- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


معتقد کا حق
15 جمادى الاول 1443هـ

آج ایک طرف اسلاموفوبیا کی بڑھتی ہوئی حالت اور دوسری طرف مسلمانوں میں مذہبی انتہا پسندی اور شدت پسندی کی بڑھتی ہوئی صورتحال کے درمیان ہم میں سے کوئی بھی شخص اس بارے میں سوال اٹھا سکتا ہے کہ ان متشدد رجحانات کی اصل جڑ کہاں سے ہے؟ اور کیا اس شدت پسندی کا اسلام کے ساتھ منسوب کرنا درست ہے؟ یہی وہ چیز ہے جو ہم کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے اپنےقارئین کے لیے واضح کرنا چاہتے ہیں۔ اسلام میں حق اعتقاد کا فلسفہ اور اظہار رائے کا حق کی روشنی میں ان کے سامنے ان متشدد رجحانات کی حقیقت کو آشکار کرنا چاہتے ہیں۔

اپنی بات کا آغاز ایک قاعدے سے کرتے ہیں کیونکہ اسلام میں کسی اور کے عقیدے کے ساتھ معاملہ کرنے کا واضح اور بلند قاعدہ، یہی قاعدہ [لا اکراہ فی الدین] (سورہ بقرہ:256) ہے یہاں بلند قاعدہ سے مراد اعلیٰ قانون سازی کا اعلی درجہ ہے۔ کیونکہ یہ قاعدہ قرآن کریم میں بیان کردہ اسلامی دستور سے نکلا ہے۔ یہ قاعدہ قرآن کریم کا ایک ثابت شدہ اور موجودہ قاعدہ ہے جو کسی اور قاعدے کے ذریعے نسخ بھی نہیں ہوا۔ اس قرآنی قاعدے کے مطابق کسی بھی شخص کے لئے یہ حق نہیں کہ کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرے یا اسلام اور اس کے نبی پر ایمان لانے پر مجبور کرے۔پس زور زبردستی دونوں اسلام کے دائرہ سے خارج ہوئے یہیں سے ایک اور بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اسلام میں تلوار چلانا فقط دفاع کے لئے جائز ہے اور اس سے ان لوگوں کے لئے بھی  جواب مل جاتا ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ اسلام رسول رحمۃ للعالمین کی تلوار کے ذریعے آیا اور تلوار ہی کے زور پر اسلام پھیل گیا۔ اسی قاعدے سے بعض جنگوں کی قانونی حیثیت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ خاص طور پر بعض نام نہاد فتوحات جن کا تذکرہ ہم کسی اور مورد میں کریں گے۔

اسلام نے عقیدے کے مسئلے پر کسی کو مجبور کرنے سے منع کیا ہے۔ اس کے عوض میں دو چیزیں دی ہیں: پہلی چیز یہ کہ اسلام کسی بھی شخص کو اپنے عقیدے کی پابندی کے حوالے سے آزادی دیتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ عقیدہ مسلمانوں کے عقیدے کو ضرر نہ پہنچا رہا  ہو۔ جبکہ دوسری چیز یہ ہے کہ مسلمانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسلامی عقیدے پر ایمان نہ رکھنے والوں کے ساتھ معقول مکالمہ کر کے اچھے انداز میں دعوت اسلام دے سکتے ہیں۔

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام عقیدے کی آزادی کی حمایت کرتا ہے تو ہمارا صمیم قلب سے یہی مطلب ہوتا ہے کہ انسان کو فکری آزادی حاصل ہے۔ اس آزادی کا ایک اہم پہلو ، بلکہ آزادی کا بنیادی قاعدہ ہی یہی ہے کہ انسان کو غیر اللہ کی بندگی سے آزادی ملے۔ کیونکہ پورے دین کا فلسفہ یہی ہے کہ انسان کو غیر اللہ کی عبادت سے آزادی ملے۔ یہی عقیدہ توحید کے بھی عین مطابق ہے۔ بعض اوقات لوگوں کو یہ سمجھنے میں دقت ہوتی ہے کہ اگر ہم قاعدہ توحید کو بھی دوسری دنیاوی آزادیوں کی طرح سمجھیں کہ کوئی چیز جب تک اس کے موافق ہو ،ٹھیک ہے،  لیکن اگر کوئی چیز اس کے مخالف ہو تو وہ حریت نہیں۔ اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ مغربی معاشروں میں انفرادی حریت اگرچہ ہر فرد کو حاصل ہے لیکن یہ آزادی بھی ایک کلی قاعدہ کے ذریعے مقید ہے کہ ایک فرد کو حاصل یہ آزادی ان کے اپنے سیاسی اور معاشرتی نظام کے مطابق دوسروں کی آزادی کو نقصان نہ پہنچائے ۔ دوسری طرف ان کی جمہوریت بھی ایک قید کے ساتھ مقید ہے کہ جمہوری حق سب کو حاصل ہے لیکن اگر لوگ اپنے اس حق سے تجاوز کریں تو یہاں بھی آزادی سے منع کرتے ہیں۔

اللہ تعالی شریعت اسلامی کا مطلق کا اختیار رکھنے والی ذات ہونے کے اعتبار سے اپنے بندوں کی صفوں میں سب سے ممتاز اور برگزیدہ اور ہر نیکی پر مخلوق کے لیے حجت قرار دئے گئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا  کہ کسی صورت میں بھی کسی کو مجبور کرے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اوامر خداوندی کے بارے میں لوگوں کو صرف تذکردینے کا حکم ہوا ہے ، وہ بھی ایسی شکل میں جو جبر و اکراہ سے کوسوں دور ہو۔ پس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ حق نہ تھا کہ وہ کسی کو اپنے دین اور اپنی رسالت پر ایمان لانے میں مجبور کریں۔ بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے کسی قسم کا جبر و اکراہ کو شدید لفظوں میں غیر مشروع تسلط قرار دیتے ہوئے منع کیا گیا۔ چنانچہ اللہ تعالی نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر قسم کے جبر و اکراہ سے دور رہنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

فَذَكِّرۡ إِنَّمَآ أَنتَ مُذَكِّرٞلَّسۡتَ عَلَيۡهِم بِمُصَيۡطِرٍ(الغاشیۃ:21، 22 )

بلکہ  خدانخواستہ اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے کوئی اکراہ ہوتا تو اللہ تعالی اسے جبر و تکبر قرار دیتا ۔ چنانچہ ارشاد ہوا :

[ نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِجَبَّارٍ ۖ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ] (سورہ ق: ۴۵)

دین مقدس اسلام میں معتقد کی آزادی پر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس دین نے اپنے گھر یعنی بلاد اسلامی میں نہ صرف نصاریٰ، یہودیوں اور مجوسیوں کو رہنے دیا بلکہ جس طرح ایک مسلمان شہری کے لئے اس کے تمام حقوق دیئے اسی طرح ان غیر مسلم شہریوں کے لیے بھی ان کے پورے حقوق دیے ۔اسی لئے دین مقدس اسلام کودین تنوع اور دین کفالہ کہا جاسکتا ہے جس نے اپنے اندر مختلف ادیان کے پیروکاروں کو زندگی کا حق دیا اور اپنے مخالفین کی بھی سیاسی اقتصادی اور اجتماعی حقوق میں کفالت کی۔  یہی وجہ تھی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرعی خلیفہ بلا فصل امام علی علیہ السلام نے ایک عظیم انسانی قاعدہ پیش کیا کہ کس طرح سے اپنے مقابل فریق سے برتاؤ کیا جائے! آپ کے سامنے کوئی بھی ہو وہ لازما ان دو صورتوں سے خالی نہیں:  یا تمہارا دینی بھائی ہے یا خلقت کے اعتبار سےتم جیسا (انسان) ہے۔

پس اسی بنا پر بلاد اسلامی میں رہنے والے غیر مسلموں کا اسلام قبول کرنے کے حوالے سے دی گئی آزادی واضح اور روشن ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی دنیا میں رہتے ہوئے اس کے تمام وسائل سے بہرہ مند ہوتے ہیں، اس میں امن کے سائے تلے رہتے ہیں اور ان کی مذہبی عبادات و رسوم کو بجالانے کی مکمل آزادی ہے پھر بھی اسلام قبول کرنے پر  کوئی مجبور نہیں کرتا۔

اسی طرح دین مقدس اسلام اپنے نظام میں بشریت کی ترقی و تکامل کے لئے ایک ایسا سماجی اور نظریاتی نظام تجویز کرتا ہے جو مکمل آزادی کی بنیاد پر قائم ہے۔ جو اپنی خود داری کے ساتھ دوسرے کی بھی خودداری کا احترام کرتا ہے۔ دوسری طرف اسلام اپنے اسلامی نظام کو ٹھوس اصول و ضوابط اور نظریے کی بنیاد پر دوسروں کے سامنے پیش کرتا ہے اور اسے قبول کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے دوسروں کو مکمل آزادی بھی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہوا:

[فمن شاء فليؤمن ومن شاء فليكفر](الکھف آیت 29۔)

یہی وہ حقیقت ہے جس نے تاریخ کو بانجھ بنادیا ہے۔ یعنی تاریخ کسی کی بھی لکھی ہوئی ہو اس میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ ہمارے لئے کوئی ایک مورد، ایک مثال ہی دکھا سکے جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پوری حیات طیبہ میں کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا ہو۔ یہی حالت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلفاء  برحق ائمہ اہلبیت علیہم السلام  کے بارے میں بھی ہے۔ انہوں نے بھی اہل کتاب بلکہ ملحدین اور زندیقوں کے ساتھ بھی مکالمہ کرکےقائل کرانے کا منطقی راستہ اپنایا اور بہترین منطقی دلائل اور مدبرانہ حکمت عملی سے ہی قائل کرایا لیکن کہیں کسی کو مجبور نہیں کیا۔

پس رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اہل بیت کرام علیہم السلام کی روش کی بنیاد پر یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بعض ایسے لوگ جو خود کو اسلام کے ذمہ دار سمجھتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ ان کا عقیدہ ہی  حقیقت پر منحصر ہے اور اسی وجہ سے ان کی جو شدت پسندی اور انتہا پسندی کے حالت بنی ہے وہ اصل انسانی فطرت کی صریح منافی ہے۔ انسانی فطرت ہی تنوع اور تعددیت پر مبنی ہے۔ متنوع مزاج اور عقائد کے ساتھ بھی دوسروں کو برداشت کرنا انسانی فطرت میں ہے۔ فطرت سلیمہ بھی اسی کو قبول کرتی ہے۔

دین مقدس اسلام اگر چہ انسان کو عقیدے کے حوالے سے مکمل آزادی دیتا ہے لیکن یہ انسان کو اسلامی عقیدے پر غور کرنے کی بھرپور تاکید بھی کرتا ہے۔ کیونکہ دین اسلام خود ایک الہی نظام ہے جو انسانی فطرت یا عقل سلیم سے مکمل ہم آہنگ ہے۔ اس کے علاوہ یہ ایک آسمانی مثالی منصوبہ ہے جو انسانی روح کو سنبھال سکتا ہے اور اپنے تخلیقی نقشے کے مطابق اس کی تربیت بھی کر سکتا ہے۔