- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


بنی نوع انسان کی سماجی زندگی کا اسلامی اصول
2 ربيع الاول 1441هـ

اللہ تعالیٰ  قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:"إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَة"  (البقرہ:30) ”میں زمین میں ایک خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں۔ اس آیت کی روشنی میں انسان زمین پر اللہ کا جانشین ہے۔ لہٰذا اس زمین کی آبادکاری کےلئے کردار ادا کرتا ہے۔ جب انسان زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے،تو  اس کا لازمہ یہ ہے کہ اس کے پاس ایک باشعور دماغ، آزاد ارادہ اور اختیار کی قدرت ہو۔ اگر انسان کے پاس قدرت و اختیار نہ ہو تو اس کا زمین پر خلیفۃ اللہ ہونے کا کوئی معنی نہیں بنتا ۔ انسان  اپنے اس فرض منصبی کے انجام دہی کے لئے مکمل آزاد ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی مکمل آزادی کے ساتھ اپنا فریضہ کیسے ادا کرتا ہے۔ چنانچہ اسی آزادی کی بنیاد پر اسے دنیا و آخرت میں جزا و سزا دیا جاتا ہے اور  اس کے اعمال کا نتیجہ مترتب ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے: " فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ  وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ" (سورۃ الزلزال/7-8) ”پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا، اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا۔“  انسان کے اختیار کی جڑیں اس کی آزادی پر مبنی ہیں اور اس پر کسی قسم کا جبر واکراہ کا نہ ہونا بھی اسی آزادی کی علامت ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے: "لا إكراه في الدين..." (سورہ بقرہ/256)  دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں، بتحقیق ہدایت اور ضلالت میں فرق نمایاں ہو چکا ہے، پس جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے، بتحقیق اس نے نہ ٹوٹنے والا مضبوط سہارا تھام لیا اور اللہ سب کچھ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے ۔

 اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہوا: "وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَن فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا ۚ أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّىٰ يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ " (سورہ یونس/99) ”اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو تمام اہل زمین ایمان لے آتے، پھر کیا آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کر سکتے ہیں؟“ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان پر کسی قسم کا کوئی جبر و اکراہ نہیں، خاص کر اس کےعقائد کے بارے میں تو کسی قسم کا جبر و اکراہ نہیں۔ذیل میں دوسروں کے حقوق تسلیم کرنے اور ان کے ساتھ زندگی گزارنے کے کچھ اصول بیاں کئے جاتے ہیں:

پہلا اصول: قرآن کریم کی روشنی میں ہر انسان کے لئے آزادی رائے، آزادی فکر، ضمیر کی آزادی اور عقیدتی آزادی ایک بنیادی حق کے طور پر حاصل ہے جس پر کسی قسم کی قدغن نہیں لگا سکتا۔ ہر انسان کی یہی آزادی اسے باور کراتی ہے کہ اسےدوسروں کی بھی شخصی آزادی کو تسلیم کرنا ہوگا۔ انہیں ان کے اپنے عقیدے اور فکر کے ساتھ قبول کرنا اور ان کے ساتھ مل کر زندگی کرنی ہوگی۔ لہٰذا انسان کی آزادی معاشرے میں رہنے والوں کے متنوع افکار و عقائد کے باوجود ایک دوسرے کو قبول کرنے کا ایک سبب ہے۔

دوسرا اصول: اسلام نے تمام انسانوں کو ایک اصل سے قرار دیا ہے۔ سب کا نقطۂ آغاز ایک ہی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوا: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا "(سورہ النساء/1) ” اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بکثرت مرد و عورت (روئے زمین پر) پھیلا دیے اور اس اللہ کا خوف کرو جس کا نام لے کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتداروں کے بارے میں بھی (پرہیز کرو)، بے شک تم پر اللہ نگران ہے۔“ اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:"یَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وأنثى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ  إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ"(سورہ الحجرات/13)  اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والا، باخبر ہے۔“ اسلام نے ان آیات کے ذریعے لوگوں کے درمیان ہر قسم کے امتیازات کو ختم کیا۔ خواہ وہ امتیازات دین کی بنیاد پر ہوں یا رنگ و نسل کی بنیاد پر ہوں یا زبانی، مالی، قومی اور علاقائی لحاظ سے ہوں، اسلام کی نظر میں سب برابر ہیں۔ اس اصلی کی بنیاد پر اسلام لوگوں کے درمیان سے ہر طرح کے معاشرتی، اقتصادی اور نسلی امتیازات کا بھی قلع قمع کرکے رکھتا ہے۔ بلکہ ان امتیازات کے بجائے اسلام لوگوں کو آپس میں مساوات، برابری ، ایک دوسرے کے عیوب سے چشم پوشی اور ایک دوسرے کو آسانیاں پیدا کرنےکی  تاکید کرتا ہے۔ یہ اصل بھی ایک دوسرے کو تسلیم کرنے اور ایک دوسرے کو قبول کرکے ساتھ زندگی گزارنے کا باعث بنتا ہے۔

تیسرا اصول: اسلام نے شروع سے ہی بنی آدم کو عزت اور کرامت بخشی ہے۔ چنانچہ ارشاد رب العزت ہے: "وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلً"(سورہ اسراء/70) ”اور بتحقیق ہم نے اولاد آدم کو عزت و تکریم سے نوازا اور ہم نے انہیں خشکی اور سمندر میں سواری دی اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں بڑی فضیلت دی۔“ یہ آیت انسان کو ظلم سہنے سے بھی منع کرتی ہے اور اللہ کے علاوہ کسی کے سامنے زلت اور انکساری قبول کرنے سے بھی روکتی ہے۔ اور ہر انسان کو کچھ ایسے حقوق مقرر کرتی ہے جن میں تغیر و تبدل ممکن ہے نہ ہی ان کو کسی انسان سے چھینا جا سکتا ہے۔ جیسے زندگی کرنے کا حق، انصاف کا حق، آزادی، عزت اور امن و امان کا حق ایسے حقوق میں سے ہے جو ہر انسان کے لئے برابر حاصل ہے۔ کوئی دوسرا شخص کسی انسان سے ان حقوق کو چھین نہیں سکتا۔

چوتھا اصول: انسانوں کے درمیان مختلف حوالوں سے اختلاف کا پایا جانا زندگی کی ایک سنت ہے۔ اگر انسانی زندگی  میں اختلاف نہ ہو تو یہ چل ہی نہیں سکتی۔ اختلاف کے بغیر اس میں تطوّر اور گہرائی بھی نہیں آتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: "(وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ" (سورہ روم/22) ”اور آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا مختلف ہونا بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے، علم رکھنے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔“ البتہ یہاں اختلاف سے مراد ایک دوسرے کو تکامل و ترقی کی طرف لے جانے والا اختلاف ہے۔ ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑا ہونا اور ضد کرنا مراد نہیں۔ بلکہ یہ ایک طبیعی اختلاف ہے یہ طبیعی اختلاف ہر انسان کے دینی اور ثقافی اقدار کا تابع ہوتا ہے۔ لہٰذا اس اختلاف میں کوئی حرج نہیں۔ "قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أهدى سَبِيلً" (سورہ الاسراء/84) ”کہدیجئے: ہر شخص اپنے مزاج و طبیعت کے مطابق عمل کرتا ہے، پس تمہارا رب بہتر علم رکھتا ہے کہ کون بہترین راہ ہدایت پر ہے۔"وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا  فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًاإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ" (سورہ البقرہ/148) ”اور ہر ایک کے لیے ایک سمت ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا ہے، پس تم لوگ نیکیوں کی طرف سبقت کرو،تم جہاں کہیں بھی ہوں گے اللہ (ایک دن) تم سب کو حاضر کرے گا، یقینا اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ واقع میں اختلاف کا لازمہ یہ ہے کہ دوسرے کو اس کے مختلف عقیدہ و فکر کے ساتھ قبول کریں۔ اس کی شخصیت کا اعتراف کریں اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا سلیقہ زیادہ سے زیادہ پیدا ہوتا ہے۔ جب انسان کے اندر یہ مادہ برداشت پیدا ہوتا ہے تو یہ انسان کو دوسرے لوگوں کی شخصیت کا اعتراف کرنے، انہیں قبول کرنے اور ان کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے آمادہ کرتا ہے۔ انسان کی یہی قوت برداشت اسے عام انسانی مفادات اور اپنے مخصوص مفادات کو حاصل کرنے کا لائق بناتی ہے اور انہی مصالح اور مفادات کی بنیاد پر معاشرے میں اتحاد و یگانگت پیدا کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔

پانچواں اصول: اسلام عدل و انصاف کا دین ہے۔ یہ ایک ایسا دین ہے جو ظلم کو مستردکرتا ہے، ناانصافی اور دوسروں پر تسلط جمانے کے خلاف جنگ کرتا ہے۔ انسانی معاشرے میں ظلم و جور، ناانصافی اور دوسروں پر تسلط جمانا ایسے مظالم ہیں جس سے زندگی تباہ ہوتی ہے اور انسانی وہ تمام اقدار معطل ہوتی ہیں۔ جو ہر رنگ و نسل اور فکر و ثقافت کے حامل لوگوں کےلئے آزادی اور حریت کو ایک طبیعی فضا بناتے ہیں۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسلام نے جس قدر عدل اور مساوات پر تاکید کی ہے کسی اور مبداء، قدر یا کسی مفہوم پر ایسی تاکید نہیں کی ہے۔ یہاں تک کہ معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنے کو انبیاء بھیجنے کا ایک اہم ہدف قرار دیاہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہوا: " لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ  إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ " (سورہ الحدید/25) ”بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں۔“ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے میں عدل قائم کرنا اسے پھیلانا واجب ہے کیونکہ یہ انسانی زندگی کا اہم ستون ہے۔ عدل ہی معاشرے میں تمام حقوق کی پاسداری کا ضامن ہے۔ عدل ہی ہر تجربے کا محور ہے اور ہر عمل کا میزان ہے۔ معاشرے میں انسانی حقوق کا اعتراف اور ان پر ظلم و زیادتی کا انکار سمیت ان کا استحصال کرنا اور ان کے حقوق ضبط کرنے سے منع کرنا عدل کے بنیادی تقاضوں میں شامل ہیں۔ عدل کا یہ بھی تقاضا ہے کہ لوگوں کو آزادی حاصل ہو اور اپنی ملکیتون پر آزادی سے تصرف کر سکیں۔

اسلام انسانیت کو ہمیشہ مبداء عدل سے جوڑتا ہے۔ (انسانیت ہی عدل سے مربوط ہے) اور عدل سے جڑے رہنے کو ایمان کا حصہ قرار دیتا ہے۔ اسلام ہر اس عمل کی پزیرائی کرتا ہے جو ظلم کے خلاف ہو۔ ظلم کے خلاف جو عمل ہوتا ہے، اسلام اسے تقدس کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اسے جہاد قرار دیتے ہوئے عظیم ثواب کا موجب قرار دیتا ہے۔

اسلام میں عدل کی تقدیس و تعظیم اور ظلم کی نفی کا ایک نمونہ یہ ہے کہ اسلام نے انسان کا دوسروں سے عداوت و دشمنی رکھنے کو عقیدے کے لحاظ سے کفر قرار دیا ہے۔ بلکہ عداوت کو ظلم قرار دیتا ہے۔ اس میں فرق نہیں کہ ظلم کرنے والا مسلمان ہے یا کافر۔ اس معاملے میں اسلام مسلمان کی محبت میں اس کے عقیدے کا مخالف کافر سے مختلف قرار نہیں دیتا۔ چنانچہ ارشاد ہوا:" هَا أَنتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ وَلَا يُحِبُّونَكُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ " (آل عمران/119)  اسلام نے عدل و انصاف، محبت اور در گزر کے اعلیٰ درجے اور بلندی کا ثبوت دیا جب مسلمانوں کو اپنے مخالفین کے ساتھ محبت کرنے اور ان کے ساتھ نیکی و انصاف کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ ارشاد ہوا: "لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ  إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ" (الممتحنہ/8) ”جن لوگوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اللہ تمہیں ان کے ساتھ احسان کرنے اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا، اللہ یقینا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

لہٰذا اسلام کا دوسروں کے حقوق ضبط کرنے اور ان پر ظلم کرنے سے نفی کرنا اور دوسروں کے ساتھ عدل وانصاف کرنے کا مطالبہ کرنا، انسان کے تقدس کی حفاظت کرنا اور اس سے اچھا سلوک کرنے کی تلقین کرنا صحیح معنوں میں انسانیت سے متناسب عمل ہے۔ یہی اسلام کی مسئولیت اور ذمہ داری کے بھی عین مطابق ہے۔ یہ ذمہ داری انسان کو دوسرے کا اعتراف کرنے، اسے قبول کرنے اور اس کے ساتھ معاشرت اپنانے کی تلقین کرتا ہے۔

اسی طرح ہم اسلام کا ایک اصولی موقف کو دیکھ سکتے ہیں جو دوسروں کی حیثیت کو بھی مانتا ہے انسانیت کا احترام کرنا ہے اور انسان کے عقیدے، اس کے آراء و افکار کو بھی احترام کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اس بات سے غضّ نظر کر کے کہ اس کا نظریہ، اسلامی نظریے سے ملتا ہے یا نہیں، ہر کسی کے نظریے اور عقیدے کو احترام دیتا ہے۔ اسلام انسان کو اس کے صفات اور لواحقات سے ہٹ کر صرف انسان ہونے کی حیثیت سے احترام دیتا ہے اس کے ساتھ محبت، احترام، شفافیت اور تعاؤن کرتے ہوئے معاشرت اپنانے کا درس دیتا ہے۔ اسی لئے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جن اسلامی معاشروں میں حقائق اسلام اور اسلامی افکار اور اقدار زندہ ہیں، وہاں سارے لوگ بہترین طرز زندگی رکھتے ہیں۔ بلکہ ہر ایک دوسرے کے ساتھ پیار محبت سے گھل مل کر زندگی بسر کرتے ہیں۔