تاریخ اپنے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں سے کچھ ایسے تاریخی اور مستحکم قوانین اور اصولوں کے تحت چلتی ہے کہ جن میں بدنظمی اور جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور نہ ہی اس چیز کا قائل کیا سکتا ہے کہ یہ جادوئی اور غیبی طاقتوں کے بل بوتے پر چلتی ہے۔ یہ وہ مفہوم ہے جو قرآن مجید نے تاکید کے ساتھ بیان کیا ہے (سُنَّةَ اللَّـهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّـهِ تَبْدِيلًا) (الفتح: 23) [اللہ کے دستور کے مطابق جو پہلے سے رائج ہے اور آپ اللہ کے دستور میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔] یہ آیات اس بات پر تاکید کرتی ہے کہ تمام مستحکم اور طبیعی قوانین کی نسبت خداوند علیم و حکیم کی طرف ہے، جس نے اپنے علم و حکمت سے ہر چیز کے لیے ایک مقدار مقرر کر رکھی ہے: (إِنَّ اللَّـهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّـهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا) (الطلاق -3) [اللہ اپنا حکم پورا کرنے والا ہے، بتحقیق اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کیا ہے۔]
تاریخ زنجیر کے حلقوں کی طرح جڑے ہوئے واقعات کا ایک سلسلہ ہے کہ جنہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا لہٰذا اس کے اہم واقعات اور ان واقعات پر حاکم قوانین کا معروضی اور تجزیاتی مطالعہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے تاکہ زمانہ حال اور مستقبل کے لیے سبق اور عبرت حاصل کی جائے، خاص طور ان لوگوں کے لیے جو اپنی قوم کے افراد کے لیے ترقی اور خوشحالی کے خواہاں ہیں، کیونکہ گذشتہ غلطیوں اور خرابیوں کی تشخیص اس شخص کو ایک مجموعی تجربہ فراہم کرتی ہے جو پچھلی غلطیوں کے ازالے کے لیے موثر ترین راہ حل کی تلاش میں ہوتا ہے:( قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ)۔ (آل عمران-137).[تم سے پہلے مختلف روشیں گزر چکی ہیں پس تم روئے زمین پرچلو پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کاکیا انجام ہوا۔]
تاریخی قوانین اور سنتیں ایک عام طریقہ کار کے مطابق مستقل حرکت میں رہتی ہیں۔ اس طریقہ کار کی کئی اقسام ہیں: ایک طریقہ شرط کا ہے جو مقدمات اور نتیجے کے ساتھ مربوط ہوتا ہے، چاہے یہ مقدمات صحیح ہوں اور نیتجے کی تمام شرائط پوری کر رہے ہوں، چاہے یہ مقدمات غلط ہوں اور صحیح نیتجہ اخذ کرنے میں ناکام رہیں۔ سورہ رعد کی آیت:( إِنَّ اللَّـهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ)۔ (الرعد: 11) [اللہ کسی قوم کا حال یقیناً اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلیں] میں لفظ ’’حتی‘‘ کے ذریعے قرآن مجید اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ معاشرے کے ڈھانچے میں اس وقت تک تبدیلی نہیں آ سکتی جب تک اس کے جوہر میں تبدیلی واقع نہ ہو۔ اور اس تبدیلی کا عمل اس کے مقدمے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ اس مقدمے پر لفظ ’’انفسہم‘‘ دلالت کرتا ہے، کیونکہ رحمت الٰہیہ تبدیلی کے مشروط مقدمے کا ظاہری نتیجہ ہے اور اس سے عبرت اور سبق لینا ضروری ہے تاکہ اس سے معاشروں کی کامیابی کے اسباب معلوم ہو سکیں جو معاشرے کو فضیلت پر فائز کرتے ہیں، یا ان کی ناکامی کے اسباب کا ادراک ہو جو تبدیلی لانے کی بجائے معاشرے کی تنزلی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب گذشتہ واقعات میں سے مفید امور کا دامن تھاما جائے اور نقصان دہ امور کو ترک کر دیا جائے۔
گذشتہ بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی حرکت کا ایک دائرہ کار ہوتا ہے جس میں وہ ان شرطیہ اصولوں کی سمت اور جہت تبدیل کرتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ ان مقدمات کو قبول کر لیتا ہے جو نتیجہ خیز ہوتے ہیں کیونکہ ان مشروط قوانین کو قبول کرنا ایک تاریخی موڑ کو تشکیل دیتا ہے جو مطلوبہ معاشرے کی فکری اور نظریاتی تعمیر پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تعمیر و ترقی کی حرکت یا خرابی اور تنزلی کی حرکت پر بھی اپنے اثرات ڈالتا ہے۔
آسمانوں کی حرکت ثابت وجودی اصولوں میں سے ہے جس کی طرف قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے۔ انسان ان ثابت قوانین کے اندر کسی قسم کی تبدیلی نہیں لا سکتا کیونکہ ایسے کوئی امکانات موجود ہی نہیں ہیں جو انسان کے لیے ان قوانین کی تبدیلی کی گنجائش فراہم کریں۔ اس لیے کہ یہ قوانین امر خدا سے چلتے ہیں جو مجبور نہیں کرتا: (لاَ الشَّمْسُ يَنْبَغي لَها أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَ لاَ اللَّيْلُ سابِقُ النَّهارِ وَ كُلٌّ في فَلَكٍ يَسْبَحُون)۔ (یس: 40) [نہ سورج کے لیے سزاوار ہے کہ وہ چاند کو پکڑ لے اور نہ ہی رات دن پرسبقت لے سکتی ہے اور وہ سب ایک ایک مدار میں تیر رہے ہیں۔] جیسا کہ شمس و قمر اور باقی افلاک کی حرکت: (إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذي خَلَقَ السَّماواتِ وَ الْأَرْضَ في سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهارَ يَطْلُبُهُ حَثيثاً وَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتٍ بِأَمْرِهِ أَلا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْأَمْرُ تَبارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعالَمينَ)۔ (اعراف: 54) [تمہارا رب یقینا وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر متمکن ہوا، وہ رات سے دن کو ڈھانپ دیتا ہے جو اس کے پیچھے دوڑتی چلی آتی ہے اور سورج اور چاند اور ستارے سب اسی کے تابع فرمان ہیں۔ آگاہ رہو! آفرینش اسی کی ہے اور امر بھی اسی کا ہے، بڑا با برکت ہے اللہ جو عالمین کا رب ہے۔]
اس بنا پر ان کے وجود اور حرکت میں انسان کی فاعلیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ انسان کے لیے صرف اتنا ہی ہے کہ جب وہ امر خداوندی سے اس کی خدمت کے لیے مسخر کر دیے گئے ہیں تو وہ انہیں کشف کرے اور ان کی حرکت کا علم حاصل کرے: أَ لَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَ ما فِي الْأَرْضِ وَ أَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَ باطِنَةً وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يُجادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَ لا هُدىً وَ لا كِتابٍ مُنير۔ (لقمان: 20) [کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ نے تمہارے لیے مسخر کیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں کامل کر دی ہیں اور (اس کے باوجود) کچھ لوگ اللہ کے بارے میں بحث کرتے ہیں حالانکہ ان کے پاس نہ علم ہے اورنہ ہدایت اور نہ کوئی روشن کتاب۔] جیسا کہ ان حرکات سے جو ہمیں نتیجہ اخذ ہوتا ہے اس سے عبرت اور سبق لینا ممکن ہے، جیسا کہ سورج گرہن اور چاند گرہن اور ہوا کی گرمی اور سردی، بجلی اور بارش وغیرہ کے حالات سے آگاہی۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کائناتی قوانین کا مطالعہ انسان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ خلائی تسخیر کو آسان بنانے کے لیے آسمانوں کے راستے جان سکے۔ یہ ہے انسانی تاثیر اور فاعلیت کی گنجائش اور اس سے سبق حاصل کرنے کا میدان۔ اس حوالے سے یہ کائناتی اور ثابت قوانین، ان شرطیہ قوانین سے مختلف ہو جاتے ہیں کہ جو ماضی میں گزر چکے ہیں کیونکہ ان میں کسی بھی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے کہ انسان اس کی اتباع کرتے ہوئے ایسے ہی نتیجے کے حصول کے لیے کسی اور تبدیلی کے درپے ہو، لہٰذا تاریخی اصولوں اور قوانین کو سمجھنے میں خلط ملط اور ان میں فرق نہ کر سکنے کی وجہ سے بعض لوگ اس فریب کا شکار ہو گئے کہ انسان ایسے قوانین اور سنتوں کا محکوم اور مسلوب الارادہ ہے کہ جن کی وجہ سے اس کی قوتیں سلب ہو جاتی ہیں۔
دین کو انسان کی فطری حاجت اور ایک ایسا قانون سمجھا جاتا ہے جو تبدیلی کو قبول نہیں کرتا۔ یہ حاجت انسان کی طبعی ساخت میں داخل ہے اور اس کی طرف قرآن مجید بھی اشارہ فرماتا ہے: (فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنيفاً فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْها لا تَبْديلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَ لكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ) (روم: 30) [پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رخ دین (خدا) کی طرف مرکوز رکھیں، اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، (یعنی) اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے، یہی محکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔] اور چونکہ دین ایسا قدرتی قانون ہے جو انسان کی، گمراہیوں سے ہدایت کی طرف تبدیلی اور ظلمت سے نور کی طرف منتقل ہونے کی طرف متوجہ کرتا ہے لہٰذا اس کے لیے وہ دو طریقے اپناتا ہے: ربّانی تشریعی طریقہ کہ جو لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف ہدایت کرتا ہے اور جس میں انسان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا کیونکہ وہ اسے تبدیل کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ اور دوسرا طریقہ فطری اور طبعی ایمان کا ہے کہ جس کے ثابت قانون کو انسان کبھی بھی تبدیل نہیں کر سکتا، ایسا قانون کہ جس سے اس کا خمیر اٹھایا گیا ہے۔ اس وجہ سے اور ان قوانین اور اصولوں سے سبق سیکھتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ انسان بعض اوقات ان قوانین کی مخالفت کرنے لگتا ہے اور یہ مخالفت کبھی ان قوانین سے چشم پوشی کی وجہ سے ہوتی اور کبھی الحاد کی وجہ سے۔ لیکن اس مخالفت کی عمر انتہائی قلیل ہے اور یہ کسی نتیجے تک بھی نہیں پہنچتی بلکہ انسان کے لیے دنیوی اور اخروی عقوبتوں کے ذریعے ایک وبال کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ یہ عقوبتیں خدا کی طرف سے بھی ہوتی ہیں اور ان قوانین کی طرف سے بھی کہ جب انسان ان کی فطری مخالفت کرتا ہے۔ جیسا کہ گذشہ اقوام کے ساتھ یہی ہوا: (أَلَمْ يَأْتِهِمْ نَبَأُ الَّذينَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوحٍ وَ عادٍ وَ ثَمُودَ وَ قَوْمِ إِبْراهيمَ وَ أَصْحابِ مَدْيَنَ وَ الْمُؤْتَفِكاتِ أَتَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ فَما كانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَ لكِنْ كانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُون) (التوبۃ: 70) [کیا ان کے پاس ان سے پہلے لوگوں (مثلاً) قوم نوح اور عاد و ثمود اور قوم ابراہیم اور اہل مدین اور الٹی ہوئی بستیوں والوں کی خبر نہیں پہنچی؟ جن کے پاس ان کے رسول نشانیاں لے کر آئے،پھر اللہ تو ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا بلکہ یہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے رہے۔] اس بنا پر ان قوانین و اصول کی پیروی کرنا انسان کی دنیا و آخرت کی بھلائی کے لیے بہت مناسب ہے۔
مرد اور عورت کے لیے قائم کیے گئے کائناتی اصولوں کی مخالفت کو بشری طبیعت قبول نہیں کر سکتی، یہاں تک کہ یہ مخالفت ہٹ دھرمی اور عناد کی وجہ سے کچھ وقت کے لیے وجود میں آ بھی جائے تب بھی انسانی فطرت اسے قبول نہیں کرتی کیونکہ مرد اور عورت میں سے ہر ایک خاص امور کی انجام دہی کے لیے جسمانی ساخت اور نفسیاتی حوالے سے ایک دوسرے مختلف ہیں۔ پس عورت کی جسمانی ہیئت اور خلقت حمل اور رضاعت کی مناسبت سے بنائی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کے اندر ایک نفسیاتی تبدیلی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ مرد کی نسبت زیادہ جذباتی ہوتی ہے اور ایک ماں ہونے کے ناطے اپنے بچوں کی تربیت کی مشقت اٹھاتی ہے، لہٰذا وہ مرد کے برعکس زیادہ نرم دل اور شفیق ہوتی ہے جبکہ مرد کو کھردرا اور صبور خلق کیا گیا ہے تاکہ وہ زندگی اور اس کی مشکلات کو برداشت کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ازدواج کے ذریعے دو متضاد مزاجوں کا مل جانا ایک تاریخی فطری اصول ہے جو انسانی حیات کو دوام عطا کرتاہے۔ اسی وجہ سے ان طے شدہ اور ثابت الٰہی قوانین کی مخالفت، فطرتِ تخلیق اور ہر اس امر کی مخالفت کو جنم دیتی ہے، جس کے لیے ہر جنس کو خلق کیا گیا ہے۔ اور یہ بات ہم جنس پرستوں کی شادی یا تبدیلیٔ جنس کے نظریے کو باطل قرار دیتی ہے۔ یہیں سے ہمارے لیے یہ سبق حاصل کرنا ضروری ہو جاتا ہے کہ الٰہی قوانین کی مخالفت کرنے والا کبھی بھی نجات یافتہ نہیں ہو سکتا۔ یہی دلیل تاریخی قوانین کی پیروی کرنے کو بھی ضروری قرار دیتی ہے گویا کہ یہ بھی خدا ہی کی طرف سے ہوتے ہیں۔