اقدام فرمایا۔ان قوانین و احکام کے ذریعے اہل مدینہ کا ایک دوسرے کے ساتھ تعلق و معاملہ واضح کیا گیا تھا۔مدینہ رہنے والوں کا مذہب جو بھی ہو مسلمان، مسیحی یا یہودی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میثاق مدینہ جو کہ اسلامی ریاست کا دستور تھا اس میں سب کو شامل کیا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے آپ نے فرمایا:جس نے کسی معاہد کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھ سکے گا اگرچہ یہ خوشبو چالیس سال کی مسافت سے آتی ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے یعنی جس نے کسی ذمی کو تکلیف دی تو اس کے مدِّ مقابل میں ہوں گا اور جس کے مدِ مقابل میں آیا وہ روزِ قیامت میں اس پہ غالب رہوں گا۔
اسی طرح بنی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:جس نے اہل ذمہ میں سے کسی کوقتل کیا اللہ نے اس پر جنت کو حرام قرار دے دیا ہے۔ حضرت علی ؑ فرماتے ہیں:وہ اس لیے مال دیتے ہیں کہ ان کے اموال ہمارے اموال کی طرح ہوں اور ان کے خون ہمارے خون کی طرح ہوں۔
جس راستے کی بنیاد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھی باقی ائمہ ؑ کا راستہ بھی وہی ہے امام سجادؑ اس حوالے سے ممتاز ہیں کہ انہوں نے اہل ذمہ کے لیے رسالہ حقوق میں ایک خاص باب معین فرمایا ہے۔اس باب میں غیر مسلموں کے حقوق کو بیان کیا گیا اور اسلام کی وسعت کا اظہار کیا گیا ہے۔بہت سے جابر بادشاہوں نے اس کو دبانے کی کوشش کی بالخصوص امام سجادؑ کے زمانے میں جو اموی دور ہے اس میں ایسا ہو رہا تھا ایسے رویوں کا مظاہرہ کیا جا رہا تھا جس میں غیر مسلموں سے متعلقہ احکام میں شریعت کی نافرمانی موجود تھی۔
امام سجادؑ نے فرمایا: اہل ذمہ یعنی اسلام کی پناہ میں رہنے والوں کا حق یہ ہے کہ ان کی اس چیز کو قبول کرلو جس کو خدا نے قبول کیا ہے اور اس عہد و ذمہ داری کو پورا کرو جو خدا نے ان کے لیے مقرر کی ہے اور اگر وہ مجبور ہوں یا اسے چاہیں تو وہ انہیں دو ارو ان سے معاملہ میں خدا کے حکم پر عمل کرو اور چونکہ وہ اسلام کی پناہ میں ہیں لہذا خدا اور رسول اللہؐ کے عہد و پیمان کو وفا کرنے کے لیے ان پر ظلم نہ کرو کیونکہ ہم تک یہ بات پہنچتی ہے کہ فرمایا: جس نے اس شخص پر ظلم کیا جس سے معاملہ کیا ہے میں اس کا دشمن و مخالف ہوں، اللہ سے ڈرو خدا کی طاقت و قوت کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے۔
اسی طرح امام سجادؑ نے اہل ذمہ کے تمام حقوق کو تفصیل سے بیان کر دیا جو اللہ نے قرآن مجید میں نازل کیے ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان صدق سے ان کو بیان کر دیا گیا ہے ۔ائمہ اہلبیتؑ نے ان حقوق کو بیان کیا ہے ان کے ساتھ ویسے ہی معاملہ کیا جائے گا جیسے مسلمانوں کے ساتھ کیا جاتا ہے یعنی انہیں آزادی، بھائی چارہ،امن و استقرار حاصل ہو گا۔ان تمام حقوق کو ادا کیا جائے گا جو اللہ تعالی نے شریعت مقدسہ اسلام میں انہیں دیے ہیں اور اس بات کی تاکید کی ہیں کہ ان کے حقوق ادا کیے جائیں۔ان کے بارے میں جو اللہ نے احکام نازل کیے ہیں اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ان پر کسی قسم کے ظلم و زیادتی کو روا نہ رکھا جائے ۔
امام سجاد ؑ کہ یہ فرمانا : ان تقبل منھم ما قبل اللہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حاکم ان کے حق عبادت کو قبول کرے گا وہ جس طرح اپنی شریعت کے مطابق اسے انجام دیں۔ جب اما م سجاد ؑ نے فرمایا: "وتحكم فيهم بما حكم الله به على نفسك فيما جرى بينك وبينهم من معاملة یہ اس بات کی تاکید ہے کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے بالخصوص ان لوگوں کے ساتھ جو معاہدے پر کارمند ہیں اور تمام شرائط کو پورا کر رہے ہیں۔اسلامی شعائر کی توہین نہیں کر رہے۔
امام سجادؑ کا یہ فرمانا: "وليكن بينك وبين ظلمهم من رعاية ذمة الله والوفاء بعهده وعهد رسول الله حائل" یہ در اصل قرآن مجید کی اس آیت میں آئے حکم کی طرف اشارہ ہے جس میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
((لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ))(سورة الممتحنة ـ 8)
ن لوگوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اللہ تمہیں ان کے ساتھ احسان کرنے اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا، اللہ یقینا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
اس آیت میں مسلمانوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ یہودی،مسیحی اور مجوس کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کریں یعنی اچھائی کے مقابل اچھائی کی جائے گی اور ان کو تنگ نہیں کیا جائے گا۔ یہ وہی بات ہے جس کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت زیادہ تاکید کی ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جس نے معاہد پر ظلم کیا،اس کو نقصان پہنچایا،اس کی طاقت سے بڑھ کر ذمہ داری دی یا اس کی مرضی کے بغیر اس سے چیز لی میں قیامت کے دن اس کا وکیل ہوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی انگلیوں سے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا جس نے معاہد کو قتل کیا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت میں تھا اللہ اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام کر دے گا اگرچہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے بھی آتی ہے۔
اس طرح امام سجاد ؑ نے تاکید فرمائی کہ اسلام غیر مسلم اہل کتاب کے ساتھ انسانیت کی بنیاد پر خاص احترام کا معاملہ کرتا ہے۔اسی طرح اہل وطن ہونے کی وجہ سے بھی اچھا معاملہ کرتا ہے۔یہ انسانی حقوق کا اسلامی تصور ہے جو اجتماعی حقوق کو عدالت کی بنیاد پر تقسیم کرتا ہے اور دوسروں کی رائے کو قبول کرتا ہے۔