ايک شاعر ميں بیک وقت خالص اسلامى روح اور وطن کا سچا جذبہ ہو،تو وہ بہتریں ادب تخلیق کرسکتا ہے اور ان دونوں خصوصیات کے ساتھ تخلیق ہونے والے ادب بہتریں ادب شمار ہوتا ہے۔ يہی سب کچھ تركى کے قومى شاعر محمد عاكف ميں اکھٹا ہے اور ان کے اشعار میں اسلام اور قومیت کاجذبہ زیادہ ملتا ہے۔
محمد عاكف کو تركى زبان و ادب ميں ممتاز مقام حاصل ہے۔ زبان و ادب کے ناقدين و مفكرين نےان كو فلسفى شعراء میں شمار کیاہے۔ ان کے بلند ادبى مقام كے باعث حق ركهتے کہ انہيں "عظيم" كا لقب ديا جائے ۔
عاكف نے اپنے اشعار ميں جن مصادر سے استفاده كيا وه اس بات كى ضمانت كيليے كافى ہيں کہ وه اس قدر عظيم مرتبہ پر فائز ہےاور انكا نام تركى ادب كے روشن صفحات پر نمایاں نظرآتا ہے۔ عاکف کا پہلا قیمتی ماخذ قران كريم ہے جس سے عاكف سن طفوليت سے ہی استفاده كرتے رہے ہیں۔ اسى وجہ سے ان کے اشعار خالص اسلامى روح اور باليده اخلاق سے معمور تهے۔
عاکف 1873 م ميں پیدا ہوئے۔ عفت و پاکدمنى اور اسلام حنيف كى تعليمات سے مزين ماحول ميں انكى پرورش ہوئى انكے والد ترکی کے علماء ميں سے تهے اور وہ تلاوت قرآن ، تدبر قران اور قران كے معانى كی گہرائیوں تک رسائى اور مقاصد قران كريم كو جاننے كے عاشق تهے۔ اس لئے اس نے اپنے بیٹے کو قرآن اور اخلاق کی تعلیم دی۔
جب انكى عمر چودہ برس ہوئى تو انکے والد داغ مفارقت دے گئے۔ ليكن انهوں نے ان تمام مشکلات كا مقابلہ کمالِ صبر کے ساتھ برداشت کیا اس طرح سے انکو بھر پور اعتماد كے ساتھ زندگی گزارنے کا سلیقہ ملا اور ہر میدان میں مضبوط بن گئے اور بنا مایوسی کے صبر کرتے رہے انكے اعضاء ميں مایوسی اور بے بسی کا گزر تک نہ ہوا ۔ پھر وہ اسکول داخل ہوئے جو گھر ۔پہلی تربيت گاہ ۔ کے بعد دوسرا ميدان ہوتا ہے ۔ اور وہيں ان علوم کو تكميل کیا جنكى ابتداء انہوں نے اپنے گھر سے کی تھی
محمد عاكف كى علمى اور ادبى شخصيت ميں ان کے اساتذہ کا کردار بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ عاکف کے حسن سلوك كى وجہ سے اساتذه اور معلمين كى جانب سے حوصلہ افزائى انكى ترقى ميں مزيد اضافے كا باعث بنى۔
عاكف نے اسی لیے کہا ہے (کہ اسکے استاتذہ نے اس میں ايک دلكش روح كو اگایا ہے ) اسی طرح وه بیان كرتا ہے کہ اس نے اپنے اساتذه سے دينى عقيده كى پختگی اور دين و وطن پر ايمان كى مضبوطى كو سيكها ہے ۔انہى دروس نے اسکے اشعار ميں واضح فرق ڈالا يہاں تك کہ وه اشعار کے ذریعہ اسلام كى خدمت كرنے والے صف اول كے مسلم شعراء میں شمار ہونے لگا۔
ان کے اشعار اس اصیل شاعر،اور مفكر كے خوشگوار جهونکوں سے عبارت ہیں. جس نے وحدت مسلمين ، اصلاح اور حق كيلئے اپنے احساسات كو نچوڑ ديا ہو اور اپنی روح كو پگھلا دیا ہو۔
وه اپنے قصيده (رمضان ) ميں کہتا ہے
اے رب ۔۔
تجھے اپنے اس عظيم مہینے کی حرمت كى قسم ..
مسلمانوں كو بچا لے ۔۔
انہیں بچا لے ہر اس ہولناک ضعيفى سے جو انهيں مبتلا تكليف كرے۔
انكى صفوں میں اتحاد پیدا کر ۔۔ اور انكى جمعيت كو پختا تر فرما
اے رب ..
انہيں تفرقہ كے وبال سے بچائے رکھنا ۔۔
پس انہیں اس سبکی سے بچا لینا جو انہيں مايوسى كے دہانے تک لے جائے ۔۔
جب تک تو نے ہميں فولاد كى طرح قوي اور مضبوط روح عطاء كى هے ۔۔
اے رب۔۔
پس ہم پر اتحاد اور باہمى سلامتى كے ٹھنڈے خوشگوار جھونکے نازل فرما
عاكف كے اشعار كا مطالعہ كرنے والا جانتا ہے کہ اسکے اشعار تصوف کے ميلان سے خالى تهے، حالانكہ عرفان اس وقت رائج فكر تهى اور اسى طرح ہر اس خرافات سے پاک تھا جسكا دين سے كوئى ناطہ نہ ہو اور ہر اس شائبہ سے جو مقرره حقائق اور ثابت شده عقائد كو نقصان پہنچا سکتے ہو كيونكہ اسكے نزدیک دين ہى وه تنہا عامل مطلق ہے جو اخلاق كے سہارے بلند ہوتا اور اجتماعى كمال كو پروان چڑھاتا ہے اور اسلامى وحدت تک رسائى اور كلمہ اسلام كى اجتماعيت كا ضامن هے
وه اپنے معروف قصيده مولود ميں کہتا ہے
یہ سرزمين مشرق تاريک و سياه لہروں میں غرق ہو رہى ہے ۔
پھر سے آسمان پر نور پھیلا رہی ہے ۔
تبهى ميں وه فيض عظيم ہے ۔
ميں حيران ہوں اس مخمور صبح سے اے شب دراز ۔
ميں جا رہا ہوں ۔
كيونكہ تم لباده نور اوڑ چکے هو۔
عاكف كو ادارہ الحكمة الاسلامية ميں بطور كاركن تعین كيا گیا تاكہ وه شرعى اجتهاد اور امور دينی كے ميدان ميں مصروف عمل ہو سكيں ۔انہوں نے تركى زبان ميں قران مجيد كا ترجمہ كيا ليكن فرصت نے اس ترجمہ كو نشر ہونے كا موقع نہيں ديا كيونكہ عاكف چاہتے تهے کہ حاشیہ ميں مختصر تفسير كے ساتھ ترجمہ نشر ہو ليكن تركى حكومت نے روك ديا جس پر عاكف نے یہ فيصلہ كيا كہ پھر ترجمہ بهى نشر نہيں ہو گا .جیساکہ مصر میں قیام کے دران انہوں نے جامعہ قاہرہ ميں سعيد باشا حليم كى اسلام كے متعلق كتاب كا ترجمہ كيا۔یہاں یہ بات قابل ذكر ہے کہ عاكف عربى ز بان سے مکمل اور گہری آشنائى ركهتے تهے کیونکہ انهوں نے ابتداء ہی سے عربى زبان اپنے والد سے سيکھی تهى اور وه اسكے علاوه فارسى اور فرانسى زبان بهى خوب جانتے تھے ۔
انہوں نے بہت سارے فارسى اشعار كا تركى زبان ميں ترجمہ كيا اور انہوں نے ايک كتاب اسلامى خاتون لكهى جسكا عربى ترجمہ محمد فريد وجدى نے کیا ۔
جہاں تک ان كا شعرى ثمره ہے تو وه سات ديوان ہيں جن كے مجموعہ كو صفحات كہا جاتا هے اور وه یہ ہيں ، كتاب اول ، كرسي سليمانيه ، حق كى صدائیں ،فاتح كى كرسي ميں ،خواطر ، عاصم ، ظلال ، اور آخرى كا عربى ترجمہ محمد توفيق مصري نے كيا جیساکہ ڈاكٹر عبد الوهاب عزام اور عوضى وكيل نے اسكے بعض اشعار كا ترجمه عربى ميں کیا ۔
عاكف نے انسانى پیغام كو دين اسلامى اور اسكى سہولت بخش مبادئ كے رواج اور وطن كے سچے افكار كى نشر و اشاعت كيليے استعمال كيا وه اسلام كى بالا دستى اور مكارم پر لوگوں کو ابهارنے كيلئے نغمہ لکھتے تھے وه حب الوطنى كى طرف دعوت ديتے اور ايمان كى گہرائیوں سے پھوٹنے والے عظيم جذبے كى راه ميں قربانى كى جانب پکارتے تھے ۔کیونکہ اجداد و بزرگان كى زمين تقدس اور تعمير كا حق رکھتی ہے۔ اسكى مثالى حب الوطنى پر اسكے ان دو شاہکار قصيدوں سے بہتر كوئى اور دليل نہيں جو تركى ادب كى جبين كا جهومر ہيں۔ پہلا استقلال كا ترانہ اور دوسرا قلعہ كى منجنيق ہے ۔
پہلا قصيده انكے عظيم قصيدوں ميں سر فہرست ہے جس پر ہر تركى فخر كرتا ہے۔ انہیں اس ترانہ پر نفيس انعام بهى پیش كيا گیا تھاليكن انہوں نے محبت وطن اور وطنى حقوق كى ادائيگی کی خاطر لينے سے انكار كر ديا ۔
وه اپنے شہیر ترانہ ميں یوں کہتا ہے ۔
تو نہ ڈرنا، كيونكہ لہراتا ہوا پرچم سراپا شفق(قبل از غروب سورج كى سرخى) هے
جو اس وقت تک سرد نہيں ہوتی کہ جب تک وطن میں آخرى آگ لگانے والا نہ بجھ جائے۔
يہ پرچم مرى امت كا ستاره هے جو عنقريب جگمگائے گا ۔
ہاں یہی میرا پرچم ہے ۔بس مرى امت كا پرچم۔
اے مری امت کے پرچم سمٹ نہ جانا ..
ميں تم پر اپنی جان فداء كر دونگا ۔۔
اور تيرى قربانى بن جاونگا ۔۔
ہمارى اس ملموس كاوش كى خاطر مسكرا دے ۔۔
نہ يہ تسليم و سرنگونی اور تمنا .
اور نہ یہ كمزورى اور شدت ..
جب ترى راه ميں مقدس خون بہایا جائے گا تو استقلال تيرا حق آشكار ہو گا ۔
بلا شبہ عاكف حريت كا عاشق تها اور اسكا باطن ميں وطنيت پر ايمان اور سيادت كى تقديس اور شهداء، مردان ميدان اورملت كى تعظيم و تجليل سے بهرا ہوا تها .
جيسا كہ اسكے اشعا کا خاص ہى رنگ تها .وه گونجتى ہوئى دعوت تهے اسلامى وحدت اور حقوق مسلمانان كے دفاع كى .يہاں تك كہ انہيں شاعر اسلام سے جانا جاتا ہے ۔ محمد عاکف کی وفات 1939 کو استنبول ميں ہوئی ۔