- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


سالار کربلا زینب کبری(سلام اللہ علیہا)
10 رجب 1443هـ

مختلف حالات و واقعات کا سامنا بہادری، دیانت داری اور امانت داری کے ساتھ صرف مرد ہی نہیں کرتا بلکہ خواتین بھی ان صفات کے حامل ہوا کرتی ہیں۔اسلام صرف مردوں کے کردار کو نہیں بلکہ باوقار خواتین کے کردار کوبھی سراہتا ہے۔ اسی لئےاسلام نے ان تمام شخصیات کے کردار کو اجاگر کیا ہے جو انسانی زندگی کے اعلیٰ مقام پر فائز تھیں۔ چونکہ اسلام ایک ایسا دین ہے کہ ہر با کمال کے کمالات کو اجاگر کرتا ہے۔ اسلام نے ان ممتاز خواتین کی سیرت و حیات پر روشنی ڈالی ہے جنہوں نے الہی راہ میں اہم کردار اور عظیم خدمات انجام دیں۔ وہ خواتین جنھوں نے اسلام کی راہ میں انتھک کوششیں کیں ان میں حضرت خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد، علیھما السلام وغیرہ ہیں۔

تاریخ اسلام ہمیں ایک اور مثالی اور عظیم المرتبت خاتون کی طرف متوجہ کرتی ہے،جس نے اپنے عظیم کردار، غیر معمولی صبر، قوت برداشت اور فصاحت وبلاغت کے ذریعے لوگوں کو حیران کر دیا۔ اس عظیم خاتون کا نام حضرت زینب سلام اللہ علیہا ہے۔ آپ سلام اللہ علیہا حضرت امام علی بن ابی طالب علیہ السلام کی صاحبزادی، نبوت کے گھرانے کی تربیت یافتہ مثالی خاتون ہے۔

زینب کبری کون؟

حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا امام علی بن ابی طالب علیہ السلام اورحضرت رسول گرامی قدر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دختر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی بیٹی ہے۔آپ (سلام اللہ علیھا )کی ولادت باسعادت 5 /پانچ جمادی الاولی چھے ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔ آپ علی اور فاطمہ سلام اللہ علیہما کی پہلی بیٹی تھی۔

آپ کے شرف کے لئے اتنا کافی ہے کہ جس گھر میں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی ، جس چاردیواری اور گھر کے اندر آپ کی پرورش اور تربیت ہوئی ،وہ گھر علی مرتضی اور فاطمہ زہرا کا گھر ہے ۔یہ گھر ہرگز عام گھروں کی طرح نہیں بلکہ ا س گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم اور ان کی آل پر کثرت سے رحمت نازل ہوتی رہی۔حضرت زینب  نے چار سال تک ختمی مرتبت سے تربیت حاصل کی اس طرح آپ نے تین عظیم ہستیوں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، علی اور فاطمہ (علیہما السلام) کی گود میں پرورش پائی۔ بعد ازاں اپنے دو بھائیوں حسن اور حسین علیہما السلام کے ساے میں رہی۔ ان کی تربیت و پرورش کی تاریخ و فضا کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے حضرت زینب خاندان نبوت کی تربیت یافتہ اور بلند مقام و مرتبہ رکھنے والی خاتون ہے۔

شادی:

جب حضرت زینب سلام اللہ علیہا سن بلوغت کو پہنچی تو بہت سے لوگوں نے خواسگاری کا اظہار کیا ۔ان خواستگاروں میں آپ کے چچا زاد بھائی جناب عبداللہ بن جعفر طیار بھی شامل تھے۔ آپ کے والد گرامی حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام نے حضرت عبد اللہ کو باقی سب خواستگاروں پر ترجیح دی۔چنانچہ آپ نےحضرت زینب کی شادی ان کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت محمدسلام اللہ علیھما کے مہر کے مساوی مہر کے ساتھ کر دی ۔جناب عبداللہ علیہ السلام سے دو بیٹے عون اور محمد پیدا ہوئےاور دونوں شہزادے کربلا کے واقعے میں وقت کے امام اور حضرت زینب کے بھائی اور ماموں امام حسین بن علی بن ابی طالب علیہ السلام کے ساتھ شہید ہو گئے۔حضرت زینب سلام اللہ علیہا اپنے شوہر نامدار جناب عبداللہ بن جعفر علیہ السلام کی اجازت اور رضامندی کے ساتھ اپنے بھائی اور وقت کے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ کربلا کے قافلے میں شامل ہوئیں اور خواتین کی رہنمائی اور سرداری کرتی رہی ۔

ام المصائب

سیدہ زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کے کئی القابات ہیں۔ جن میں حوراء، عقیلہ، عالمہ غیرمعلمہ، محفظہ امامت اور صابرہ وغیرہ ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف کنیات بھی ہیں لیکن آپ کی ایک کنیت ایسی ہے جو تمام القابات و کنیات کو احاطہ کرتی ہے اور وہ کنیت "ام المصائب" ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے ہاشمی اور علوی خاندان کی تمام تر مشکلات اور مصیبتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ جب حضرت زینب چار سال کی تھی اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات سے یہ مصیبتیں شروع ہوئیں۔ انھوں نے اپنی والدہ ماجدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی مصیبتوں اور ان پر گزرے ہوے دردناک مظالم کواپنی آنکھوں سےمشاہدہ کیا ۔ انھوں نے اپنے والد ماجد علی بن ابی طالب علیہ السلام کی شہادت،اسی طرح معاویہ بن ابی سفیان کی کی سازش اور حکم پر اپنے بھائی امام حسن بن علی علیہ السلام کوزہر دے کر شہید ہوتے دیکھا۔ سب سے بڑی مصیبت جس نے ان کو اور ان کی زندگی کو سخت ہلا کر رکھ دیا وہ بھائی حسین بن علی علیہما السلام کی شہادت تھی، امام کی شہادت عظمی کے بعد خاندان اہلبیت کی عورتوں اور بچوں کو کوفہ کی طرف اسیر کر کے لے گئے۔ ان پر بازار کوفہ، عبید اللہ بن زیادکے دربار ،پھر سفر شام ، بازار شام اور دربار شام کی مصیبتیں تھیں۔

کربلا کا واقعہ:

معاویہ نے امام حسن علیہ السلا م کے ساتھ طے پانے والے معاہدہ اور صلح کی شرائط اور وعدے کی خلاف ورزی کر کے اپنی موت کے بعد اپنے بیٹے یزید کو مسلمانوں کا خلیفہ مقرر کرنے کا اعلان اور وصیت کی ۔صلح نامے میں یہ شرط اور بات تھی کہ معاویہ کی موت کے بعد خلافت امام حسن کو یا ان کے بھائی حسین علیہ السلام کی طرف منتقل ہوگا۔ کیونکہ یزید میں ملت اسلامیہ کی قیادت کرنے کی اہلیت بالکل بھی نہیں تھی۔ تاریخ کی گواہی کے مطابق وہ فاسق شخص تھا۔وہ تفریح اور عیش و عشرت کا دلدادہ تھا۔ وہ ہر وقت بے حیائی اور فسادات میں مبتلا رہتا تھا۔

اسلامی نظام ، اسلامی امور اور اسلامی معاملات و قوانین کو سنبھالنے کے لیے کسی ایسے شخص کی ضرورت تھی جو تمام زاویوں سے مکمل اور باصلاحیت اور اہلیت رکھتا ہو۔ یزید میں ایسی خصوصیات با لکل بھی نہیں تھیں۔اس کی حکومت کا آغاز ہی ناانصافی، فساد ، ظلم و زیادتی ،اسلامی اقدار و اصولوں کے خلاف بیت المال کی اجارہ داری اور اہل بیت اور ان کے پیروکاروں پر ظلم و ستم سے ہواتھا یہی وجہ تھی کہ امام حسین علیہ السلام نےاصلاح امت اور شریعت محمدی کی حفاظت کے لئے قیام کرنے کا اعلان فرمایا۔

حضرت امام حُسین علیہ السلام کےمطالبے جائز اور حق پرمبنی تھے۔ اقتدار و حکمرانی کی خواہش سے کوسوں دور تھے۔ امام عالی مقام کےقیام کا مقصد اپنےنانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی امت کی اصلاح تھا۔ امام عالی مقام نےقیام کے مقصد کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ:

"انّى لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا، وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا، وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الإصْلاحِ في أُمَّةِ جَدّي، أُريدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهى عَنِ الْمُنْكَر، وَأَسيرَ بِسيرَةِ جَدّي وَأَبي عَلِيّ بْنِ أَبي طالِب".

ترجمہ: "میں طغیانی و سرکشی، عداوت، فساد برپاکرنے اور ظلم کرنے کے لیے مدینہ سے نہیں نکلا۔میں فقط اور فقط اپنے نانا کی امت کی اصلاح کرنے کے لیے نکلا ہوں۔ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں اور میں اپنے نانا اور اپنے والد علی ابن ابی طالب(ع) کی سیرت پر عمل کرنا چاہتا ہوں۔"

حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے خاندان کے ایک گروہ کے ساتھ کوفہ تشریف لے گئےجہاں کے لوگوں نے آپ کو بہت سارے خطوط اور بہت سی درخواستیں بیجھی تھیں اور کوفہ آنے کی دعوت دی تھی ۔ لیکن یزید بن معاویہ نےرکاوٹ ڈالنے کے لئے ایک بڑا لشکر تیار کیا تھا جس کی نگرانی کوفہ میں اس کا گورنر عبید اللہ بن زیاد نےکی اور عمر بن سعد کواس کی قیادت سونپ دی گئی۔

واقعہ کربلا دس محرم سنہ 61 ہجری کو پیش آیا اور یہ جنگ یزید کے لشکر اور حسین علیہ السلام کے پیروکاروں کے درمیان ہوئی۔سازوسامان اور تعداد کے لحاظ سے یہ غیر مساوی جنگ تھی جس کے نتیجے میں امام حسین علیہ السلام اور ان کے تمام اصحاب کی شہادت ہوئی۔ عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا کر کوفہ پھر شام لے جایا گیا اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا بھی ان قیدیوں میں شامل تھی۔

کوفہ میں آپ کا خطبہ:

جب اسیروں کے قافلے کو کوفہ کی طرف لے کر گئے تو اس وقت لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی صاحبزادیوں کی حالت کر رونے اور گریہ کرنے لگے۔یہ نبی زادیاں اسیر تھیں اور ان کے ساتھ علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام تھے ۔ عبید اللہ بن زیاد نے فخر و غرور وتکبر کے ساتھ کہا اللہ کا شکر ہے کہ جس نے تمھارے لوگوں کو قتل کیا اور جو کچھ کہہ رہے تھے سب کو جھٹلادیا۔ اس ظالم کی بات سنتے ہی علی کی شیر دل بیٹی جناب زینب علیہا السلام کھڑی ہوئی اور علی کے لہجے میں خطبہ ارشاد فرمایا:

"الحمد لله والصلاة على محمد وآله الطيبين الأخيار أما بعد: يا أهل الكوفة يا أهل الختل والغدر، أتبكون؟ فلا رَقأَت الدمعة، ولا هدأت الرنّة، إنما مثلكم كمثل التي نقضت غزلها من بعد قوة أنكاثا، تتخذون أيمانكم دخلاً بينكم، ألا وهل فيكم الا الصلف النطف، والصدر الشَنِف، وملق الإماء وغمز الأعداء، أو كمرعى على دمنة، أو كفضة على ملحودة؟ ألا ساء ما قدمت لكم أنفسكم أن سخط الله عليكم وفي العذاب أنتم خالدون.

أتبكون وتنتحبون؟ أي والله، فابكوا كثيرا واضحكوا قليلا، فلقد ذهبتم بهارها وشنارها، ولن ترحضوها بغسل بعدها أبدا، وأنى ترحضون قتل سليل خاتم النبوة؟ ومعدن الرسالة، وسيد شباب أهل الجنة، وملاذ خيرتكم، ومفزع نازلتكم، ومنار حجتكم، ومدرة سنتكم؟ ألا ساء ما تزرون، وبعدا لكم وسحقا، فلقد خاب السعي، وتبت الأيدي، وخسرت الصفقة، وبؤتم بغضب من الله، وضُربت عليكم الذلة والمسكنة، ويلكم يا أهل الكوفة! أتدرون أي كبد لرسول الله فريتم؟ وأي كريمة له أبرزتم؟ وأي دم له سفكتم؟ وأي حرمة له هتكتم؟ لقد جئتم بها صلعاء عنقاء، سوداء فقماء، خرقاء شوهاء، كطلاع الأرض وملء السماء، أفعجبتم أن مطرت السماء دما، ولعذاب الآخرة أخزى، وأنتم لا تُنصرون، فلا يستخفنكم المهل، فإنه لا يحفزه البدار، ولا يخاف فوت الثأر، وإن ربكم لبالمرصاد".

ترجمہ:" تمام تعريفيں اللہ کے لئے ہيں اور درود و سلام ہو ميرے نانا محمد (ص) پر اور ان کی طيب و طاہر اور نيک و پاک اولاد پر۔ اما بعد! اے اہلِ کوفہ! اے اہل مکروفريب ! کيا اب تم روتے ہو؟ (خدا کرے) تمھارے آنسو کبھی خشک نہ ہوں اور تمھاری آہ و فغان کبھی بند نہ ہو! تمھاری مثال اس عورت جیسی ہے جس نے بڑی محنت و جانفشانی سے محکم ڈوری بنتی اور پھر خود ہی اسے کھول کر اپنی محنت پر پانی پھیر دیتی ہے۔تم (منافقانہ طور پر) ایسی جھوٹی قسمیں کھاتے ہو، جن میں کوئی صداقت نہیں۔ تم جتنے بھی ہو، سب کے سب بیہودہ گو!ڈینگ مارنے والے! پیکرِ فسق و فجور ، کینہ پرور اور لونڈیوں کی طرح جھوٹے چاپلوس اور دشمنی کی غماز ہو۔ تمھاری یہ کیفیت ہے جیسے کثافت کی جگہ سبزی یا اس چاندی جیسی ہے جو دفن شدہ عورت (کی قبر) پر رکھی جائے۔ آگاہ رہو! تم نے بہت ہی برے اعمال کا ارتکاب کیا ہے۔ جس کی وجہ سے خدا وند عالم تم  لوگوں پر غضب ناک ہے۔ اس لئے تم اس کے ابدی عذاب و عتاب میں گرفتار ہو گئے۔ اب کیوں گریہ و بکا کرتے ہو؟ ہاں بخدا تم لوگ اس کے سزاوار ہیں کہ  زیادہ رویے اور کم ہنسے۔ تم لوگ امام علیہ السلام کے قتل کی سزا و سازش میں گرفتار ہو چکے ہیں اور تم لوگ اس دھبے کو کبھی دھو نہیں سکتے ۔ بھلا تم خاتم نبوت اور معدن رسالت کے  فرزند اور جوانان جنت کے سردار، جنگ میں اپنے پشت پناہ، مصیبت میں جائے پناہ، منارہ حجت اور عالم سنت کے قتل کے الزام سے کیونکر بری ہو سکتے ہیں!لعنت ہو اور ہلاکت ہے تمہارے لئے۔ تم لوگوں نے بہت برے کام کا ارتکاب کیا ہے اور آخرت کے لئے بہت برے عذاب کا ذخیرہ کیا ہے۔ تمھاری کوشش رائیگاں ہو گئی اورتم لوگ برباد ہو گئے۔ تمہاری تجارت خسارے میں رہی اور تم لوگ خدا کے غضب کا شکار ہو گئے۔ تم لوگ ذلت و رسوائی میں مبتلا ہوئے۔ افسوس ہے اے اہل کوفہ تم لوگوں پر، کچھ جانتے بھی ہو کہ تم لوگوں نے رسول (ص) کے کس جگر کو پارہ پارہ کر دیا؟ اور ان کا کون سا خون بہایا؟ اور ان کی کون سی ہتک حرمت کی؟ اور ان کی کن مستورات کو بے پردہ کیا؟ تم نے ایسے اعمال شنیعہ کا ارتکاب کیا ہے کہ جس سے آسمان گر پڑیں، زمین شگافتہ ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں۔ تم نے قتلِ امام کا بد ترین جرم کیا ہے جو وسعت میں آسمان و زمین کے برابر ہے۔ اگر اس قدر بڑے جرم پر آسمان سے خون برسا ہے تو تم تعجب کیوں کرتے ہو؟ یقیناً آخرت کا عذاب اس سے زیادہ سخت اور رسوا کن ہوگا۔ اس وقت تمہاری کوئی امداد نہ کی جائے گی۔ تمہیں جو مہلت ملی ہے اس سے خوش نہ ہو۔ کیونکہ خداوندِ عالم بدلہ لینے میں جلدی نہیں کرتا کیونکہ اسے انتقام کا وقت ختم ہو جانے کا خدشہ نہیں ہے۔ ”یقیناً تمہارا خدا اپنے نا فرمان بندوں کی گھات میں ہے"

 شام میں آپ کےخطبوں کا خلاصہ:

جب ان اسیروں کو شام میں یزید بن معاویہ کے دربار میں لے گئے تو اس وقت یزید فتح و خوشی اور سرور کے عالم میں تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے خاندان کی اس حالت پر خوش ہورہا تھاجو اس وقت اسیرہو کر اس کے سامنے موجود تھے۔ وقت کے امام امام علی بن الحسین علیہ السلام اس وقت دربار میں ایک خطیب کے طور پر کھڑے ہوئے۔چنانچہ آپ علیہ السلام نے نہایت بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا آپ کے فورا بعد جناب زینب اٹھی، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا فرمائی چنانچہ بشیر بن خزیم کی روایت کے مطا بق پھرآپ نے فرمایا :

"أظنَنْتَ یا یزید حیث أخَذتَ علینا أقطار الأرض وآفاق السماء، فأصبَحنا نُساق كما تُساق الأُسارى، أنّ بنا على الله هَواناً وبك علیه كرامة؟! وأنّ ذلك لِعِظَم خَطَرِك عنده! فشَمَختَ بأنفِك، ونظرتَ فی عِطفِك، جَذلانَ مسروراً، حین رأیت الدنیا لك مُستَوسِقة، والأمورَ مُتَّسِقة، وحین صفا لك مُلكنا وسلطاننا. مهلاً مهلا! أنَسِیتَ قول الله تعالى: ولا یحسَبنَّ الذین كفروا أنّما نُملی لَهُم خیرٌ لأنفسِهِم، إنّما نُملی لَهُم لیزدادوا إثماً ولهم عذابٌ مُهین؟! أمِن العدلِ، یا ابنَ الطُّلَقاء، تخدیرُك حَرائرَكَ وإماءَك وسَوقُك بناتِ رسول الله سبایا قد هُتِكت سُتورُهنّ، وأُبدِیت وجوهُهنّ؟! تَحْدُو بهنّ الأعداء من بلدٍ إلى بلد، ویستشرفهنّ أهلُ المناهل والمناقل، ویتصفّح وجوهَهنّ القریب والبعید والدنی والشریف! لیس معهنّ مِن رجالهنّ وَلی، ولا مِن حُماتِهنّ حَمِی، وكیف یرتجى مراقبةُ مَن لفَظَ فُوهُ أكبادَ الأزكیاء، ونَبَت لحمه بدماء الشهداء؟! وكیف یستبطئ فی بُغضنا أهلَ البیت مَن نظرَ إلینا بالشَّنَف والشَّنآن، والإحَن والأضغان؟".

ترجمہ:" اے یزید! کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے(مختلف طرح سے)تنگ کر دیا ہے اور آلِ رسول کو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرفراز ہوا اور ہم رسوا ہوئے ہیں؟۔ کیا تیرے خیال میں ہم مظلوم ہو کر ذلیل ہو گئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے؟۔ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کی بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟۔ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے ، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر تکبر کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔ اور خلافت کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے ۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور ہوش کی سانس لے ۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے انہیں جو مہلت دی ہے وہ ان کے لئے بہتر ہے ۔ بلکہ ہم نے انہیں اس لئے ڈھیل دے رکھی ہے کہ جی بھر کر اپنے گناہوں میں اضافہ کر لیں ۔ اور ان کے لئے خوفناک عذاب معین کیا جا چکا ہے ۔ اے طلقاءکے بیٹے (آزاد کردہ غلاموں کی اولاد) کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں بٹها رکھا ہوا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے ۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا ۔ تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا ۔ تیرے حکم پر خدا کے دشمنوں نے اہل بیت رسول کی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے ۔ اورلوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے سب لوگ ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں۔ ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بی بیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں ۔آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں۔ آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے ۔

اس شخص سے بھلائی کی کیا توقع ہو سکتی ہے جس کی ماں (یزید کی دادی) نے پاکیزہ لوگوں کے جگر کو چبایا هو۔ اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس نے شہیدوں کا خون پی رکها ہو۔ وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت(علیهم السلام) پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہے ؟"

آپ کی وفات اور مقام دفن

آپ کی وفات کے سال اور تدفین کے مقام کے بارے میں مورخین کا اختلاف ہے۔ لیکن غالب قول یہ ہے کہ ان کی وفات سنہ 62 ہجری میں ہوئی، یعنی واقعہ کربلا کے ایک سال بعد ہوئی۔جہاں تک ان کی تدفین کا تعلق ہے تو بعض نے کہا کہ انھیں اس خوف سے کہ لوگ ان کی وجہ سے حکومت خلاف ہو جائیں گے یزید کے حکم سے مدینہ سے نکال دیا گیا تھا۔اس لیے آپ نے مصر کا انتخاب کیا۔

آپ تقریباً ایک سال تک وہاں رہیں۔ پھر وہیں فوت ہوئیں اور وہیں دفن ہوئیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ ان کا شوہر جنا ب عبداللہ بن جعفر طیار انھیں شام لے گیاجہاں رہنے کے لیے کچھ اراضی ان کی ملکیت میں تھی پھر وہیں وفات پا گئیں اور جس جگہ ان کی موجودہ قبر دمشق میں ہے وہیں مدفون ہوئی، جہاں دنیا سے ہر سال ہزاروں زائرین آتے ہیں۔حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام اور جناب صدیقہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی صاحبزادی حضرت زینب سلام اللہ علیہا ایک خاتون تھی مگردوسری عام عورتوں کی طرح نہیں تھی، انہوں نے وہ بوجھ اٹھایا جسے دوسری خواتین برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔ وہ صبرو تحمل کابہترین نمونہ تھیں۔ آپ عظمت کے مقام پر کیوں نہ فائز ہو کیونکہ آپ علی ابن ابی طالب اور صدیقہ فاطمہ زہراء کی شیر دل بیٹی تھی جن سے وراثت میں انھیں صبر، شائستگی، فصاحت ملی۔ آپ ان دونوں ہستیوں اور نمونوں (علی و بتول) کی پربرکت نمونہ بن کر ابھری ہے۔ ان پر سلام ہو، جس دن وہ پیدا ہوئی، جس دن وفات پائی ، اور جس دن وہ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے۔