دین مقدس اسلام، انسان ہونے کے ناطے تمام انسانوں کا احترام کرتا ہے اور کسی بھی انسان کے عقیدے، مذہب اور دیگر مختصات کی طرف توجہ دینے سے پہلے اسلام اس بات کی طرف توجہ دیتا ہے کہ سب انسان خالقِ کائنات کی مخلوق اور اس کے بندے ہیں۔ چونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان اس انسانی معاشرے کا حصہ ہے اور ہر کوئی اپنے عقیدے کے مطابق اللہ تک پہنچنا چاہتا ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالی تک پہنچنے کے اتنے ہی راستے ہیں۔ لہٰذا ایک ایسے اجتماعی معاشرے کی ضرورت ہے جس میں ہر قسم کے انسانوں کو ان کے مختلف و متنوع ثقافتوں اور عقائد کے ساتھ احترام دیا جائے۔
اسی بناء پر دین مقدس اسلام نے ایک ایسے معاشرے کا تصور دیا ہے جس میں مختلف ثقافت اور مختلف عقائد رکھنے کے باوجود لوگوںکو احترام دیا گیا ہے۔ اسلامی معاشرے میں رہنے والے تمام افراد ایک دوسرے کے حقوق کے محافظ اور نگہبان بنائے گئے ہیں۔ تاکہ اس اجتماعی معاشرے کا تحفظ ہو سکے اور کسی کا حق ضائع نہ ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((لا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (8) إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ))(الممتحنة ـــ 8 ـــ 9)؛
جن لوگوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اللہ تمہیں ان کے ساتھ احسان کرنے اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا، اللہ یقینا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔اللہ تو یقینا تمہیں ایسے لوگوں سے دوستی کرنے سے روکتا ہے جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اور تمہاری جلاوطنی پر ایک دوسرے کی مدد کی ہے اور جو ان لوگوں سے دوستی کرے گا پس وہی لوگ ظالم ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں بسنے والے افراد، خواہ ان میں غیر مسلم بھی ہوں، انہیں چاہیئے کہ ایک دوسرے کے ساتھ کئے گئے عہد و پیمان کے پابند رہیں اور ایک دوسرے کی زندگی اور سلامتی کے میثاق پورے کریں اور دوسرے کو مختلف عقائد و ثقافت کے باوجود بھی قبول کریں۔ البتہ اسلامی معاشرے میں رہنے والوں کے درمیان کوئی شخص خود اس معاشرے کو تباہ کرنے پر تُلا ہوا ہو، خواہ وہ شخص مسلمان ہی کیوں نہ ہو، اس کے ساتھ کسی قسم کا عہد و پیمان، یامیثاق رکھنا ضروری نہیں۔
اسلام نے انسان کی نہایت اہم قیمت لگائی ہے۔ البتہ یہ قیمت اللہ تعالیٰ کے قرب پر منحصر ہے۔ یعنی ہر انسان کی قیمت، اس کے اندر جتنا تقویٰ الٰہی ہے، اسی مقدار پر معین ہوتی ہے۔ چنانچہ فرمایا: "یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ "(سورہ الحجرات/13)
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والا، باخبر ہے۔
اس آیت میں فقط مسلمان ہی نہیں بلکہ عام انسان کو بھی خطاب ہے کہ جو شخص جتنا باتقویٰ ہوگا اتنی ہی اس کی قدر و قیمت ہوگی۔ دوسری طرف رسول اکرمؐ کو اللہ تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے: "وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ"(سورہ الانبیاء107) اور (اے رسول) ہم نے آپ کو بس عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
یہاں بھی کسی قسم کا استثناء نہیں۔ بلکہ آنحضرتؐ کا وجود مبارک تمام لوگوں کے لئے رحمت ہے کیونکہ آپؐ کو تمام لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث کیا گیا تھا۔
مذکورہ بیانات کی روشنی میں ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی سنت تخلیق تقاضا کرتی ہے کہ مخلوقات عالم میں، خصوصاً انسانوں کی زندگی میں انسانی اور فکری لحاظ سےتنوع ہو ان کا طرز زندگی، ان کی انسانی اقدار اور ان کا طرز فکر مختلف ہو جبکہ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں پوشیدہ حکمت کا تقاضا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اس سنت کونیہ اور انشائیہ کے معاند نہ ہوں۔ کیونکہ ان تکوینی امور میں تنوّع پایا جانا خالق کائنات کے عین ارادے کے مطابق ہے۔ لہٰذاکسی کی رنگ و نسل اور عقائد و ثقافت کی وجہ سے اس کا احترام کم نہیں ہوتا۔ تمام انسانی معاشرے جس طرح انسانی زندگی کی بقاء کے لئے کچھ ضروریات پر متفق ہیں مثلاً غذا، پانی اور امن وغیرہ کو انسانی بقاء کے لئے لازم سمجھتے ہیں۔ اسی طرح انسانی معاشروں کے اندر لوگوں کی فکری، دینی اور عقیدتی تنوّع کو بھی معاشرے کی ایک ضرورت سمجھیں تو انسانی معاشرے ان تمام اختلافات کے باوجود امن اور سلامتی کے ساتھ قائم رہ سکتے ہیں۔ پس اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی معاشروں میں عقاائد و افکار کا تنوع، اصلِ خلقت کے ساتھ کوئی انہونی بات نہیں۔ بلکہ اس کے برعکس یہ تو طبیعت بشری کے عین مطابق ہے اور کیونکہ ہر انسان کی طبیعت میں قدرے اختلاف پایاجانا اس کی جبلت میں شامل ہے۔ لہٰذا ہر انسان کو دوسرے انسان کی طبیعت اور اس کی فکری، دینی اور عقیدتی اختلاف کو اس کی فطرت کا تقاضا سمجھ کر احترام کی نگاہ سے دیکھنا چاہیئے۔ یہ فکری و ثقافتی اختلافات وغیرہ یقیناً کسی حکمت کے تحت انسانوں کی طبیعت میں موجود ہے اور انسانی معاشروں کے درمیان ان اختلافات میں بھی یقیناً کوئی خیر ہے کیونکہ اگر اس میں کوئی خیر نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ کبھی ان اختلافات کو قائم ہونے نہ دیتا۔ چنانچہ ارشاد رب العزت ہے: وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا ؕ اُولٰٓئِکَ یُعۡرَضُوۡنَ عَلٰی رَبِّہِمۡ وَ یَقُوۡلُ الۡاَشۡہَادُ ہٰۤؤُلَآءِ الَّذِیۡنَ کَذَبُوۡا عَلٰی رَبِّہِمۡ ۚ اَلَا لَعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ (سورہ ہود/18)
اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ افترا کرتا ہے، ایسے لوگ اپنے رب کے حضور پیش کیے جائیں گے اور گواہ کہیں گے: یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا تھا، خبردار! ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔
جس طرح انسان کے انفرادی میلانات اور ترجیحات میں اختلاف اور تنوع صرف عقائد اور دین کی بناء پر نہیں ہوتا بلکہ اس میں اس کے مزاج، اس کی طبیعت، کسی کی تقلید، معاشرتی و ذاتی میلان اور دلچسپی کی بناء پر بھی انسان کی انفرادی ترجیحات اور اقدار میں تنوع آ جاتا ہے۔ پس یہ تنوع انسان کی صحیح حالت کا نتیجہ ہے۔ ہر معاشرے میں رہنے والے انسان کا اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے ساتھ مربوط اور مل جُل کر اپنے کا نتیجہ ہے۔
اسلامی دستور کے مطابق انسان کی زندگی اور ان کے معاشروں میں اس قسم کے تنوع کی غرض و غایت ایک دوسرے کی پہچان رکھنا، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا اور ایک دوسرے کو ترقی و تکامل کی منازل تک پہنچاتا ہے چنانچہ ارشاد ہوا: : " اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ " (حجرات/13) ، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والا، باخبر ہے۔
اسی آیت کے سیاق میں اسلام نے اپنے پیروکاروں پر دوسروں کے اعتقادات پر سبّ و شتم کرنا حرام قرار دیا ہے۔ کیونکہ اس سے مختلف معاشروں میں مختلف اعتقادات رکھنے والے انسانوں کے درمیان اختلافات بڑھ جاتے ہیں۔ اور اس کا نتیجہ آخر میں لوگوں کے درمیان جنگ و جدال اور قتل و غارت کی شکل میں سامنے آتاہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہوا: " وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدۡوًۢا بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ؕ کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَہُمۡ ۪ ثُمَّ اِلٰی رَبِّہِمۡ مَّرۡجِعُہُمۡ فَیُنَبِّئُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ"(سورہ الانعام/108)
گالی مت دو ان کو جن کو یہ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں مبادا وہ عداوت اور نادانی میں اللہ کو برا کہنے لگیں، اس طرح ہم نے ہر قوم کے لیے ان کے اپنے کردار کو دیدہ زیب بنایا ہے، پھر انہیں اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے، پس وہ انہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں۔
ان تمام بیانات کی روشنی میں انسانی معاشروں میں پایا جانے والا تنوع در حقیقت اس زمین کی طرح ہے جس میں انسانی معاشروں کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ دوسری طرف یہی اختلافات اور تنوعات در حقیقت انسان کو ترقی و تکامل کی طرف لے جانے کا بھی ذریعہ ہے۔ یہ وہی انسانی ترقی و تکامل ہے جسے اللہ چاہتا ہے اور دین مقدس اسلام بھی اپنے فقہی، اخلاقی اور عقائدی تعلیمات کے ضمن میں یہی چاہتا ہے کہ انسان ترقی و تکامل کی طرف بڑھتا رہے۔ لہٰذا ان فطری اختلافات اور فکری و ثقافتی تنوعات کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے کی بجائے احترام دیا جائے تاکہ انسانیت ترقی کرسکے۔