- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


علی بن یقطین کا بادشاہ کے ساتھ کام کرنے پر بطور کفارہ اپنے (مومن) بھائیوں پر احسان کرنا:
27 جمادى الاخير 1443هـ

علی بن یقطین ابو الحسن علی بن یقطین بن موسیٰ بغدادی ایک فقیہ، متکلم (علم عقائد کا ماہر)،محدث، دو اماموں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے عظیم اصحاب میں سے تھے۔ اموی خاندان کے زوال اور عباسی حکومت کے ابتدائی نازک دور میں؛ یقطین خاندان کی نمائندگی قابل ذکر ہے۔ان بہترین نمائندگی کرنے والوں میں سے ایک علی بن یقطین بھی تھا۔ علی بن یقطین پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے 124 سال بعد کوفہ میں پیدا ہوئے، جو اموی خاندان کے خاتمے کا دور تھا۔جب مروان بن حکم کو معلوم ہوا کہ یقطین امام جعفر الصادق علیہ السلام کے لیے تحائف اور پیسے لے کر جا رہا ہے،تو اس نے یقطین (جوکہ علی کا والد تھا) کو پیشی  کے لئے حاضر ہونے کا حکم دیا تھا اس لئے وہ  کوفہ سے فرار ہونے پر مجبور ہوا تھا۔ اس کی بیوی اور اس کے دو بیٹے علی اور عبید اللہ بھی مدینہ کی طرف فرار ہو گئے، تاکہ اموی حکومت کے خاتمے اور عباسیوں کی حکومت شروع ہونے کے بعد وہاں واپس آئے پھر منصور اور مہدی کے ساتھ ان کے چاہنے والوں سے مخفی طور پر حقیقی اسلام کے لئے امام صادق علیہ السلام اور امام موسی کاظم علیہ السلام کی ہدایات کی روشنی میں کام کرسکے۔ چنانچہ ان کی کئی مرتبہ مخبری کی گئی، لیکن خدا کے فضل سے وہ ہر دفعہ بچ گئے ۔

جہاں تک ان کے بیٹے علی کا تعلق ہے تو انھوں نے عباسیوں سے بھی رابطہ قائم رکھا اور مؤمنین کو ان کے حقوق سے محروم کیے بغیر اقتدار میں رہ کرکئی اہم عہدوں پر فائز بھی رہے۔آپ مؤمنوں کی مدد کرنے خصوصا محتاج مؤمنوں کی مدد کرنے لئے حق کی علامت کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔جیسے آپ غریبوں کو خدا کے مقدس گھر کی کی طرف حج کے لئے بھیجتے تھے، تاریخ یہاں تک بتاتی ہے کہ آپ ہر سال 150 غریبوں کو حج کے لئے بھیجتے تھے ۔علی بن یقطین عباسی خلیفہ مہدی کے دور میں بھی کئی بار اعلی منصب پر فائز رہے اور ان کے بعد ہارون نے انہیں اپنا وزیر بھی مقرر کیا تھا لیکن ہارون کے ظلم اور نا انصافی کی وجہ سے انہوں نے ان کے انصاف نے انہیں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو خط لکھا اور ظالم بادشاہ کے ہمراہ کام کرنا چھوڑنے اور اس منصب سے استعفیٰ دینے کے لئے امام علیہ السلام سے اجازت طلب فرمائی۔ تاہم، امام موسی کاظم علیہ السلام نے انہیں ہارون رشیدکے کابینے کے وزیر رہ کر کام کرنے اور اس سلسلے کو برقرار رکھنے کا حکم دیا۔ چنانچہ امام علیہ السلام نے ان سے فرمایا:

"يا علي إن لله تعالى أولياءً مع أولياء الظلمة يدفع بهم عن أوليائه وأنت منهم يا علي"

ترجمہ:"اے علی، خدا کے لئے ظالم حکمرانوں کے مقابلے میں ایسے اولیاء بھی ہیں جو ان ظالموں  کے شر سے اپنے دوستوں  کی حفاظت کرتے ہیں، اور اے علی تم ان الہی اولیاء میں سے ہو۔"

امام موسی کاظم علیہ السلام کی طرف سے انھیں عباسی حکام کی طرف سے ستائے جانے والے مومنین کی بہتری کے لیے اپنے منصب پر رہنے کی اجازت دی گئی تاکہ کہیں ظالم لوگ مؤمنوں کو ان  کے  تمام جائز حقوق سے محروم نہ کر دیں۔امام موسی کاظم علیہ السلام کوعلی ابن یقطین سے بے پناہ محبت تھی اور والہانہ لگاؤ تھا چنانچہ روایت ہے کہ آپ علیہ السلام ایک دن ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اپنے اصحاب سے فرمایا:

"من سره أن يرى رجلاً من أصحاب رسول الله صلّى الله عليه وآله فلينظر إلى علي بن يقطين"

 ترجمہ:"جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی صحابی کی زیارت کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ علی بن یقطین  کی زیارت کرے۔"

آپ علیہ السلام کے ایک ساتھی نے آپ سے پوچھا: "کیا وہ اہل جنت میں سے ہے؟ تو  آپ علیہ السلام نے فرمایا:

"أما أنا فاشهد أنه من أهل الجنة"

ترجمہ:"جہاں تک  میری گواہی کا تعلق ہے تو میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اہل جنت میں سے ہے۔"

سیاست کے علاوہ دیگر میدانوں  میں علی ابن یقطین کو علم و معرفت کا علمبردار اور ممتاز فضیلت کے حامل جانا جاتا ہے۔جیساکہ انہوں نے امام صادق علیہ السلام سے کسب فیض کر تے ہوے ایک کتاب "الملاحم" لکھی اور امام کاظم علیہ السلام سے بھی کسب فیض کرتے ہوے ایک کتاب "المسائل" کے نام سے لکھی، ان کی تیسری کتاب جو قابل ذکر ہے وہ  "المناظرة الشاک"ہے۔

علی بن یقطین نے انتہائی متبرک زندگی گزاری اور 182 ہجری میں 57 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔