- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


نورانی انقلاب
3 شوال 1443هـ

انسانی معاشرے کی برائیوں کے خاتمے کا اسلامی نظام۔۔بطور نمونہ غلاموں کی آزادی

اسلام بڑی حکمت اور بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ غلامی اور غلاموں کے مسئلہ سے نمٹا ہے۔اسلام نے انسانی وقار کے اضافے اور اس کی بلندی کے لیے قانون سازی کی ہے بالخصوص غلامی کی مسئلے کو لے لیں تو اس میں اسلام نے انسانوں کو جاہلیت کے ظالمانہ قوانین سے نجات دلائی ہے۔اسلامی قوانین اور غلاموں کے ساتھ  سلوک نے انسانوں کو اطمنان دلایا اور انہیں زندگی کی نئی چمک دی۔اسلام دنیا کے لیے ایک نجات دہندہ کی حیثیت سے آیا ایسے میں غلاموں اور غلامی کے بارے میں اس کے نظریہ نے دنیا کو متاثر کیا۔اسلام نے انسان کو بطور انسان دیکھا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کافر ہو یا مسلمان ۔ان سب کے باجود لوگ اعتراض کرتے ہیں تنقید کرتے ہیں ۔یہ لوگ ایسے ہیں کہ جو اس زعم میں ہیں کہ ان کے پاس جو رحم اور شفقت ہے وہ ان کے خیال باطل کے مطابق خدائے رحمان و رحیم کے پاس بھی نہیں ہے(العیاذ باللہ)وہ اپنے غلط خیالات اور منفی  نظریات کو لے کر اسلامی کے قانون سازی کے نظام پر تنقید کرتے ہیں۔اسلام کا وہ نظام جس میں انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنے کی تعلیم دی گئی ہےیہ لوگ قرآن اور نبی اکرم کی ذات پر اعتراضات کرتے ہیں۔وہ یہ خامیاں تلاش کرتے ہیں اور مومنین کو اس سے گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے ہم نظریہ لوگوں کو اس سے مطمئن کرے ہیں ان اعتراضات میں سے ایک بنیادی اعتراض غلام اور غلامی پر ہے۔ ان لوگوں  نے بعض قرآنی آیات کو لے لیے جن میں غلام،لونڈی ،رقیق اور ملک یمین کا ذکر آیا تھا۔

بعض لوگ سوال کرے ہیں کہ اسلامی دینی نصوص میں غلام وغلامی کا ذکر آیا ہے یہ اس کا اعتراف ہے اسلام نے بعض صورتوں میں غلامی کو باقی رکھا ہے۔

جب کوئی اسلام میں غلامی کی نصوص کے بارے میں سوال اٹھاتاہے تو وہ کچھ چیزیں چھوڑ جاتا ہے۔اس وقت کے معاشروں میں غلام اور غلامی بطور ادارہ منظم شکل میں موجود تھی جب عام معاشروں میں موجود تھی تو جزیرہ نمائے عرب کے قبائلی معاشرے میں بھی موجود تھی۔اسلامی قانون اس موضوع سے بڑی حکمت عملی کے ساتھ واقعیت کے مدنظر رکھتے ہوئے ڈیل کرتا ہے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ معاشرے میں اس کی تاریخی اور گہری جڑیں موجود تھیں ۔اسلام اس کی جڑیں عملی طور کاٹنے کا انتظام کیا اور ایک بہترین طریقے کی طرف رہنمائی کی۔وہ اس وقت کی جدید ترین اور منظم ترین کوشش تھی اسلام دراصل اس معاشرے کی ایک تسلیم شدہ قدر کے خلاف مضبوظ نظریاتی بنیاد فراہم کر رہا تھا جو اس غلامی کے خلاف ایک انقلابی اقدام تھا جس سے اس کا مستقل خاتمہ ہو جاتا۔اسلام نے غلامی کو آہستہ آہستہ ختم کرنے کی حکمت عملی اختیار کی، اسلام کے مختلف اقدامات ملتے ہیں جس سے غلامی کے خاتمے کی طرف پیش قدمی کا پتہ چلتا ہے۔اسلامی قانون اور قرآن مجید میں اس حوالے سے بہت سی نصوص ملتی ہیں جن ان غلاموں کے اپنے مالکوں اور سرپرستوں سے تدریجی آزادی کا پتہ چلتا ہے۔اس میں اس زمانے اور اس معاشرے کے حالات کے ساتھ ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔اجتماعی زندگی،اقتصادی پہلووں اور ذہنی طور پر ان غلاموں کی آزادی کو قبول کرنے کے قابل ہو جائیں۔ کیونکہ ایک حکم نامہ کے ذریعے اسے ختم کرنا معاشرے کے لیے قابل تحمل نہیں تھا ایساکرنا معاشرتی افرا تفری کا سبب بن سکتا تھا جو معاشرے اور افراد دونوں کے لیے حادثہ ہوتا۔

اسلامی نصوص نے جو قرآن و سنت میں آئی ہیں معاشرے کے عملی پہلو کو مد نظر رکھا ہے انہوں نے اس وقت کے معاشرے سے جنگ و جدال کی زبان میں بات نہیں کی جس کا کوئی فائدہ نہ ہوتا اور غلامی ویسے کی ویسے ہی رہتی۔اس کے خاتمے کے لیے ایک خاموش اور مسلسل سادہ عمل کو اختیار کیا گیا جیسے یہ حکم دیا گیا  کہ بعض گناہوں اور غلطیوں کے کفارے کے طور پر غلام آزاد کیے جائیں یہ غلاموں کو آزاد کرانے کا ایک طریقہ تھا۔اسی طرح اسلام نے غلام آزاد کرنے کی بڑی تاکید کی اور اس پر بڑے ثواب کا اعلان کیا یہ دنیاوی لحاظ سے معاشرے میں عزت و احترام کا باعث قرار دیا اور آخرت میں اللہ کے ہاں اجر کا باعث بنے گا اور ان آزاد ہونے والوں کو معاشرے کے عام آزاد لوگوں کی سطح پر لانے کا اہتمام کیا۔

اسلام الہی دین ہے  اس کی یہ حکمت عملی رہی ہے کہ ہر طبقے کو شامل رکھا جائےاسلام تمام انسانیت کا دین ہے اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام معاشرے میں موجود تمام برائیوں کا علاج کرتا ہے اور اس کے لیے بہت کوشش کرتاہے۔اسلام کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ معاشرے کی موجودہ اقدار اور تاریخی امور کو مدنظر رکھتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ جو تبدیلیاں وہ لائے ان کے ذریعے  انسانوں کو تکلیف نہ پہنچے اس کی بہترین مثال شراب کے حرام ہونے کا حکم ہے،یہ حکم تین بار تدریجی صورت میں سامنے آیا۔

اسلام نے غلامی کے معاملات کے ساتھ وہی معاملہ کیا ہے جو ایک طبیب آپریشن کے لیے مریض کے ساتھ کرتے ہیں اور زخم کی وجہ اسے درست کرنا ہوتاہے۔ اسلام نے جو طریقہ کار اختیار کیا اس میں غلامی کی تکلیف کو تھوڑا برداشت کرنا پڑا جیسے ڈاکٹر کے زخم کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔یہ وہ زمانہ تھا جب وہ معاشرے صدیوں سے غلامی کی ثقافت کو اپنائے ہوئے تھے اسلام نے تدریجی عمل کے ذریعے اس کا حل دیا۔دوسری طرف سے دیکھیں تو اسلام نے غیر معمولی حالات میں غلامی کو قبول کیا جو براہ راست لڑنے والوں اور ان قید کیے جانے والوں کو غلام بناتا تھا (اس کی بھی شرط یہ ہے کہ یہ جنگ قانونی جنگ ہو اور اس میں زیادتی کرنے والوں سے دفاع مقصود ہو) ان کو غلام بناتے ہوئے بھی یہ شرط رکھی گئی کہ ان کو حقیر اور درجہ انسانیت سے گرا ہوا نہ سمجھا جائے بلکہ انہیں تمام حقوق حاصل ہوں گے۔اسلام ان غلاموں کو اجتماعی حقوق دیتا یہ غلام اپنے سرپرستوں کے پاس تربیت پائیں اور تدریجی تبدیلی کو یقینی بناتا ہے۔اس پر سب سے بہترین دلیل یہ ہے کہ نبی اکرم اور ان کے بعض اوصیاء نے ان لونڈیوں سے شادیاں کیں یہ بہت ہی عزت کی بات ہے کہ وہ معاشرتی ارتقاء میں اس حد تک بڑھ گئیں کہ  جیسے عام آذاد عورتوں سے شادیاں کی جاتی ہیں ان سے بھی شادیاں کی گئیں۔

 وَ مَنۡ لَّمۡ یَسۡتَطِعۡ مِنۡکُمۡ طَوۡلًا اَنۡ یَّنۡکِحَ الۡمُحۡصَنٰتِ الۡمُؤۡمِنٰتِ فَمِنۡ مَّا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ مِّنۡ فَتَیٰتِکُمُ الۡمُؤۡمِنٰتِ ؕ وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِاِیۡمَانِکُمۡ ؕ بَعۡضُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡضٍ ۚ فَانۡکِحُوۡہُنَّ بِاِذۡنِ اَہۡلِہِنَّ وَ اٰتُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ مُحۡصَنٰتٍ غَیۡرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّ لَا مُتَّخِذٰتِ اَخۡدَانٍ ۚ فَاِذَاۤ اُحۡصِنَّ فَاِنۡ اَتَیۡنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیۡہِنَّ نِصۡفُ مَا عَلَی الۡمُحۡصَنٰتِ مِنَ الۡعَذَابِ ؕ ذٰلِکَ لِمَنۡ خَشِیَ الۡعَنَتَ مِنۡکُمۡ ؕ وَ اَنۡ تَصۡبِرُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ(النساء ۲۵)

اور اگر تم میں سے کوئی مالی رکاوٹ کی وجہ سے آزاد مسلم عورتوں سے نکاح کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو تو (اسے چاہیے کہ) وہ تمہاری مملوکہ مسلمان لونڈی سے نکاح کرے اور اللہ تمہارے ایمان کو اچھی طرح جانتا ہے، تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کا حصہ ہو لہٰذا ان کے سرپرستوں کی اجازت سے ان کے ساتھ نکاح کرو اور شائستہ طریقے سے ان کے مہر ادا کرو وہ نکاح کے تحفظ میں رہنے والی ہوں بدچلنی کا ارتکاب کرنے والی نہ ہوں اور درپردہ آشنا رکھنے والی نہ ہوں، پھر جب وہ (کنیزیں) نکاح میں آنے کے بعد بدکاری کا ارتکاب کریں تو ان کے لیے اس سزا کا نصف ہے جو آزاد عورتوں کے لیے مقرر ہے، یہ اجازت اسے حاصل ہے جسے (شادی نہ کرنے سے) تکلیف اور مشقت کا خطرہ لاحق ہو، لیکن صبر کرنا تمہارے حق میں زیادہ اچھا ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا،رحم کرنے والا ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ یَبۡتَغُوۡنَ الۡکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ فَکَاتِبُوۡہُمۡ اِنۡ عَلِمۡتُمۡ فِیۡہِمۡ خَیۡرًا ٭ۖ وَّ اٰتُوۡہُمۡ مِّنۡ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیۡۤ اٰتٰىکُمۡ( النور ۳۳)

اور تمہارے غلاموں میں سے جو مکاتبت کی خواہش رکھتے ہوں ان سے مکاتبت کر لو۔ اگر تمہیں معلوم ہو کہ ان میں کوئی خیر ہے اور انہیں اس مال میں سے جو اللہ نے تمہیں بخشا ہے دے دو۔

ہمارے بعض ائمہؑ  جن کو اللہ تعالی منصب امامت عطا کر کے عظمتیں عطا کر دیں اور ان کی مسلمانوں انہیں بہت اعلی منزل پر فائز ہستیاں سمجھتے ہیں وہ بھی بعض لونڈیوں یا کنیزوں کی اولاد میں سے ہیں۔

اس سے بھی آگے  دیکھا جائے تو اسلام نے ان غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کرنے کا پورا نظام دیا۔اسلام نے کسی بھی انسان کے لیے آزادی کی اہمیت کو واضح کیا اور اس کو اس مصیبت سے نجات دلانے کی اہمیت کو بتایا۔اسی طرح اسلام نے آقاوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنے غلاموں کے ساتھ نیک سلوک کریں اور ان کے اموال کے وہ ضامن ہیں۔اسلام نے ان آقاوں پر بہت سے مواقع اور مناسبتوں پر ان غلاموں کو آزاد کرنے کا پابند کیا یہاں ہم سب کا ذکر نہیں کر سکتے۔

اسلام نے جو حکمت عملی اختیار کی اس میں ایک طرف ان غلاموں کی مختصر زندگی کو دیکھتے ہوئے ایک طریقہ کار کو اختیار کیا اور دوسری طرف ایک عمل جو لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنا چکا تھا اس کے خلاف بتدریج قانون سازی کی اور معاشرے کو تبدیل کیا۔اس میں یہ طریقہ کار اختیار کیا گیا کہ اس میں معاشرے  میں کوئی ٹکراو نہ ہو اور پہلے سے موجود ایک غلط رسم بھی ختم ہو جائے۔اس میں معاشرے میں یہ احساس پیدا کیا گیا کہ وہ جسے ایک معاشرتی  بڑھائی سمجھ رہے ہیں وہ تو ایسی نہیں، اس طرح لوگوں میں اس عمل سے نفرت پیدا کی گئی تاکہ لوگ خود غلامی سے رک جائیں۔ان لوگوں کو اس طرح تبدیل کیا گیا کہ یہ ساری تحریک طبقاتی کشمکش میں تبدیل نہ ہو جائے ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ غلامی صرف بدوی اور شہری عرب میں ہی موجود نہیں تھا بلکہ اس وقت  کی دو بڑی سلطنتوں فارس اور روم میں بھی موجود تھی۔

ایک اور طریقہ کار یہ اختیار کیا گیا کہ دوسروں طریقوں سے بھی غلاموں کو آزاد کیا جائے۔اس کی بہترین مثال ائمہ اہلبیتؑ ہیں ائمہ کا طریقہ کار تھا کہ غلاموں کو خریدتے تھے انہوں اسلام میں داخل کرتے اور اسلام کی تعلیم دیتے یہ تعلیم ان کی عملی زندگی کی صورت میں ہوتی تھی جس میں ائمہ کا عملی زندگی میں لوگوں کے ساتھ میل جول شامل تھا یہ عملی تربیت ہوتی تھی اور انہیں آزاد کر دیا جاتا تھا۔اسلام عملی کام کرتا ہے صرف نعرے نہیں لگاتا۔

اسلام نے غلامی کے خاتمے کے لیے متعدد طریقے اختیار کیے ہیں،سب سے پہلے تو اسلام نے مالکوں کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ غلاموں کے ساتھ انسانی سلوک کریں گےاور وہ ہر اس کام سے پرہیز کریں گے جو درجہ انسانیت سے گرا ہوگا۔غلام و لونڈی کو تعلیم دلوائی جائے گی اسے ادب سکھایا جائے گا۔نبی اکرم نے اسی کی طرف وصیت کی ہے آپ فرماتے ہیں:جس کسی کے پاس ایک لونڈی ہو وہ اس کو اچھا ادب سکھائے،اس کو اچھی تعلیم دلائے،اسے آزاد کر دے اور اس کی شادی کرائی اس کا اجر اللہ ہے۔لونڈی کی قیمت کو آپ نے ایک یوم کی نماز کی قیمت قرار دیا اور فرمایا: نماز نماز خدا کی پناہ مانگو، ان سے جن کے تم مالک ہو۔قرآن مجید عورتوں میں سے غلاموں کو ملک یمین قرار دیتا ہے یعنی دینے میں اور عطا کرنے میں یہ والدین کی طرح ہیں۔لونڈیوں کے ساتھ اسی طرح احسان کرنے کا حکم دیا گیا ہے جیسے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے ساتھ احسان کیا جاتا ہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا(النساء  ۳۶)

اور تم لوگ اللہ ہی کی بندگی کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک قرار نہ دو اور ماں باپ، قریب ترین رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب ترین رشتہ دار پڑوسی، اجنبی پڑوسی، پاس بیٹھنے والے رفیقوں، مسافروں اور جو (غلام و کنیز) تمہارے قبضے میں ہیں سب کے ساتھ احسان کرو، بے شک اللہ کو غرور کرنے والا، (اپنی بڑائی پر) فخر کرنے والا پسند نہیں۔