امامت کے موضوع پر سب سے پہلے خود قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے جو اس مسئلہ کی اساس کہلاتا ہے۔ جہاں پر قرآن کریم،حضرت ابراہیم علیہ و علی نبینا و آلہ افضل الصلاۃ والسلام کی امامت کے متعلق سورہ البقرہ میں ارشاد فرماتا ہے :
((وَإِذِ ابتلى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ))(البقرة ـ124)
(ترجمہ: اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے ذریعے ابراہیم کا امتحان لیا اور انہوں نے پورا کردیا تو اس نے کہا ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں۔ انہوں نے عرض کی کہ میری ذریت؟ ارشاد ہوا کہ یہ عہدہ امامت ظالمین تک نہیں جائے گا۔")
قرآن کریم اس آیت میں مفہوم امامت کو ایجاد، وسیلہ ، نصب اور دوسرے علل و اسباب سب کے لحاظ سے واضح کر رہا ہے۔ بلکہ اس کے علاوہ دوسرے مقامات پر مزید تفصیل کے ساتھ ان تمام چیزوں کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے جو امام میں ہونا ضروری ہیں اور ان صفات و کمالات کی بناء پر امام دوسروں سے ممتاز ہوجاتا ہے، ان کمالات و صفات میں کوئی غیر داخل نہیں ہوسکتا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امامت کتنا بڑا اور اہم منصب ہے کہ جس کو قرآن کریم اتنی اہمیت کے ساتھ اشارات و تصریحات کے ساتھ بیان فرمارہا ہے ۔
اس آیہ شریفہ کے ظاہر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امامت کے مقدمات کچھ بڑے امتحانات و آزمایشات پر مشتمل ہیں اور جس کو امام کے طور پر منتخب کیا جائے گا وہ ضرور ان آزمایشات سے گزرے گا تب وہ عہدہ امامت کا اہل ثابت ہوسکے گا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس طرح کے کچھ سخت اور دشوار امتحانات کا سامنا کرنا پڑا، کچھ مشکل واجبات کی تعمیل کرنی پڑی، چند سنگین ذمہ داریوں کو نبھانا پڑا تاکہ ان میں کامیابی پر اس عظیم منصب امامت پر فائز ہوسکیں۔ البتہ یہ نکتہ ذہن میں رہے کہ یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو امامت کا ایک مصداق کے طور پر بتایا گیا ہے لہذا امامت انہی میں منحصر نہیں ہے، یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر بطور مثال کے کیا گیا ہے کہ کسی بھی امت اور زمانے میں جس کو امت کی رہبری کے لئے منتخب کیا جائے اسے کیسا ہو نا چاہئے۔
مذکورہ آیہ شریفہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ منصب امامت نبوت کے عہدے سے بلند تر اور بڑا ہے۔ اس لئے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ و علی نبینا و آلہ الصلاۃ و السلام کو امامت کا عہدہ مل رہا تھا اس وقت آپ نبی تھے ۔بلکہ اللہ کی جانب سے چند کلمات کے ذریعے امتحان لینے سے پہلے نبی تھے۔ خاص طور پر وہ کلمات جن کی آزمایش میں حضرت ابراہیم علیہ السلام مبتلا ہوئے وہ بہت سخت اور دشوار تھے، ان کلمات سے آزمایش کا ٓغاز اس سے ہوا کہ خدا کی طرف سے حکم ہوا کہ خلیل الرحمن اپنے فرزند اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرے ۔ ارشاد ہوا :
((فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أرى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا ترى قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ))(الصافات ـ102)
(ترجمہ :پھر جب وہ فرزند ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے قابل ہوگیا تو انہوں نے کہا بیٹا میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں اب تم بتاؤ کہ تمہارا کیا خیال ہے فرزند نے جواب دیا کہ بابا جو آپ کو حکم دیا جارہا ہے اس پر عمل کریں انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے ۔ )
اس میں ایک مرحلہ اس طرح کا آتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اپنے آپ سے دور کرتے ہیں بلکہ اپنی زوجہ ہاجر اور فرزند اسماعیل علیھما السلام کو گھر سے دور جزیرۃ العرب لے جاکر قحط والے سال میں وہاں چھوڑ آتے ہیں۔
((وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ (35) رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ ۖ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (36) رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُون (37) رَبَّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِي وَمَا نُعْلِنُ ۗ وَمَا يَخْفَىٰ عَلَى اللَّهِ مِن شَيْءٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ(38))(إبراهيم ـ 35 ـ 38)
ترجمہ: اور اس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم نے کہا کہ پرقروردگار اس شہر کو محفوظ بنادے اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچائے رکھنا (۳۵) پروردگار ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا ہے تو اب جو میرا اتباع کرے گا وہ مجھ سے ہوگا اور جو معصیت کرے گا اس کے لئے تو بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے ۔ (۳۶) پروردگار میں نے اپنی ذریت میں سے بعض کو تیرے محترم مکان کے قریب بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ دیا ہے تاکہ نمازیں قائم کریں اب تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف موڑ دےاور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما تاکہ وہ تیرے شکر گزار بندے بن جائیں۔ (۳۷) پروردگار ہم جس بات کا اعلان کرتے ہیں یا جس کو چھپاتے ہیں تو سب سے باخبر ہے اور اللہ پر زمین و آسمانوں میں کوئی چیز مخفی نہیں رہ سکتی ۔(۳۸) ایسے ہی ان کو حکم ہوا کہ سوائے ایک بت کے سب اصنام کو توڑ دے ۔ تاکہ اس معروف واقعے کے ذریعے لوگوں کی سمجھ کا امتحان لیا جائے ۔
((وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَالِمِينَ (51) إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هذه التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُون (52) قَالُوا وَجَدْنَا آبَاءَنَا لَهَا عَابِدِينَ (53) قَالَ لَقَدْ كُنتُمْ أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (54) قَالُوا أَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ أَمْ أَنتَ مِنَ اللَّاعِبِينَ (55) قَالَ بَل رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الَّذِي فَطَرَهُنَّ وَأَنَا عَلَىٰ ذَٰلِكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ (56) وَتَاللَّهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُم بَعْدَ أَن تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ (57) فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا إِلَّا كَبِيرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ (58) قَالُوا مَن فَعَلَ هَٰذَا بِآلِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِينَ (59) قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ (60) قَالُوا فَأْتُوا بِهِ عَلَىٰ أَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُونَ (61) قَالُوا أَأَنتَ فَعَلْتَ هَٰذَا بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ (62) قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَٰذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِن كَانُوا يَنطِقُونَ(63))(الأنبياء ـ 51 ـ63)۔
ترجمہ: اور ہم نے ابراہیم کو اس سے پہلے ہی عقل سلیم عطا کردی تھی اور ہم ان کی حالت سے باخبر تھے (۵۱) جب انہوں نے اپنے مربی باپ اور اپنی قوم سے کہا یہ مورتیاں کیا ہیں جن کے گرد تم حلقہ باندھے ہوئے ہو (۵۲) ان لوگوں نے کہا کہ ہم نے اپنے با پ دادا کو بھی انہیں کی عبادت کرتےہوے دیکھا ہے (۵۳) ابراہیم نے کہا کہ یقینا تم اور تمہارے باپ دادا سب کھلی ہوئی گمراہی میں ہو (۵۴) ان لوگوں نے کہا کہ آپ کوئی حق بات لے کر آئے ہیں یا خالی کھیل تماشہ کرنے والے ہیں (۵۵) ابراہیم نے کہا تمہارا واقعی رب وہی ہے جو آسمان و زمین کا رب ہے اور اسی نے ان سب کو پیدا کیا ہے اور میں اسی بات کے گواہوں میں سے ایک گواہ ہوں (۵۶) اور خدا کی قسم میں تمہارے بتوں کے بارے میں تمہارے چلے جانے کے بعد کوئی تدبیر ضرور کروں گا۔ (۵۷) پھر ابراہیم نے ان کے بڑے کے علاوہ سب کو چور چور کردیا کہ شاید یہ لوگ پلٹ کر اس کے پاس آئیں (۵۸) ان لوگوں نے کہا کہ ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ برتاؤ کس نے کیا ہے وہ یقینا ظالمین میں سے ہے (۵۹) لوگوں نے بتایا کہ ایک جوان ہے جو ان کا ذکر کیا کرتا ہے اور اسے ابراہیم کہا جاتاہے ۔(۶۰) ان لوگوں نے کہا کہ اسے لوگوں کے سامنے لے آؤ شاید لوگ گواہی دے سکیں۔ (۶۱) پھر ان لوگوں نے ابراہیم سے کہا کہ کیا تم نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ برتاؤ کیا ہے ۔(۶۲) ابراہیم نے کہا کہ یہ ان کے بڑے نے کیا ہے تم ان سے دریافت کرکے دیکھو اگر یہ بول سکیں ۔(۶۳)۔ اس گفتگو کے بعد ابراہیم علیہ السلام کی قوم نے ان کو آگ میں ڈالدیا۔ یہ وہ مرحلہ تھا کہ جس میں اللہ سبحانہ و تعالی نے براہ راست اپنے اس دوست بندے کی مدد و نصرت فرمائی :
((قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ (68) قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ (69)(الأنبياء ـ 68 ـ69)
ترجمہ: ان لوگوں نے کہا ابراہیم کو آگ میں جلادو اور اگر کچھ کرنا چاہتے ہو تو اس طرح اپنے خداؤں کی مدد کرو (۶۸) تو ہم نے بھی حکم دیا کہ اے آگ ابراہیم کے لئے سرد ہوجا اور سلامتی کا سامان بن جا (۶۹)
چنانچہ نبی ابراہیم علیہ السلام اللہ کے ان تمام امتحانات میں صبر و طاعت کے ساتھ بہترین انداز سے کامیاب ہوئے تو ارادہ الہیہ یہ بنا کہ انہیں نبوت، بلکہ رسالت کی ذمہ داری کے بعد امامت کا عہدہ بھی عطا کردیا جائے۔اس لئے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو امامت تو ان کے بڑھاپے میں ملی تھی۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:
((الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ ۚ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ))(إبراهيم ـ39)
ترجمہ: حمد ہے اللہ کی کہ جس نے مجھے بڑھاپے میں اسمعیل و اسحاق عطا کردیئے ، بتحقیق میرا پروردگار دعا کا سننے والا ہے ۔" اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ امامت آپ کی اس دعا کے بعد ایسے وقت میں ملی ہے جب آپ نبی و رسول تھے ۔
یہ وہ چیز ہے جس کو امام صادق علیہ السلام نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے ثابت فرمایا ہے:
"إن الله اتخذ إبراهيم عبدا قبل أن يتخذه نبيا واتخذه نبيا قبل أن يتخذه رسولا واتخذه رسولا قبل أن يتخذه خليلا واتخذه خليلا قبل أن يتخذه إماما فلما جمع له هذه الأشياء - وقبض يده - قال له: يا إبراهيم إني جاعلك للناس إماما، فمن عظمها في عين إبراهيم عليه السلام قال: يا رب ومن ذريتي، قال: لا ينال عهدي الظالمين".
ترجمہ : بتحقیق اللہ نے ابراہیم کو نبی بنانے سے پہلے عبد بنایا ، اور نبی بنایا قبل اس کے کہ انہیں رسول بنائے اور رسول بنایا قبل اس کے کہ انہیں خلیل بنائے، خلیل بنایا قبل اس کے کہ انہیں امام بنائے ۔ پس ان کی ذات میں ان تما م اوصاف کو جمع کردیا ( یہ فرماتے ہوئے امام نے اپنے ہاتھ کی بھی مٹھی بنادی) تو ان سے فرمایا : اے ابراہیم میں تمہیں لوگوں کا امام قرار دیتا ہوں ۔ یہ بات ابراہیم علیہ السلام کی آنکھوں میں عظیم نظر آئی لہذا عرض کی : اے پروردگار میری ذریت سے بھی؟ فرمایا: یہ عہدہ ظالمین تک نہیں جائے گا۔"
اس بارے میں امام رضا علیہ السلام بھی یوں ارشاد فرماتے ہیں : ".
ان الإمامة خص الله بها إبراهيم الخليل عليه السلام بعد النبوة والخلة مرتبه ثالثه وفضيلة شرفه بها وأشاد بها ذكره فقال عز وجل)) انى جاعلك للناس إماما)) فقال الخليل عليه السلام: سرورا بها ((ومن ذريتي؟)) قال الله عز وجل: (لا ينال عهدي الظالمين)، فأبطلت هذه الآية امامه كل ظالم إلى يوم القيامة وصارت في الصفوة...."،
ترجمہ : ۰۰۰۰۰ امامت وہ عہدہ ہے جس کو اللہ تعالی نے ابراہیم خلیل کو نبوت اور خلت کے بعد تیسرے مرحلے میں عطا کر دیا، یہ ایک ایسی فضیلت ہے جس کے سبب اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو فضیلت سے نوازا اور اس کی تعریف کرتے ہوئے ابراہیم علیہ السلام کا یوں ذکر فرمایا :
(( انى جاعلك للناس إماما))
ترجمہ : بتحقیق میں تمہیں لوگوں کا امام قرار دینے والا ہوں ۔"
ایسے میں جناب ابراہیم ۱خلیل علیہ السلام نے خوش ہوکر عرض کی : ((ومن ذريتي؟)) ترجمہ: اور میری ذریت میں سے؟ اللہ عز وجل کی جانب سے آواز آئی: میرا عہد ظالمین تک نہیں جائے گا ۔ پس آیت نے قیامت تک ہر ظالم کی امامت کو باطل کردیا اور اسے صرف برگزید ہ ہستیوں کے ساتھ مختص کردیا ۰۰۰۰۰"
گزشتہ ساری گفتگو سے نتیجہ لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ امامت ایک عظیم منصب ہے ، لہذا یہ کہنا ممکن ہے کہ یہ ایک جعل الہی ہے ۔((أني جاعلك للناس إماما...)) اور یہ جعل نہیں آسکتا مگر ایسی صفات اور صلاحیتوں کے نتیجے میں جن کی بناء پر امام اپنی امامت سے پہلے ان کا حامل ہوجاتا ہے امام کے سوا کوئی دوسرا ان سے متصف نہیں ہوسکتا۔ مذکورہ بالا بیانات سے مزید یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ امامت ایک اصطفاء و برگزیدگی کا نام ہے یہ ایک سادہ واجب نہیں ہے ۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ امام جس کردار کو کجسم کرتے ہیں اس کے پیچھے چند امور مرتب ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک ذاتی ہے اور دوسرا موضوعی ہے کہ امامت اپنی ذات و طبیعت کے اعتبار سے تقاضا کرتی ہے کہ اس منصب کے حامل کو حکمت عالیہ، بڑی ذہانت اور لامتناہی حسن تدبیر کا مالک ہونا چاہیئے، جو امام کے لازمی اوصاف کہلاتے ہیں جس کو بطور اصطلاح امام کی عصمت کا لازمہ کہا جاسکتا ہے۔ اور یہ کہ اس کی ذمہ داری کے نتائج اس بات کو قطعی بنا دیتے ہیں۔ جو اس امام کی اہلیت و تربیت کے مراحل کے گزرنے میں مضمر ہیں بلکہ امام کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر اس چیز میں کامیاب ہو جن میں وہ مبتلا ء ہوتا ہے، اس اعتبار سے کہ یہ ان کے امتحان و آزمایش کے موارد میں سے ہے جو امام ہونا چاہتا ہے ۔
عصمت انسان کے لئے ایک ایسا ملکہ شمار ہوتا ہے جس کی وجہ سے اللہ سبحانہ وتعالی کسی کو برگزیدہ فرماتا ہے۔ لہذا بعض نے جمہور کی رائے کے ذریعے یا کسی کی قوم نے اپنی رائے سے انتخاب کر کے "امام" نام دیا ہے اس میں اشکال ہے۔ اس لئے یہ عام عقول اس کام کے انجام سے عاجز ہیں، اس طرح کے امور میں ان کی رائے کا صحیح ہونا حتمی نہیں ہے۔ اس طرح کے عوامی انتخاب میں ان کے ذاتی مصالح اور مفادات کی دخالت کا احتمال پایا جاتا ہے، جیسا کہ عام طور پر بھی عوامی انتخابات میں یہ چیز دیکھنے میں آتی ہے ایسا ہی احتمال جمہور کے انتخاب میں موجود ہے جبکہ خود خدا جس کو منتخب فرماتا ہے اس میں کوئی خطا نہیں ہوسکتی۔ لہذا ثابت ہوا کہ نبوت کی طرح امامت کا عہدہ بھی ایک الہی منصب ہے جس کا اختیار صرف اللہ سبحانہ و تعالی کو ہی ہے۔