- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


ام البنین سلام اللہ علیھا: چار خوبصورت بیٹوں کی ماں
17 رجب 1443هـ

حضرت ام البنیں کا نام فاطمہ بنت حزام بن خالد ربیعہ بن کلابیہ ہے۔ آپ کا تعلق شجاعت، پاکیزہ اور سخاوت میں مشہور قبیلے سے تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشیں حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام نے حضرت  فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی شہادت کے بعد اپنے بھائی عقیل جو کہ عرب کے مشہور نسب شناس تھے سے مشورہ کرنے کے بعد  فاطمہ بنت حزام کلابیہ سے شادی کی۔

امام علی  علیہ السلام نے اپنے بھائی جناب عقیل کے ذمے لگایا کہ وہ آپ علیہ السلام کے لیے ایسی زوجہ تلاش کریں جس سے عرب کے بہادر بیٹے پیدا ہو جائیں، جو روز عاشورا نواسہ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم، امام برحق حضرت امام حسین علیہ السلام کی مدد کرسکے۔ جناب عقیل رضوان اللہ تعالی علیہ نے فاطمہ بنت حزام کا نام تجویز کرتے ہوئے کہا کہ عربوں میں بنی کلاب کے مردوں جیسا کوئی  شجاع اور دلیر مرد نہیں ہے۔ یوں حضرت علی علیہ السلام نے جناب ِ فاطمہ بنت حزام سلام اللہ علیہا  سے شادی کی۔

آپ کی تربیت اور پرورش:

جناب فاطمہ بنت حزام رضوان اللہ علیہا کی ولادت صحیح تر ین روایات کے مطابق پانچ ہجری میں ہوئی، آپ سلام اللہ علیھا کی پرورش ایسے گھر کے ماحول میں ہوئی جہاں شجاعت و فراست وفا و کرم علم و ادب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیر المومنین علی علیہ السلام کی محبت سے منور تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ سلام اللہ علیھا میں اخلاقی اقدار اور زیبا ترین صفات موجود تھیں، اس طرح آپ بہترین اخلاق پاک دل اور شفاف نفس کی مالکہ تھیں، جب آپ سلام اللہ علیھا کی شادی حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ ہوئی تو آپ کے عمدہ کمالات وفضائل میں مزید اضافہ ہوا اور تعریف کرنے والے تعریف کرنے سے عاجز رہیں۔

چار خوبصورت بیٹوں کی ماں:

ام البنین سلام اللہ علیھا کو اللہ نے چار فرزندِ شجاع حضرت عباس ،جعفر ، عبداللہ اور عثمان عطا کئے  یہ چاروں شجاع فرزند  دس محرم الحرام کو واقعہ کربلا میں اپنے بھائی حضرت  امام حسین علیہ السلام کی نصرت کرتے ہوئے  شہادت کے اعلی منزل پر فائز ہوئے۔

جناب ام البنین سلام اللہ علیہا واقعہ کربلا میں موجود تونہیں تھیں لیکن آپ سلام اللہ علیہا کے چاروں وفادار بیٹوں نے حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کی مدد کی۔ آپ سلام اللہ علیہا کے فرزندوں میں  سب سے بڑا ابوالفضل العباس علیہ السلام تھے۔ حضرت عباس علیہ السلام عاشورہ کے دن امام حسین علیہ السلام کی فوج کے علمبردار تھے۔ آپ علیہ السلام کو دین اسلام کی دفاع اور امام ِ وقت حضرت امام حسین علیہ السلام کی نصرت کرنے کا شرف حاصل رہا اور آپ علیہ السلام خیام حسینی کے پیاسوں کو پانی لانے کی اس وقت کوشش کی جب یزیدی لشکر نے ہر  طرف سے پانی بند کیا تھا ق۔

واقعہ کربلا کے بعد:

جب بشیر بن جذلم نے مدینے میں ام البنین سلام اللہ علیھا کے بیٹوں کی شہادت کی خبر دی تو آپ سلام اللہ علیھا نے اپنے بیٹوں کی شہادت  کی خبر سنتے ہی پہلا سوال امام حسین علیہ السلام کے بارے میں کیا اور امام عالی مقام کی  شہادت کی خبر دینے والے بشیر بن حذلم سے فرمایا: اے بشیر ؛ تو نے میرے دل کی رگ کو کاٹ دیا ہے میری اولاد اور اس کائنات کی ہر شی  قربان  ہو ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام پر، آپ  مجھے حسین علیہ السلام کے بارے میں بتا دو۔

جناب سیدہ ام البنین سلام اللہ علیہا فرمانبردار، نیک اور صالح بیوی ہونے کے ساتھ دیگر عورتوں کے لیے اسوہ تھیں، آپ اپنے شوہر نامدار امیر المومنین علی علیہ السلام ، جناب حسن و حسین و زینب علیہم السلام (جو کہ اولاد فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا ہیں)  کے ساتھ نہایت محبت اور احترام سے پیش آتی تھیں۔ آپ علیھا السلام اپنے بیٹوں سے زیادہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی اولاد پر مہربان تھیں، یہ وہی عظیم خاتون ہے جس نے اپنے شوہر نامدار حضرت علی علیہ السلام سے گزارش کی کہ وہ اسے فاطمہ کے نام سے  نہ پکاریں کہیں یا فاطمہ کہہ کر پکارنے پر فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے بچے غمگین نہ ہو جائیں اس لیے آپ سلام اللہ علیھا نے یہ التماس کی تھی  کہ آپ علیہ السلام انہیں ام البنین کہہ کر پکاریں اور امیر المومنین علی علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔

آپ سلام اللہ علیہا کے مصائب:

جناب سیدہ ام البنین سلام اللہ علیہا نے بہت سے مصائب اور دکھوں کا مقابلہ کیا ۔ سب سے پہلی مصیبت آپ  کا شوہر نامدار امام علی بن ابی طالب علیہ السلام کی شہادت کی صورت میں ملی،اس کے بعد دوسری مصیبت معاویہ کی سازش سے حضرت امام حسن مجتبیٰ بن علی علیہما السلام کی شہادت ہوئی، اور سب سے سخت ترین مصیبت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے بیٹوں کی شہادت کی مصیبت تھی، یہ ایسی مصیبت تھی کہ جس نے آپ کے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور آپ کے آرام کو چھین لیا ۔

آپ سلام اللہ علیہا کی وفات:

آپ کی وفات تیرہ  جمادی الثانی سنہ پینسٹھ( 65)ہجری کو 59سال کی عمر میں ہوئی،اور بعض روایات کے مطابق جب آپ نے جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ سلام اللہ علیہا کے چار بیٹوں کے کربلا میں شہید کرنے والے ظالم حکمرانوں کی حقیقت لوگوں کے سامنے فاش کیا تو امویوں نے آپ کو زہر دیا اس طرح  آپ شہادت کے مقام پر فائز ہوئی۔آپ سلام اللہ علیہا کو بقیع میں دفن کیا گیا اور آپ س کی قبر پر گنبد بنانا گیا تھا جسے وہابیوں  نے مسلمانوں کے میراث اور صالحین کے قبور کے خلاف زیادتی کرتے ہوئے منہدم کیا۔