ابوالاسود دئلی شاعر ومحدث اور مشہور تابعین میں سے تھے ۔وہ ہر وقت حضرت علیؑ کے ساتھ ہو تے تھے اوریہ بات بھی معروف ہے کہ وہ علم نحو کے بنیاد گزاروں میں سے تھے ۔ ابولاسود دئلی کے حصے میں یہ فضلیت و کمال بھی آیاہے کہ انہوں نے قرآن کریم کے حروف پہ نقطہ اور اعراب گزاری کا عظیم کام کیا ۔
ان کے نام اور کنیت کے بارے میں تاریخ میں اختلافات پائےجاتے ہیں، تاریخ نگاروں کے مابین ان کےنام و نسب کے حوالے سےبحث ہوئی نظر آتی ہے بعض نے ان کے ناموں میں سے ایک نام ترجیح دی ہے تو بعض نے ان کے آبا و اجداد کے ممکنہ نام کو ذکر کر ےہوئے بحث کی ہے۔
ابولاسودکا جو مشہورنام ہے وہ' ظالم بن عمرو بن سفیان بن جندل بن یعمر بن جلس ابن نفاثۃ بن عدی بن الدئل بن بکر بن عبد مناۃ بن کنانہ ہے۔ بعض کے مطابق ان کا نام و نسب کچھ اس طرح ہے' عمرو بن ظالم بن سفیان پھر سابقہ ترتیب کے ساتھ ہے ان کے نام و نسب کے بارے میں بعض نے یوں کہا ہے کی عثمان بن عمرو ہے لیکن اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ۔اس اختلاف کی وجہ رسم الخط کے اختلاف کی طرف اشارہ ملتاہے ان کی نسبت ِدؤلی کنانہ کی وجہ سے ہے۔
ابولاسود ئلی کی ولادت کے بارے میں کوئی مستند تاریخ نہیں ملتی ، ان کے تذکرہ کرنے والوں کی اکثریت نے ان کی ولادت دور جاہلیت میں ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن ابو الحاتم سجستانی نے اس قول کو غیر معتبر قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کو ولادت بعض از اسلام ہوئی ۔ابولاسود کے دو بیٹے تھے ۔،عطا اور حرب۔جب تک ان کا بیٹا بصرہ میں رہا والد کی تبعیت و پیروی کرتا رہا لیکن بعد میں یحیٰ بن یعمر عدوانی کے ساتھ رہتے ہوئے والد کی راہ سے دور ہو گیا۔عطا کی کوئی اولاد نہیں ہوئی یعنی ان کا کوئی جانشین نہیں ہے۔
حرب ابواسود دؤئلی کا دوسرا بیٹا تھاوہ نہایت عاقل اور بہادر تھا۔ ابواسود کی تاریخ وفات کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے اکثر تاریخ نگاروں کے ہاں یہ با ت مشہور ہے کہ ان کی وفات 69ھ میں بصرہ میں اس وقت ہوئی بصرہ میں لوگ طاعون کی بیماری کے سبسب مر رہے تھے
بعض نے اس طرح لکھا ہے کہ وہ بصرہ میں طاعون کی بیماری پھیلنےسے پہلے فالج کی وجہ سے قلیل علالت کے بعد وفات پاگئےتھے، انہوں اس با ت پر اعتماد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ حضرت مختار کے واقعات میں ان کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ ایک گروہ کے مطابق ابو لاسود وئلی عبداللہ بن زیاد کے دور حکومت میں فو ت ہو گئے ، جبکہ ایک اور گروہ کا خیال ہے کہ وہ حجاج بن یوسف کے دور میں زندہ تھے اور عمر بن عبد العزیز کے دورحکومت میں فو ت ہوگئے
یہ بات اور دعویٰ خارج از امکان نہیں ہے کہ ابولاسود وئلی صحابی تھےانہوں نے رسولﷺ کے دور کو درک کیا تھا ، اس بات پر مستند جو چیز ہے وہ ان کی تاریخ وفات ہے یہی وجہ ہے کہ بعض نے ان کو صحابی کی صف میں شامل کیا ہے ابن اثیر نے بھی اسی نکتے کی اشارہ کرتے ہوئے مشہور کے ساتھ ہم آہنگی کا اظہار کیاہے ۔ مشہور کے مطابق ابولاسودؤلی 69 ھ میں پچاسی سال کی عمر میں اور بعض کے مطابق سو سال کی عمر میں وفات پاگئے دونوں صورتوں اور روایتوں کے مطابق باالترتیب قبل ہجرت ان کی عمر 16 یا 36 سال تھااس بنا پریقینا انہوں نےعصر رسولﷺ کو درک کیا ہے اوروہ صحابی میں شمار ہوتے ہیں۔ واقعہ کربلا یعنی امام حسین ؑ کو ان کے اصحاب و انصار کےساتھ دشمنوں نے جب شہید کر دیا تو ابولاسود نے ان پر مرثیہ لکھا۔ انہوں نے عبداللہ بن زیاد کی اسی طرح مذمت کی جس طرح ہجو لکھ کر زوبیریوں کی مذمت کی تھی۔ آخری تاریخی بات جو ان کی ذندگی سے جڑی ہو ئی ہے وہ یہ ہے کہ جب 65 ہجری میں انقلاب و فساد برپا ہوا تو اس وقت حاکم بصرہ کی شدیدمذمت کرتے ہوئے ہجوپر مشتمل کلام لکھا تھا۔
تاریخ نگاروں نے اس بات کو بھی تاریخ کا حصہ بناتے ہوئے تحریر کی ہیں کہ ابولاسودوئلی نے حضرت ابو زر غفاری جو عاشق رسولﷺ اور عاشق علیؑ تھے ان سے ملاقات کی۔ ابوذرغفاری سےان کی ملاقات کو نقل کرنے کا سلسلہ ،الواقدی عن مالک بن ابی الرجال عن موسیٰ ابن میسرہ، سےیوں ملتاہےکہ ابولاسود دؤلی نے کہا حضرت ابوزر غفاری کی زیارت کرنے کی میری شدید خواہش تھی تاکہ با لمشافہ ان سے یہ پوچھ سکوں کہ ان کو مدینہ بدر یعنی مدینہ سے نکالنے کی اصل وجہ کیا تھی۔وہ اسی خواہش کے ساتھ مقام ربزہ پہنچےاورحضرت ابوذر کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا 'آپ مجھے آگاہ نہیں فرمائیں گے کہ آپ خود مدینےنکلے تھے یا آپ کو نکالا گیا تھا اگر نکالا گیاتھاتو اس کی کیا وجوہات تھیں؟ حضرت ابوزر نے جواب دیا کہ جہاں آپ مجھے دیکھ رہے ہیں یعنی مقام ربزہ میں مجھے مدینہ بدرکرنےکی وجہ سے یہاں قیام پزیر ہوں۔مدینے سے مجھے نکالنے کی اصل وجہ مولا علیؑ کی محبت اورصداقت تھی۔
ابولاسود کا اہلبیت ؑ کے ساتھ بہت محبت ،ربط اور تعلق تھا، خصوصا امیر المؤمنینؑ کے عاشقوں میں سے تھے۔وہ جنگ جمل میں حضرت علیؑ کے ساتھ تھے۔انہوں نے حضرت علی ؑ کی شان میں قصیدے اور حضرت امام حسینؑ کی شہادتِ عظمیٰ پر مرثیہ لکھےہیں انکا ہر قدم محبت علیؑ میں اٹھتا تھا۔
بعض مستند تاریخ پر مشتمل کتابوں میں یہ بات موجودہے کہ اس وقت کے حکمرانوں نے ان سے عداوت کرتے ہوئے ان پر ظلم روا رکھا۔ان پرسختی کرنے کی اصل وجہ یہی تھی کہ ان کے دل میں علی ؑ کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔