ہر ظاہر حقیقت ہے اور ہر حقیقت ظاہر ہے اس ظاہر کا ایک باطن ہے اس ظاہر کی ایسی تفسیر کی ضرورت ہے جس میں دونوں قسمیں واضح ہوں باطن ہمیشہ تاویل کا محتاج ہوتا ہے اس حقیقت کے دونوں معنی عوام کو سمجھانا مقصود ہے اس تاویل کو یا جسے ھرمونیٹک نام بھی دیا جاتا ہے ایک ابتدا ہی میں دینی صورت اختیار کر چکی ہے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے دین چاہے یہودی ہو یا عیسائی ہوں یا افریقی تمدن ہوں بلکہ اسلام متآخر نے بھی اس اصطلاح کو اپنے اندر شامل کر لیا ہے یہ تاویل ہر اسلامی علوم کو شامل ہے اس کے ذریعہ ہم ان مخفی معنی اور اصطلاح پہنچنے کی کوشش کریں گے جو اس میں پنہاں ہیں جن الفاظ کے ذریعے عوام الناس کے عقول کو مخاطب کیا گیا ہے ان کو سمجھنے کے بعد ہم لوگوں کو وہم اور ابہام جس کی میں وہ گھرے ہوئے ہیں نکال کر تصدیق یقینی کی حالت میں لے آئیں گے اور یہ سب کچھ ہم اپنی طرف سے نہیں بلکہ بلکہ ان فرامین مقدسہ ذریعے جو انبیاء اور رسول کے اذھان نورانیہ جنہیں اللہ نے ہمیں سمجھانے کے لیے انتخاب کیا ہے جو معنی سمجھے ہیں وہی آپ تک پہنچائیں کیونکہ بغیر کسی لالچ یا دنیاوی غرض وغایت کے عام لوگوں تک ان افراد کا مقصد تعلیم الہی جو اللہ کی ذات چاہتی ہے کو پہنچانا ہے۔
اس علم کے اہتمام کا مقصد کچھ آسمانی پیغام جو قیامت تک باقی رے گا میں پوشیدہ اسرار اور رموز کو واضح کرناہے اور چونکہ اب انسانی زندگی وسیع ہوگئی ہے اور علم بھی ترقی کرچکاہےاور اسمیں بہت زیادہ باب کھل چکے ہیں اور ہرمونٹیک بھی ایک دینی صورت اختیار کرچکا ہے اور انسانی علوم کو اہمیت دے رہا ہے اور ساتھ ہی انسانی تہذیب وتمدن ادب تاریخ فنون اور سیاست کی معلومات کو بھی شامل ہے اور یہ ان پوشیدہ رازوں سے سے بھی پردہ اٹھا رہا ہے اس ان رازوں کو بیان کررہا ہے جس کے ذریعے عام ذھن بھی ان پوشیدہ رازوں کو سمجھ سکتا ہے
اور چونکہ علم ہر مونوٹیک علم لاہوتی کی ایک کڑی ہے تو اس کو حاصل کرنے کی بھی دو صورتیں ہیں ایک صورت علیم الحکیم سے بغیر کسی واسطے کے انبیاء اور مرسلین اور اولیاء نے مباشرتا علم حاصل کیا اللہ نے ان ہستیوں کو لوگوں تک علم پہنچانے کا واسطہ قرار دیا جو لوگوں کے ذہنوں پر نصوص مقدسہ مخفی ہیں ان کو واضح کریں اور دوسری صورت علم حصولی ہے جو جیسا کہ ایک عادی انسان کے پاس تعلیم ہوتی ہے جسے وہ مختلف مصادر اور ذرائع سے حاصل کرتا ہے اس کا مقصد بھی ان آیات الہیہ کے مضامین تک رسائی ہے جن کو قرآن میں مختلف آیات اور اشاروں کنایوں میں ذکر کیا گیا ہے اور چونکہ زبان ہی متکلم اور مخاطب کے درمیان علم پہنچانے کا ذریعہ ہے اور اس کی تاویل اور تفسیر کی ضرورت ہوتی ہے تو ضروری ہے کہ اسی زبان و فصاحت و بلاغت کو سمجھاجائے اس کو سمجھنے کے لئے یہ علم ہرمونیٹک ہے.
اسلام اور ھرمونیٹک :
اللہ کی ذات نے چاہا کہ مسلمانوں کی اخری آسمانی کتاب قرآن مجید ہو جو تمام لوگوں کی ہدایت کرے تا قیامت ہر زمانے میں باقی رہے اس میں کسی قسم کا کوئی شک شبہ نہ ہو تو ضروری تھا کہ اس میں ایسے معارف، علوم اور اہداف کو شامل ہوں جو اس میں چھپے ہوئے ہوں جن کی تاویل کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت پڑے اور ان کے ساتھ اللہ کے چنے ہوئے حواری جواہل بیت علیہ السلام سے ہیں کی بھی ضرورت پڑے اور انکے بعد مراجع عظام کی ضرورت پڑے تاکہ وہ اس مطلب کو جو کچھ اللہ کی ذات چاہتی ہے ان لوگوں تک پہنچائیں جن کے دلوں میں کجی ہو اوربالخصوص ان افراد کو بتائیں کہ جو اپنے خیال اور اجتہاد سے ان تاویلات کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سے حق اور باطل میں خلط پیدا کرتے ہیں ،تاکہ ان شبہات کو رد کریں جو معرفت حاصل کرنا چاہتے ہیں متشابہ کو محکم کی طرف پلٹا کر جس کو اللہ نے محکم کو ام کتاب سے تعبیر کیا ہے اور متشابہ کو اس کی فر ع بنائی ہے ۔چنانچہ آیت خدا وندی ہے
(هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّـهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ )) (آل عمران -7)
وہی ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری اُس میں بعض آیتیں محکم ہیں (جن کے معنیٰ واضح ہیں) وہ کتاب کی اصل ہیں اور دوسری مشابہ ہیں (جن کے معنیٰ معلوم یا معین نہیں)، سو جن لوگو ں کے دل ٹیڑھے ہیں وہ گمراہی پھیلانے کی غرض سے اور مطلب معلوم کرنے کی غرض سے متشابہات کے پیچھے لگتے ہیں، اور حالانکہ ان کا مطلب سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں جانتا اور مضبوط علم والے کہتے ہیں ہمارا ان چیزوں پر ایمان ہے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہی ہیں، اور نصیحت وہی لوگ مانتے ہیں جو عقلمند ہیں
یا اہل ذکر کی طرف رجوع کریں جو اہل قرآن اور علم ہیں جنکی اللہ نے اطاعت کا حکم دیا ہے اور فرمایا
((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا)) (النساء-59)،
اے ایمان والو! اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں، پھر اگر آپس میں کسی چیز میں جھگڑا کرو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لاؤ اگر تم اللہ پر اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہو، یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے۔
گزشتہ آیت سے واضح ہو گیا کہ قرآن مجید کی آیات کی تاویل کا علم اللہ کی ذات نےاپنی ذات میں اور راسخین فی العلم یعنی انبیاء رسل اوربرگزیدہ صالحین کے پاس رکھا انہوں نے اللہ کی ذات سے مباشرتا علم لدنی سے علم حاصل کیا
((فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا)) (الكهف -65)
پھر ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ کو پایا جسے ہم نے اپنے ہاں سے رحمت دی تھی اور اسے ہم نے اپنے پاس سے ایک علم سکھایا تھا۔
اور اسی سے حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ بھی انبیاء اوررسل کو علم لدنی کے ذریعے آیات کی تاویل کا علم ہوتا ہے ایک دلیل بن سکتا ہے
((وَكَذَلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَعَلَى آلِ يَعْقُوبَ كَمَا أَتَمَّهَا عَلَى أَبَوَيْكَ مِن قَبْلُ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ إِنَّ رَبَّكَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)) (يوسف6-(
ان ہستیوں کوآیات قرآنیہ کی تاویل کے لیےچننے کا مقصد عام لوگوں سے ان کی علمی صلاحیت کا فرق ہے ان کی معلومات کے شمول اور حفاظت کی قدرت زیادہ ہے اسی وجہ سے ان ہستیوں کو اللہ نے علم تاویل دیا اس عوام اور برگزیدہ ہستیوں کے علمی تفاوت کی بناپر اللہ نے فرمایا (هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ ........)) (الزمر-9). کہہ دو جاننے والے اور نہ ناججےوالے برابر ہو سکتےہیں بیشک صاحب عقل ہے سمجھتے ہیں
ختم نبوت اور بارہویں حواری کی غیبت کے بعد امت اسلامی کے علماء جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور روز قیامت پر امید رکھتے ہیں کہ انکی مرجیعیت دین اسلام کے لیے امین ہوگی اور لوگوں پر مخفی دینی امور انہیں سکھاتے ہیں اور ظالموں اور جابروں کی لوگوں کو جاہل رکھنے والی سیاست انکے ضد میں ہووہ چاہتے ہیں کہ لوگ حق سےجاہل رہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کے علماءکا علم حصولی ہے جو انہیں نے متوفرہ مصادر قرآن سنت نبوی اور سیرت اہل بیت جو قرآن کہ ہم پلہ ہیں سے اخذ کیا ہے پس جو بھی قرآن کی تاویل کرے اوراسمیں اپنی خواہش کو مد نظر رکھے اور حق کو جانتے ہوئے دنیاوی لالچ میں آجائے اور اسے چھپائے تو اللہ نےایسے افراد کے لیے بروز قیامت خسارے کا وعدہ کیاہے جو آنے والا ہے اور وہ پشیمان ہوگا اور اس دن ہر نفس وہی پائے گا جو وہ بھیج چکا ہوگا، ((هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ يَقُولُ الَّذِينَ نَسُوهُ مِن قَبْلُ قَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ فَهَل لَّنَا مِن شُفَعَاءَ فَيَشْفَعُوا لَنَا أَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ قَدْ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ)) (الأعراف-53).
کیا انہیں صرف آخری نتیجہ کا انتظار ہے، جس دن اس کا آخری نتیجہ سامنے آئے گا اس دن جو اسے پہلے بھولے ہوئے تھے کہیں گے کہ واقعی ہمارے رب کے رسول سچی باتیں لائے تھے، سو اب کیا کوئی ہمارا سفارشی ہے جو ہماری سفارش کرے یا کیا ہم پھر واپس بھیجے جا سکتے ہیں تاکہ ہم ان کے اعمال کے خلاف دوسرے اعمال کریں جو کیا کرتے تھے، بے شک انہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال دیا اور جو باتیں بناتے تھے وہ سب گم ہو گئیں۔
آخر میں جو علم ہرمونیٹک کو نص کی تاویل کے لیےقبول نہیں کرتا وہ چاہتا ہے کہ لوگ جہالت میں رہیں اورجو اسکے پاس غلط معلومات ہیں وہ ٹھونستاہے کیونکہ حق ان سے غائب ہوچکا ہوتا ہے اور کیونکہ تاویل کا دروازہ کھلنا انکی بنیادوں کو ہلا دیتا ہے اسی وجہ سے وہ لوگ ظاہر آیت کو لیتے ہیں اور ان نصوص کی خلاف ورزی کرتے ہیں جو تاویل کی طرف لے جاتی ہے اور یہی چیز انہیں بہت زیادہ شرک میں مبتلاکرتی ہے.