- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


اندلس اپنے سنہرے دور میں
28 ربيع الاول 1442هـ

’’جزیرہ نما ئے ایبیریا‘‘ یا ’’سپین ‘‘ یا پھر مسلمانوں کاتجویز کردہ نام ’’دیار اندلس‘‘ یہ وہ علاقے ہیں جو براعظم یورپ کے جنوب مغرب میں واقع ہیں اور اس جزیرہ نما کو مغرب ’’ Morocco‘‘ سے ’’ آبنائے جبرالٹر‘‘ جدا کرتاہے۔واضح رہے کہ اس وقت یہ جزیرہ نما اسپین اور پرتگال کا حصہ ہے جبکہ اس کا شمالی اور مغربی حصہ بحر اوقیانوس سے ملا ہوا ہےاور جنوب اور مشرقی حصہ بحیرہ روم سے ملحق ہے۔اسی طرح  شمال مشرق کی طرف اس کی سرحدیں فرانس سے جا ملتی ہیں۔

سرسبز زمینوں، بلند وبالاپہاڑوں اور مظاہر فطرت سے مالا مال بے شمار خوبیوں کا حامل یہ ملک سن 92ہجری بمطابق سن 711 ء میں طارق بن زیاد کی قیادت میں مسلمانوں کے فتح کرنے سے پہلے،  قوطی (گوشھک) بادشاہ ’’لُذریق ‘‘ کے دور میں عیسائی قوطیوں کی حکومت میں شامل تھا۔یاد رہے کہ مسلمانوں نے اندلس پر تقریباً آٹھ صدیوں تک حکومت کی اور اس دوران ملک نے نہ فقط قابل ِذکر ترقی کی بلکہ  لوگوں میں خوشحالی آٗئی اور یہ ملک اپنے سنہرے دور میں داخل ہوا اس کے علاوہ اس میں بسنے  والے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا۔

سپین ، مسلمانوں کی آمد سے پہلے

عیسائی قوطی بادشاہ لذریق کے زمانے میں یہ جزیرہ نمائے ایبیریا کبھی حکومت اور بااثر یہودیوں کی چپقلش اور کبھی حکومت اور دیگر جابر اقوام کے ٹکراؤ کی وجہ سے نہایت کمزور ،منتشر اور اندرونی خلفشار کا شکار تھا۔ اس کے علاوہ بادشاہ لذریق کی ظالمانہ ڈکٹیٹر شپ اور کلیسا (چرچ) کا تسلط جوہر وقت ذاتی مفادات اور غیر قانونی طاقت وغلبہ حاصل کرنے کے درپے تھا۔اس نےنا فقط ملک کی وسیع و عریض زمینوں پر اپنا تسلط جما کر اسے کلیسا کی املاک میں شامل کیا ہوا تھا  بلکہ وہاں کے لوگوں کو غلام  بھی بنایا ہوا تھا اور انہوں نے ملک کے اشرافیہ طبقے کی زمینوں پر اجارہ داری قائم  کرتے ہوئے غریب طبقے کے لوگوں کو ان کی خدمت پہ لگادیا تھا۔ان ظالمانہ اقدامات نے ملک کے اکثر لوگوں کو ان کی آزاداور باوقار زندگی کے حقوق سے محروم کردیا تھا۔نتیجتا اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر لوگوں میں جہالت اور ناخواندگی پھیلائی گئی تھی۔اس کا نشانہ خاص کر وہ کمزور اور محروم طبقہ تھا جو ان لوگوں میں اکثریت رکھتا تھا اور ہسپانوی اقوام کی نمائندگی کرتا تھا۔آخر کار یہ ساری زیادتیاں پسماندہ طبقے کے لوگوں میں بیداری کا باعث بنیں۔اور اس طرح سے جابرانہ حکمرانی کے خلاف بغاوت کی تحریکیں سر اٹھانے لگیں۔پس یہ حالات اس بات کی غمازی کررہے تھے کہ ملک میں اصلاحات لانے کی اشد ضرورت ہے۔اور عوام کی اکثریت بھی ایسی اصلاحی تحریک کی حمایت کرنا چاہتی تھی جو ملک کے  ان دردناک حالات کو بدل دے۔

سپین ، اسلام داخل ہونے کے بعد

کسی پر ظلم کرنا، کسی کو غلام بنانا یا کسی کو اس کا عقیدہ تبدیل کرنے پر مجبور کرنا اسلامی تعلیمات میں شامل ہی نہیں، بلکہ اسلام  رواداری پر مبنی ایک ایسا قانون رکھتا ہے۔جو سب سے بہتر راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے۔پس اگر لوگ اس کی پیروی کریں اس میں انہی کا فائدہ اور اگر اس کی پیروی نہ کریں  تووہ  اپنے دین اور عقیدے پر باقی رہنے میں آزاد ہیں۔

(لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ  قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ) (البقرہ، 256) ترجمہ: دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں، بتحقیق ہدایت اور ضلالت میں فرق نمایاں ہو چکا ہے۔

آج بھی اسلامی ممالک میں دیگر ادیان ومذاہب کے ماننے والوں کا اپنے عقائد کا پابند رہتے ہوئے اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ موجود ہونا اور امن وسلامتی کے ساتھ زندگی بسر کرنا اسی بات کی دلیل ہے۔اس کے علاوہ دین اسلام کا اپنی طرف بلانےاور دعوت دینے کا منہج بھی وعظ و نصیحت کا ہے۔

﴿اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ﴾(سورہ النحل -125)

ترجمہ: (اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں، یقینا آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔

اسلامی کارنامے

اسلام اپنے ان الہامی اصولوں کے ساتھ اندلس (سپین) میں داخل ہوا۔ اور وہاں کی اقوام کے ساتھ اس نے کسی غاصب استعمار کی بجاے    ایک ہادی اور نصیحت کرنے والے جیسا برتاؤ کیا۔اور وہاں کے لوگوں کو اشرافیہ کے ظلم ،کلیسا کے لالچ اورحکومت کی زیادتیوں سے نجات دلانے کے ساتھ ساتھ   اندلس کے شہروں کو بہترین شکل میں تعمیر کیا یہاں تک کہ اسلامی دور میں یہ ملک اپنی خوبصورتی سے چمک اٹھا اور قرطبہ ،اشبیلیۃ اور غزناطہ وغیرہ کی خوبصورت شکلیںاپناتا ہوا میں اپنے سنہرے دور میں داخل ہوا۔

ثقافت اور علوم کی ترویج :

اس دور کے مسلمان کیونکہ علم سے مربوط چیزوں مثلا سکولز،یونیورسٹیاں اور بڑی بڑی لائبریریاں وغیرہ سے دلچسپی رکھتے تھے، لہٰذا انہوں نے جامعۃ قرطبہ جیسی بڑی یونیورسٹی اور مکتبۃ المسجد الجامع جیسی عظیم لائبریری قائم کی جہاں اس وقت مختلف علوم ، آداب، فنون اور معارف کی4 لاکھ کتابیں موجود تھیں جن کی وجہ سے اسلامی حکومت کے مختلف علاقوں سے اور غیر اسلامی ممالک سے بھی تشنگان علم اپنی علمی پیاس بجھانے یہاںکھنچے چلے آتے تھے اور اسی طرح دسیوں بڑے بڑے علماء اور مفکرین کو بھی اس شہرنے اپنی طرف متوجہ کیا جیسے ابی علی القالی،محمد بن یوسف الحجازی اور ربیع بن زید جیسے بہت سے علماء ودانشور یہاں آئے۔اسی طرح مختلف کتابوں کا عربی میں ترجمہ کرنے کی تحریک بھی شروع ہوئی اور مختلف کتابوں سے نسخہ برداری اور تحریری  کام کرنے والے بھی کثرت سے پیدا ہوئے۔جنہوں نے ہزاروں کی تعداد میں کتابیں تالیف کیں۔

اس مرحلے پر  ایک اور نکتہ  جس کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ اس علمی تحریک سے نہ صر ف مسلمانوں نے استفادہ کیا بلکہ اسپین کے مختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے عیسائی اور یہودیوں نے بھی مسلمانوں کی اس علمی تحریک سے پڑھنا لکھنا سیکھا۔سپین اور دیگر علاقوں غیر مسلموں میں سے اکثر نے عربی زبان سیکھی اور بہت سے لوگوں نے اسلام بھی قبول کیا۔

صحت اور تجارت

مشرق کی صنعتی آگاہی اور مہارتیں اندلس میں داخل ہوکر وہاں کی پہلے سے موجودہ مہارتوں کے ساتھ مل گئیں چنانچہ  اس ملک میں صنعتوں کی سطح پر بڑی تیزی سے ترقی ہوئی۔ اسی طرح مشرقی سازوسامان کی خریدوفروخت کے بازار کھلنے اور ان بازاروں سے دوسرے اسلامی ممالک اور تہذیبوں سے تجارتی راستے قائم ہونے کی وجہ سے ملکی تجارت میں بھی ترقی ہوئی۔اور بالآخر  یہ تجارتی تعلقات یورپی ممالک اورتہذیبوں کے ساتھ بھی استوار ہونے سے تجارت بڑھی۔

اندلس میں مسلمانوں کی ثقافتی میراث:

مسلمانوں نے اندلس کے شہروں میں ایک ایسی  عظیم ثقافتی میراث چھوڑی، جو اندلس کی سرزمین پر ان کے قیام سے لے کر آٹھ صدیوں کے دوران  کی گئی تعمیر وترقی کی مثال پیش کرتی ہے۔انہوں نے وہاں بلند وبالا محلات ،بڑی عظیم مساجد ، تعلیمی مراکز اور ہرے بھرے باغات ورثے میں چھوڑے ۔جو ملک کے تمام حصوں میں پھیلےہوئے تھے، خصوصاً ان کمالات قرطبہ، طلیطلہ (تولیدوToledo)، اشبیلیہ(Seville) اور غرناطہ جیسے شہروں کا احاطہ کیا ہوا تھا۔ جس کی یادیں آج بھی زندہ و سلامت موجود ہیں۔جیسے غرناطہ میں قصرالحمراء (Alhambra Place) اور قصر جنۃ العریف(Generalife Place)، مسجد قرطبہ (جسے مسلمانوں کے سقوط کے بعد گرجا گر بنایا گیا) اسی طرح قرطبہ شہر کا مشہور مرکز آثار قدیمہ کہ جس کی لمبائی 400 میٹر ، چوڑائی 40 میٹر اور اونچائی 30 میٹر ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی متعدد مقامات ہیں ، جنہیں دیکھنے کے لیے مقامی وغیر مقامی سیاح دنیا بھر سے آتے ہیں تاکہ اس قدیم تہذیب کا قریب سے مشاہدہ کریں جو اس دھر تی میں آٹھ صدیوں تک حاکم رہی۔

اندلس کا زوال

اسلامی مملکت اندلس میں ایک زمانہ ایسا بھی  آیا جب وہ اپنے اتحاد ،یکجہتی  اور خوشحالی کی عظمت اور عروج پر پہنچی اورجہاں معاشی خوشحالی ،معاشرتی انصاف ،علمی ترقی عام ہوئی اور مدارس اور کتاب خانے کثیر تعداد میں قائم ہوئنے۔نیز دنیا بھر سے لوگ تجارت ،سیاحت اور حصول علم کے مقاصد لے کر اس کی طرف آئے ۔(لیکن جس طرح ہر عروج کے لیے زوال بھی ہے) اس عظیم مملکت کے جسم میں بھی بیماری داخل ہونا شروع ہوگئی جس نے  اس کے مختلف حصوں میں جدائی ڈالنا شروع کی۔اور اسطرح گروہی بنیادوں پر اس کے اندر مستقل اور آزاد ریاستیں قائم ہونا شروع ہوئیں۔ یہاں تک کہ یہ عظیم مملکت21 چھوٹی چھوٹی اور کمزور امارتوں میں تقسیم ہوگئی اورپھر بہت جلد ہی ان امارتوں کے درمیان جھگڑے اور تنازعات پیداہوگئے جن کی وجہ سے وہ اتنی کمزور ہوگئیں کہ اپنا دفاع کرنے کے قابل بھی نہ رہیں۔

اس افسوس ناک حالات میں  ملک کے امراء اور حکمران لہوولعب اور عیاشیوں میں مشغول ہوگئے جس کی وجہ سے ریاست پر ان کی گرفت کمزور پڑگئی۔اس طرح موقع کی تاک میں بیٹھے ہسپانوی رہنماؤں کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملا۔چنانچہ انہوں نے طلیطلہ شہر پر حملہ کیا اور سن 1085 ء میں اسے بادشاہ فریڈینیڈ اول کے زیراثر لانے میں کامیاب ہوگئے۔اس کے بعدمسلمانوں کو  یکے بعد دیگرے مسلسل دھچکوں اور شکستوں کا سامنا کرنا پڑا،یہاں تک کہ مسلمانوں کے پاس غرناطہ کے علاوہ کوئی بھی ریاست نہ بچی۔

بالآخر 2 جنوری سن 1492ء بمطابق سن 897 ہجری کو ہسپانوی بادشاہ فرڈینیڈااور اسابیلا نے مسلمانوں کی آخری ریاست غرناطہ کا بھی محاصرہ کیا۔جس کے نتیجے میں مسلمانوں کا آخری حکمران ابو عبداللہ الصغیر بھی ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوا۔ اور یوں اس جزیرہ نمائے ایبیریا میں آٹھ صدیوں تک حکمرانی کرنے والے اسلامی دور کا خاتمہ ہوگیا۔