- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


بنوت و رسالت۔ کی ذمہ داریاں اور ان میں عموم و خصوص
2 محرم 1444هـ

اللہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت کے لیے سلسلہ انبیاء کا کو جاری فرمایا،تمام کے تمام انبیاء معصوم اور بڑی فضیلتوں کے مالک ہیں ۔حضرت محمد مصطفی ﷺ اللہ کی طرف سے نبی بھی ہیں اور رسول بھی ہیں اللہ تعالی ارشاد فر ماتا ہے:

 ((إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ . ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِن بَعْضٍ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ٣٤ )) (آل عمران ـ33 ـ34)

اللہ نے آدم علیہ السّلام,نوح علیہ السّلام اور آل ابراہیم علیہ السّلام اور آل عمران علیہ السّلام کو منتخب کرلیا ہے۔

((أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۚ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا))(مريم ـ58)

یہ سب وہ انبیاء ہیں جن پر اللہ نے نعمت نازل کی ہے ذرّیت آدم میں سے اور ان کی نسل میں سے جن کو ہم نے نوح علیہ السّلام کے ساتھ کشتی میں اٹھایا ہے اور ابراہیم علیہ السّلام و اسرائیل علیہ السّلام کی ذرّیت میں سے اور ان میں سے جن کو ہم نے ہدایت دی ہے اور انہیں منتخب بنایا ہے کہ جب ان کے سامنے رحمان کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو روتے ہوئے سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔

رسول اور نبی کے درمیان عموم خصوص کی نسبت ہے یعنی ہر رسول ﷺ نبی ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہے۔اللہ تعالی نے بعض انبیاءؑ کو درجہ رسالت پر فائز کیا ہے۔

ان دونوں کی لغوی اور اصطلاحی تعریف کی جائے گی پہلے لغوی تعریف ملاحظہ ہو:

نبی اصل میں نبا سے لیا گیا جس کے معنی خبر کے ہیں نبی آسمانی خبریں لیتا اور بتاتا ہے، اس کی جمع انبیاء ہے۔ نبی اللہ سے خبر دینے والا ہوتا ہے۔

رسول اصل میں رسل سے لیا گیا ہے کسی بھی گروہ  کو کہتے ہیں، مرسل اس شخص کو کہا جاتا ہے جو پیغام کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لیکر جاتا ہے،اللہ کے رسول آسمان سے آئے پیغام کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔

اصطلاح میں نبی اس شخصیت کو کہا جاتا ہے جو اللہ سے خبریں لیتا ہے اور بندوں تک پہنچاتا ہے،اس کے ساتھ ساتھ اللہ نبی کو عزت و شرف عطا کرتا ہے۔دوسرے الفاظ میں جو آسمانی پیغام اللہ سے لیکر بندوں تک پہنچاتا ہے ،یہ اللہ کی طرف سے عزت و شرف ہے۔

ایک اور طرف سے نبی اور رسول  کے درمیان عموم خصوص کی نسبت ہے۔نبی  کو مبعوث کیا گیا ہو چاہے انہیں تبلیغ کا حکم دیا گیا ہو یا نہ دیا گیا ہو وہ نبی ہوتا ہے،جبکہ رسول ہوتا ہے تو وہ اللہ کی طرف سے بندوں تبلیغ رسالت پر مشغول ہوتا ہے۔اسی لیے انبیاءؑ کی تعداد زیادہے اور رسولوں کی تعداد کم ہے۔حضرت موسی ؑ منصب رسالت پر فائز کیا گیا اور آپ کے ماننے والے یہودی کہلائے،اسی طرح حضرت مسیح ؑ اس عہدہ پر فائز ہوئے آپ کے ماننے والےمسیحی کہلاتے اور اللہ کے آخری نبی اور رسول حضرت محمد ﷺ  ہیں آپ کے پیروکار مسلمان کہلاتے ہیں۔ان کے علاوہ بھی رسول ہیں ہر عہدہ رسالت رکھنے والے پر ہمارا درود و سلام ہو۔

نبی اور سول دونوں اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہوتے ہیں تاکہ  جو بھی ان پر نازل ہو  اس کو پہنچائیں ۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

((وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)) (الحج ـ 52)

اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی ایسا رسول یا نبی نہیں بھیجا ہے کہ جب بھی اس نے کوئی نیک آرزو کی تو شیطان نے اس کی آرزو کی راہ میں رکاوٹ ڈال دی تو پھر خدا نے شیطان کی ڈالی ہوئی رکاوٹ کو مٹا دیا اور پھر اپنی آیات کو مستحکم بنادیا کہ وہ بہت زیادہ جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے۔

نبی اور رسول ہر دو لوگوں کی ہدایت کے لیے آتے ہیں،نبی اللہ کی طرف سے لوگوں کو  وہ غیب کی خبریں بھی بتاتا ہے جو اللہ نے اس پر نازل کی ہوتی ہیں رسول کی ذمہ داریاں نبی سے زیادہ ہوتی ہیں۔نبی لوگوں کی معاش،آخرت اور زندگی میں پیش آنے والے معاملات میں رہنمائی کرتا ہے یعنی اصول دین اور فروع دین میں رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا ہے،یہ اللہ کی طرف سے لوگوں پر  نظر کرم ہے،رسول اللہ کی طرف سے خوشخبری لانے والا اور ڈرانے والا ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

 ((رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا))(النساء ـ165)

یہ سارے رسول بشارت دینے والے اور ڈرانے والے اس لئے بھیجے گئے تاکہ رسولوں کے آنے کے بعد انسانوں کی حجت خدا پر قائم نہ ہونے پائے اور خدا سب پر غالب اور صاحب ه حکمت ہے۔

امام جواد ؑ فرماتے ہیں:

نبی  خواب میں دیکھتا  اور سنتا ہے لیکن فرشتے کو نہین دیکھتا اور رسول آواز کو سنتا ہے خواب میں دیکھتا ہے اسی طرح فرشتوں کو بھی دیکھتا ہے۔

سب سے اہم فرق یہ ہے کہ رسول کی شان و مرتبہ نبی سے زیادہ ہوتا ہے ،دونوں تبلیغ کرتے ہیں،دونوں پر وحی نازل ہوتی ہے ،نبی پر نیند اور خواب میں وحی ہوتی ہے،رسول حضرت جبرائیلؑ کو دیکھتے ہیں اور آمنے سامنے براہ راست وحی کو وصول کرتے ہیں۔نبوت و رسالت دونوں اعلی شان و مرتبے کے عہدے ہیں البتہ رسالت نبوت سے بڑا مرتبہ ہے۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پہلے کوئی شخصیت عہدہ نبوت پر فائز ہوتی ہے اور بعد میں اللہ تعالی اس نبی کو عہدہ رسالت بھی عطا کر دیتا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ کے معاملہ میں ہوا۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

 ((وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا))(مريم ـ41)

اور کتاب خدا میں ابراہیم علیہ السّلام کا تذکرہ کرو کہ وہ ایک صدیق پیغمبر تھے۔

اسی طرح حضرت اسماعیلؑ  کے بارے میں فرمایا:

 ((وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا (54))(مريم ـ54)

اور اپنی کتاب میں اسماعیل علیہ السّلام کا تذکرہ کرو کہ وہ وعدے کے سچے ّاور ہمارے بھیجے ہوئے پیغمبر علیہ السّلام تھے۔

حضرت موسیؑ بھی پہلے نبی اور بعد میں رسول ہوئے ارشاد باری تعالی ہے:

 ((وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مُوسَىٰ ۚ إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصًا وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا))(مريم ـ51)

اور اپنی کتاب میں موسٰی علیہ السّلام کا بھی تذکرہ کرو کہ وہ میرے مخلص بندے اور رسول و نبی تھے۔

حضرت محمد ﷺ کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:

 ((وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ))(آل عمران ـ144)

اور محمد تو صرف ایک رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں کیااگر وہ مر جائیں یا قتل ہو جائیں تو تم اُلٹے پیروں پلٹ جاؤ گے تو جو بھی ایسا کرے گا وہ خدا کا کوئی نقصان نہیں کرے گا اور خدا تو عنقریب شکر گزاروں کو ان کی جزا دے گا۔

دوسرے مقام پر ارشاد ہے:

و((الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ))(الأعراف ـ157)

جو لوگ کہ رسولِ نبی امّی کا اتباع کرتے ہیں جس کا ذکر اپنے پاس توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں کہ وہ نیکیوں کا حکم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتاہے اور خبیث چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے اور ان پر سے احکام کے سنگین بوجھ اور قیدوبند کو اٹھا دیتا ہے پس جو لوگ اس پر ایمان لائے اس کا احترام کیا اس کی امداد کی اور اس نور کا اتباع کیا جو اس کے ساتھ نازل ہوا ہے وہی درحقیقت فلاح یافتہ اور کامیاب ہیں۔

ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:

((مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا))(الأحزاب ـ40)

محمد تمہارے مُردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں لیکن و ہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیائ علیہ السّلام کے خاتم ہیں اوراللہ ہر شے کا خوب جاننے والا ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ ہر نبی اور ہر رسول صاحب کتاب نہیں ہوتا کیونکہ کتب سمایہ  تو چار ہیں  تورات،انجیل،زبور اور قرآن مجید۔ارشاد باری تعالی ہے:

 ((انَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ وَاللَّهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ))(البقرة ـ213)

( فطری اعتبار سے) سارے انسان ایک قوم تھے . پھر اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیائ بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کریں اور اصل اختلاف ان ہی لوگوں نے کیا جنہیں کتاب مل گئی ہے اور ان پر آیات واضح ہوگئیں صرف بغاوت اور تعدی کی بنا پر----- تو خدا نے ایمان والوں کو ہدایت دے دی اور انہوں نے اختلافات میں حکم الٰہی سے حق دریافت کرلیا اور وہ تو جس کو چاہتا ہے صراظُ مستقیم کی ہدایت دے دیتا ہے۔

اس سے مراد یہ ہے کہ وہ پیغام الہی کو پہنچانے کے ذمہ دار تھے،ہر وہ شخصیت جن کو اللہ نے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لیے چن لیا وہ نبی ہے اور جب اس نبی کے لیے عہدہ رسالت بھی عطا ہو جائے تو وہ رسول بھی  بن جاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ایک عہدہ امامت ہے جو اللہ تعالی بعض خاص بندو کو عطا کرتا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:

 ((وَإِذِ ابتلى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ))(البقرة ـ124).

اور اس وقت کو یاد کرو جب خدانے چند کلمات کے ذریعے ابراہیم علیہ السّلام کا امتحان لیا اور انہوں نے پورا کردیا تو اس نے کہا کہ ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں. انہوں نے عرض کی کہ میری ذریت? ارشاد ہوا کہ یہ عہدئہ امامت ظالمین تک نہیں جائے گا۔

ظافرة عبد الواحد خلف