انسانوں سے امتحان لینے کی یہ سنت الٰہی ہمیشہ سے جاری ہے ، یہ ایک عمدہ طریقہ ہے جس کے ذریعے انسان کا تزکیہ ہوتا ہے اور اس کا چناؤ بھی اسی آزمایش کے ذریعے ہوتا ہے۔ ان میں سے جو اس امتحان و آزمایش پر پورا اترتا ہے وہ اس کے اہل ہوتا ہے کہ دوسرے انسانوں کا پیشوا و نمونہ عمل ہو اور انسانوں کے درمیان اللہ کا خلیفہ بنے۔ خاص طور سے آزمایش کی یہ سنت بہت سارے کڑھے امتحانات پر مشتمل ہے جو اس بندے کے اوپر آتے جو اس انتخاب و برگزیدگی کی ظرفیت رکھتا ہے، اس طرح کے آزمایشات سے اس کا ذہن و فکر اللہ سبحانہ و تعالی کی خالص بندگی اور اطاعت کےلئے تخلیق ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ اسی ابتلاء و آزمایش کا ذکر اس آیت میں ہوتا ہے:
((وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي قَالَ لاَ يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ))(سورة البقرة ـ 124)
ترجمہ: " اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے ذریعے ابراہیم کا امتحان لیا اور انہوں نے پورا کردیا تو اس نے کہا ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں ۔ انہوں نے عرض کی کہ میری ذریت سے؟ ارشاد ہوا کہ یہ عہدہ امامت ظالمین تک نہیں جائے گا۔"
یہ آیت کریمہ اس عظیم امتحان کے بارے میں ہے جس کو ابراہیم علیہ السلام نے پاس کرلیا ۔ یہ امتحان اللہ عز و جل کی جانب سے چند کلمات پر مشتمل تھا، جس کا مقصد یہ تھا کہ اس ابتلاء کے نتیجے میں ابراہیم علیہ السلام کو سارے لوگوں کا امام بنایا جائے۔ یہ اللہ جل ذکرہ کی جانب سے ایک انعام و صلہ بھی تھا کہ ابراہیم علیہ السلام اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس سے نوازا جائے گا، اور یہی امامت کی آزمایش اور اس کی شرائط میں سے بھی ہے۔
چونکہ انسانوں کے لئے امام مقرر کرنا ہے لہذا ضروری ہے کہ وہ امام انسانوں میں سے ہی ہو۔ یہ آسمان سے فرشتہ نہیں ہوسکتا ، اس لئے کہ اگر فرشتہ امام بنے تو لوگ ان سے منہ پھیر لیں گے، فرشتے کی اپنی خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے وہ لوگوں سے جدا ہوتا ہے ۔جبکہ انسانوں کو حکم بھی ان کی اپنی جنس اور طبیعت کو مد نظر رکھ کر دیا گیا ہے لہذا عقل کا تقاضا یہ ہے کہ امام بھی انسانوں اور ان کی ہی جنس میں سے ہی ہونا چاہیئے۔ ایسے امام کے توسط سے ہی حجت پوری ہوجاتی ہے اور یہ اس کام میں زیادہ مناسب اور بلیغ بھی ہے۔ یہی ابتلاء و آزامایش کے ساتھ بھی زیادہ مناسب موزوں بھی ہے۔ چنانچہ حدیث قدسی میں آیا ہے: میں نے تمہیں اس لئے مبعوث کیا ہے کہ اس طرح تمہیں بھی اور تیرے توسط سے دوسروں کو بھی آزمالوں ۔" لہذا یہ بات ذہن میں رہے کہ وہ شخص جو آسمان سے لوگوں کے لئے پیغام لانے والا ہو ضروری ہے کہ وہ ان کی ہی جنس بشر میں سے ہو ، یہی امام انسانوں کے لئے تمام مخلوقات پر منجملہ ان میں فرشتے بھی شامل ہیں فضیلت کا حامل ہوتا ہے ۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے :
((إِنَّ اللَّهَ اصطفى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ))(سورة آل عمران ـ 33)، ((وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا))(سورة الإسراء ـ 70)
ترجمہ : بتحقیق اللہ نے آدم و نوح اور آل ابراہیم اور آل عمران کو عالمین پر منتخب کیا ہے ۔" (۳۳ آلعمران)، اور ہم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی ہے اور انہیں خشکی اور دریاؤں میں سواریوں پر اٹھایا ہے اور انہیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے۔ " کسی بھی فرشتے کی نسبت انسان ہی ان کی زندگی کے معاملات اور امور کو چلانے کا علم زیادہ رکھتا ہے ۔
انہی اسباب و علل کی وجہ سے اللہ عز وجل نے ابراہیم علیہ السلام سے کچھ امتحانات لے لئے ۔ جن میں سے ایک یہ کہ خلیل الرحمن کو آتش نمرود میں جانا پڑا البتہ یہاں اللہ کی حکمت تھی کہ اس نے آگ کو جناب ابراہیم علیہ السلام کے لئے ٹھنڈی اور سلامتی کا سامان بنا دیا ،
((قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ))(سورة الأنبيا)
ترجمہ : " ہم نے کہا اے آگ ابراہیم کے لئے تو ٹھنڈی اور سلامتی کا سامان ہوجا۔" اس کے بعد آپ خواب میں دیکھتےہیں کہ اپنے فرزند کو ذبح کرنے کا حکم دیا جاتا ہے اس سلسلے میں قرآن پورا واقعہ بیان کرتا ہے :
((وَقَالَ إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَى رَبِّي سَيَهْدِينِ (99) رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ (100) فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ (101) فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَى قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ (102) فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ (103) وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ (104) قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (105) إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ (106) وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ (107) وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ (108) سَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ (109) كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (110) إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ (111) وَبَشَّرْنَاهُ بِإِسْحَاقَ نَبِيًّا مِنَ الصَّالِحِينَ (112) وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَى إِسْحَاقَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِنَفْسِهِ مُبِينٌ(113))(سورة الصفات99 ـ 113) ـ
ترجمہ : " اور ابرہیم نےکہا کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جارہا ہوں کہ وہ میری ہدایت کردے گا۔(۹۹) پروردگار مجھے ایک صالح فرزند عطا فرما (۱۰۰) اور پھر ہم نے ایک نیک دل فرزند کی بشارت دیدی ۔(۱۰۱) پھر جب وہ فرزند ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے قابل ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹا میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں اب تم بتاؤ کہ تمہارا کیا خیال ہے فرزند نے جواب دیا کہ بابا جو آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اس پر عمل کریں انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے ۔ (۱۰۲) پھر جب دونوں نے سر تسلیم خم کردیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹا دیا (۱۰۳) اور ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم (۱۰۴) تم نےاپنا خواب سچ کر دکھایا ہم اسی طرح حسن عمل کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں (۱۰۵) بیشک یہ بڑا کھلا ہوا امتحان ہے (۱۰۶) اور ہم نے اس کا بدلہ ایک عظیم قرار دیدیاہے (۱۰۷) اور اس کا تذکرہ آخری دور تک باقی رکھا ہے (۱۰۸) سلام ہو ابراہیم پر(۱۰۹) ہم اسی طرح حسن عمل والوں کو جزا دیا کرتے ہیں (۱۱۰) بیشک ابراہیم ہمارے مؤمن بندوں میں سے تھے (۱۱۱) اور ہم نے انہیں اسحاق کی بشارت دی جو نبی اور نیک بندوں میں سے تھے (۱۱۲) اور ہم نے ان پر اوراسحاق پر برکت نازل کی اور ان کی اولاد میں بعض نیک کردار اور بعض کھلم کھلا اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں (۱۱۳)
قرآن کریم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خالص عقیدہ توحید اور ہرقسم کے شرک سے پاک و منزہ ہونے کے متعلق یوں ارشاد فرماتا ہے :
((وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَالِمِينَ (51) إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَٰذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ (52) قَالُوا وَجَدْنَا آبَاءَنَا لَهَا عَابِدِينَ(53) قَالَ لَقَدْ كُنتُمْ أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ(54) قَالُوا أَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ أَمْ أَنتَ مِنَ اللَّاعِبِينَ (55) قَالَ بَل رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الَّذِي فَطَرَهُنَّ وَأَنَا عَلَىٰ ذَٰلِكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ (56) وَتَاللَّهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُم بَعْدَ أَن تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ (57) فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا إِلَّا كَبِيرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ (58) قَالُوا مَن فَعَلَ هَٰذَا بِآلِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِينَ (59) قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ (60) قَالُوا فَأْتُوا بِهِ عَلَىٰ أَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُونَ(61) قَالُوا أَأَنتَ فَعَلْتَ هَٰذَا بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ (62) قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَٰذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِن كَانُوا يَنطِقُونَ (63) فَرَجَعُوا إِلَىٰ أَنفُسِهِمْ فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنتُمُ الظَّالِمُونَ (64) ثُمَّ نُكِسُوا عَلَىٰ رُءُوسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَٰؤُلَاءِ يَنطِقُونَ (65) قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ (66) أُفٍّ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (67) قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ ))(سورة الأنبياء ـ 51 ـ 67)،
ترجمہ: اور ہم نے ابرہیم کو اس سے پہلے ہی عقل سلیم عطا کردی تھی اور ان کی حالت سے باخبر تھے (۵۱) جب انہوں نے اپنے مربی باپ اور اپنی قوم سے کہا یہ مورتیاں کیا ہیں جن کے گرد تم حلقہ باندھے ہوئے ہو (۵۲) ان لوگوں نے کہا کہ ہم نے اپنے با پ دادا کو بھی انہیں کہ عبادت کرتےہوے دیکھا ہے (۵۳) ابراہیم نے کہا کہ یقینا تم اور تمہارے باپ دادا سب کھلی ہوئے گمراہی میں ہو (۵۴) ان لوگوں نے کہا کہ آپ کوئی حق بات لے کر آئے ہیں یا خالی کھیل تماشہ کرنے والے ہیں (۵۵) ابراہیم نے کہا تمہارا واقعی رب وہی ہے جو آسمان و زمین کا رب ہے اور اسی نے ان سب کو پیدا کیا ہے اور میں اسی بات کے گواہوں میں سے ایک گواہ ہوں (۵۶) اور خدا کی قسم میں تمہارے بتوں کے بارے میں تمہارے چلے جانے کے بعد کوئی تدبیر ضرور کروں گا۔ (۵۷) پھر ابراہیم نے ان کے بڑے کے علاوہ سب کو چور چور کردیا کہ شاید یہ لوگ پلٹ کر اس کے پاس آئیں (۵۸) ان لوگوں نے کہا کہ ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ برتاؤ کس نے کیا ہے وہ یقینا ظالمین میں سے ہے (۵۹) لوگون نے بتایا کہ ایک جوان ہے جو ان کا ذکر کیا کرتا ہے اور اسے ابراہیم کہا جاتاہے ۔(۶۰) ان لوگوں نے کہا کہ اسے لوگوں کے سامنے لے آؤ شاید لوگ گواہی دے سکیں ۔ (۶۱) پھر ان لوگوں نے ابراہیم سے کہا کہ کیا تم نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ برتاؤ کیا ہے ۔(۶۲) ابراہیم نے کہا کہ یہ ان کے بڑے نے کیا ہے تم ان سے دریافت کرکے دیکھو اگر یہ بول سکیں (۶۳) اس پر ان لوگوں نے اپنے دلوں کی طرف رجوع کیا اور آپس میں کہنے لگے یقینا تم ہی لوگ ظالم ہو (۶۴) اس کے بعد ان کے سر شرم سے جھکا دیئے گئے اور کہنے لگے ابراہیم تمہیں تو معلوم ہے کہ یہ بولنے والے نہیں ہیں (۶۵) ابراہیم نے کہا پھر تو خدا کو چھوڑ کر ایسے خداؤ ں کی عبادت کیوں کرتے ہو جو نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ کوئے نقصان (۶۶) حیف ہے تمہارے اوپر اور تمہارے ان خداؤں پر جنہیں تم نے خدائے برحق کو چھوڑ کر اختیار کیا ہے کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے ہو ،(۶۷) ان لوگوں نے کہا کہ ابراہیم کو آگ میں جلا دو اور اگر کچھ کرنا چاہتے ہو تو اس طرح اپنے خداؤں کی مدد کرو (۶۷) ۔"
حضرت ابراہیم علیہ السلام ان تمام امتحانات کے مراحل سے بڑی کامیابی کے ساتھ گزرے اور آخرت میں جنت کے ثواب اور دنیا میں تمام انسانوں پر امام ہونے کے انعام کے مستحق ہوئے ((إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا))یہ ایک ایسے طبیعی استحقاق کے مانند ہے کہ جس کو جناب ابراہیم علیہ السلام نے سخت قسم کی آزمایشات سے گزر کر حاصل کرلیا ہے یہ استحقاق اس اہم شرط کے ساتھ ملا کہ امامت کا یہ عہدہ فرزندان ابراہیم کو بطور وراثت نہیں ملے گا مگر آپ کی وہ ذریت جو امامت کی وارث ہوگی اسے بھی اس طرح کے آزمایشات کا سامنا کرنا ہوگا اور اس طرح کے سخت امتحانات کو کامیابی کے ساتھ سر کرنا ہوگا تب وہ اس عہدہ کی آمادگی اپنے اندر پیدا کرسکتی ہے ۔ اس لئے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو اللہ سبحانہ وتعالی سے سوال کیا : ((وَمِن ذُرِّيَّتِي؟)) لیکن خدا وند متعال کی جانب سے انکار میں یوں جواب ملا: ((لاَ يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ)) اس کلام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امامت ایک منصب دنیوی نہیں ہے جس کے لئے اللہ کی جانب سے امتحان و آزمایش آئے یہ الہی عہدہ ہے جس کا کوئی انسان بھی شرط و شروط کے بغیر وارث نہیں ہوسکتا ، یہ اللہ کی جانب سے ایک عہد ہے اس کو سوائے اس بندے کے جو اللہ کی رضا کے لئے سخت ترین تکالیف برداشت کرے اور ان کے ذریعے رضائے الہی حاصل کر سکے نیز وہ اپنے نفس کو چھوٹے بڑے سب گناہوں سے پاک رکھے۔ اس لئے کہ اللہ سبحانہ و تعالی کی جانب سے یہ شرط آئی ہے کہ امامت کا عہدہ ابراہیم نبی علاوہ ان کی اس ذریت کو مل سکتی ہے جوظلم و گناہ سے دور ہو کیونکہ امامت ایک عہد الہی ہے ظالم اس کا اہل نہیں ہوسکتا۔ لہذا ابراہیم علیہ السلام کے بعد آپ کا فرزند اسماعیل کو یہ امامت ملی کیونکہ جناب اسماعیل علی نبینا و آلہ و علیہ السلام اپنے بابا ابراہیم کے ساتھ توحید خالص کی راہ میں شانہ بہ شانہ چلے اور یہ سلسلہ ختمی مرتبت حضرت محمد ﷺ تک پہنچا اور آپ ﷺ سے پھر آپ کے وصی علی بن ابیطالب علیہ السلا م کی جانب منتقل ہوا ۔ پس جس طرح ابرہیم نبی علیہ السلام منصب امامت کے حقدار ہوئے اسی طرح امام علی علیہ السلام بھی کئی قسم کی آزمایشات میں مبتلا ہوئے تاکہ آپ علیہ السلام کا ایمان باللہ کا امتحان ہو اور یوں آپ اس منصب کے لئے آمادہ بھی ہوجائیں ۔لہذ ا آپ کے امتحان کی ابتدا اس وقت ہوئی جس دن رسول اکرم ﷺ نے آپ سے فرمایا کہ ان کے بستر پر سوجائیں ، تاکہ کفار قریش جو آنحضرت ﷺ کو قتل کرنا چاہتے ہیں ان کو دھوکہ دے کر چھپ سکیں ، اس لئے علی علیہ السلام بستر رسول ﷺ پر رات کو سو گئے جبکہ آپ جانتے تھے کہ کفار قریش کے چالیس سرکش لوگ حضور ﷺ کی تلاش میں ہیں اور وہ آپ علیہ السلام کو زندہ رہنے کا کوئی موقع نہیں دیں گے، آپ کو پہچاننے سے پہلے ہی قتل کر ڈالیں گے یا اس طرح ان کو دھوکہ دے کر ان کے ہاتھوں نبی مکرم ﷺ کے قتل ہونے سے بچانے کے جرم میں قتل کر ڈالیں گے ۔ یہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا پہلا سخت امتحان تھا اور اس کامیابی پر پروردگار کی جانب سے یہ آیت نازل ہوئی:
((وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ))(سورة البقرة ـ 207(.
ترجمہ: اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو اللہ کی مرضی کے لئے اپنے نفس کو بیچ دیتے ہیں، اور اللہ بندوں پر مہربان ہے۔
اسی طرح امیرالمؤمنین علی علیہ السلام اللہ کی توحید کے اثبات میں امتحان کے مرحلے میں مبتلا ہوئے لہذا آپ نے کسی بت کو سجدہ نہیں کیا ۔ یہ ایک خاص کرامت ہے جو اللہ کی طرف سے آپ کو نصیب ہوئی۔ علاوہ یہ کہ آپ کو ان بتوں کو توڑنے کا اعزاز بھی حاصل ہے جن کی پوجا قریش کے مشرکین کیا کرتے تھے۔ آپ علیہ السلام سے منقول ہے: " مجھے رسول اللہ ﷺ نے ایک رات خدیجہ کے گھر میں بلایا ، جب میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمایا: علی میرے پیچھے آؤ "، یہ کہہ کر آپﷺ روانہ ہوئے اور میں آپ ﷺ کے پیچھے چلتا رہا ، ہم مکہ کے راستوں سے ہٹ کر چلتے ہوئے کعبہ تک پہنچ گئے جبکہ اس وقت اللہ نے ہر آنکھ سلا دی تھی ، ایسے میں رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: اے علی ! میں نےعرض کی: لبیک یا رسول اللہ ، آپ ﷺ نے فرمایا:" اے علی میرے کاندھے پہ چڑھ جاؤ، یہ کہہ کر آپ ﷺ نے اپنا کاندھا جھکا دیا اور میں آپ ﷺ کے کاندھےے پر سوار ہوگیا اور میں نے بتوں کو منہ کے بل نیچے گرا دیا اور ہم کعبہ سے خارج ہوئےاور خدیجہ (علیہا السلام ) کے گھر آگئے، اس پر آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: سب سے پہلا شخص جس نے بت توڑ دیئے آپ کے جد ابراہیم تھے پھر اے علی آپ آخری ہو جس نے بت توڑ دیئے ، جب صبح ہوئی تو اہل مکہ نے دیکھا کہ سارے بت منہ کے بل گرے پڑے ہیں، یہ حال دیکھ کر انہوں نے کہا ہو نہ ہو یہ کام تو محمد ﷺ اور ان کے چچازاد کا ہی ہے ۔ اس کے بعد کعبہ میں کوئی بت نہیں رکھا گیا ۔
علی علیہ السلام کا آخری امتحان اپنے فرزند امام حسین علیہ السلام کو واقعہ کربلا کے لئے تیار کرنے کا تھا ( وہ واقعہ جس کی یاد ہمیشہ زندہ ہے ) آپ علیہ السلام اپنے اس فرزند اور اپنے اہلبیت کو انسانیت کی بقاء کے ایک فیصلہ کن دن کے لئے تیار کررہے تھے تاکہ وہ اللہ کی رضا اور اس کے دین کی بقاء میں قربانی اور فدیہ کا مصداق و نمونہ بن جائیں۔ اس بارے میں روایت ہے کہ امام علی علیہ السلام ایک دن زمین کربلا سے گزر ے آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے یہ کہتے ہوئے گریہ فرمایا :" یہ جگہ ہے جہاں ان کی سواریاں اتریں گی، یہ مقام ہے جہاں ان کا سامان سفر رکھا جائے گا، یہ زمین ہے جہاں ان کا خون بہایا جائے گا، اے خاک خوش قسمت ہو تم کہ جس پر دوستوں کا خون گرے گا، " پس امام حسین علیہ السلام ہیں جو حقیقی معنی میں ذبح عظیم کی قربانی ہیں، یہ اسماعیل علیہ السلام کی طرح مجازی قربانی نہیں ہے ۔
یہ وہ عظیم کمالات اور فضیلتیں ہیں جن کی وجہ سے امام علی علیہ السلام مستحق ہوئے کہ آپ ذریت ابراہیم علیہ السلام میں ان میں سے ہوجائیں جنہوں نے اپنے پروردگار سے امامت کا عہد ہ پایا اور سارے انسانوں کے امام بنے۔آپ علیہ السلام ہی کےبارے میں نبی مکرم ﷺ نے فرمایا:
"من أراد أن ينظر إلى آدم في علمه، والى نوح في فهمه والى إبراهيم في حلمه، والى يحيى بن زكريا في زهده، والى موسى بن عمران في بطشه فلينظر إلى علي بن أبي طالب۔"
ترجمہ: جو چاہتا ہے آدم کو علم میں، نوح کو فہم میں، ابراہیم کو حلم میں ، یحیٰ بن زکریا کو زہد میں اور موسیٰ بن عمران کو ہیبت میں تو وہ علی بن ابیطالب کو دیکھے ۔" بلکہ اللہ نے تو علی کی نسل میں بدستور سلسلہ امامت رکھ کر تاج کرامت پہنا دیا ، آپ کی معصوم اولاد یکے بعد دیگرے اللہ کے اس عہد کے حامل ہوئے اور اپنے آپ کو ہر قسم کی خطا اورلغزش سے پاک رکھا تاکہ مخلوقات پر امامت کا سلسلہ جاری رہے اور ان پر اللہ کی جانب سے حجت بھی تمام ہوجائے ۔