- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


صاحب المیزان اور فلسفہ رواقی ۔ ۔ ۔ علامہ سید محمد حسین الطباطبائی
13 شوال 1443هـ

مشہور و معروف فیلسوف و مفسر محمد حسین طباطبائی ، صاحب المیزان ۲۹ ذی الحجہ ۱۳۲۱ھ بمطابق ۱۹۰۳ ایران کے شمال مغربی صوبے آذربائیجان کے شہر تبریز میں پیدا ہوئے ۔ آپ کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے امام حسن مجتبی علیہ السلام اور والدہ کی جانب سے امام حسین علیہ السلام سےملتا ہے ۔ اسی وجہ سے آپ دونوں طرف سے جنت کے دونوں سرداروں کے فرزند ہونے کا شرف پاتے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ آپ سلسلہ جلیلہ سادات کے ایک ایسے چشمہ سار سے جاری ہوتے ہیں جو فضیلت وکمال اور سرداری میں مشہور  ہونے کے ساتھ ادب و تقوی میں بھی مایہ ناز خاندان کہلاتا ہے ، ان کے آباء و اجداد میں چودہ پشتوں تک سب علم و فضل کے بڑے بلند پایہ علماء گزرے ہیں ۔ علامہ طباطبائی کی عمر ابھی پانچ سال مکمل نہیں ہوئے تھے کہ آپ کی والدہ کا انتقال ہوگیا اور ابھی نو سال کی عمر کے ہوئے تھے کہ والد بھی داغ مفارقت دے گئے۔ یوں آپ بچپن میں ہی یتیم ہوگئے لیکن اس یتیمی سے سید محمد حسین طباطبائی کے خصوصیات پر  سختی اور پریشانی غالب نہ آسکی۔ بلکہ اس کے برعکس سید محمد حسین طباطبائی ہمت و حوصلہ کے ساتھ اپنی زندگی کے سفر  پر گامزن رہے اور ان کے خاندان کے فاضل ہاتھوں نے فورا علامہ کو اپنی سرپرستی میں لے لیا اور ان کے درس و تعلیم  خصوصا قرآن کی تعلیم اور دوسرے دینی علوم کو سکھانے کا انتظام کیا اسی طرح عربی اور فارسی زبان و ادب کے سکھانے کی ذمہ داری ان کے خاندان کے عالم و فاضل افراد نے لے لی ۔

علامہ طباطبائی نے ۱۳۴۳ ھ بمطابق ۱۹۲۴ کو اعلی تعلیم کے لئے دروازہ علم  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی بارگاہ میں شرفیاب ہونے کے لئے نجف اشرف کی جانب ہجرت کی ،اور نجف اشرف میں تقریبا ۱۱ سال مقیم رہے اور دینی علوم کو مکمل کر کے  مرتبہ اجتہاد تک پہنچ گئے ۔ نجف اشرف میں آپ نے بڑے اکابر فقہاء کے حضور زانوئے تلمذ تہ کیا کہ جن میں میرزا نائینی، اصفہانی ، کمپانی،بادکوبی، شیخ عباس قمی، سید بروجردی، کوہکمری، خوانساری، سید علی قاضی اور سید ابو الحسن جلوہ  جیسے بزرگان تھے اور ہجرت کے بارہ سال بعد یعنی ۱۳۵۳ھ بمطابق ۱۹۳۴   کو  آپ اپنے آبائی شہر تبریز واپس آئے  تاکہ اپنے ہی شہر میں ایک مذہبی استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کریں۔ علامہ طباطبائی کے اپنے خاص اور واضح مواقف تھے خاص طور سے صفوی اور عثمانی حکومتوں کی چپقلشوں کے دوران ۔ لیکن چونکہ عثمانی حکمران "سلیم " علامہ کے موقف کو نہ سمجھ سکا جس کی وجہ سے اس نے علامہ طباطبائی کو جیل میں ڈال دیا ۔ جب اس کا بیٹا سلیمان تخت اقتدار پر آیا تو اس نے علامہ طباطبائی کو قید سے آزاد کردیا ،اس نے علامہ کا بڑا احترام و اکرام کیا اور اپنے باپ کی طرف سے ہونے والی ناانصافی کی معذرت خواہی بھی کی ۔

علامہ طباطبائی نے سید مہدوی کی بیٹی سے شادی کی جو علویہ قمر السادات کے لقب سے معروف تھیں اور وہ خود بھی نسب میں طباطبائی سادات میں سے تھیں۔ جب علامہ نجف اشرف میں مقیم تھے ان کی زوجہ کے بطن سے تین اولادیں پیدا ہوئیں لیکن وہ سب بچپنے میں ہی وفات پاگئے  ۔البتہ ان کے بعد آپ کی دو اولادیں یعنی ایک بیٹا اور ایک بیٹی باقی رہے جن کے نام عبد الباقی اور نجمہ السادات ہے ۔

آپ فقہ و اصول، علم رجال اور اخلاق کا درس دیتے تھے جبکہ فلسفہ و عرفان تو آپ کا خاص شعبہ تھا ۔ آپ کا دائرہ تدریس پھیلتا گیا ۔ آپ نے ان دروس کے ساتھ ریاضیات کا درس دینا بھی شروع کردیا جس میں آپ اپنے اور ریاضی میں اپنے استاد بادکوبی کے تجربات بھی نقل کرتے تھے اور کہتے تھے:" میرے استاد سید باد کوبی میری تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دیتے تھے ، وہ ریاضیات کو گہرائی کے ساتھ سیکھنے کی تاکید کرتے تھے اور میں نے بھی ایسا ہی کیا جس کے نتیجے میں  مجھے فلسفی مسائل پر بھی ریاضیاتی انداز سے برہان قائم کرنے کا طریقہ آگیا ۔" اسی وجہ سے ریاضیات کو گہرائی سے سیکھنے کے لئے میں سید ابو القاسم خوانساری کے درس میں حاضر ہوا اور ان کے پاس سے حساب و ہندسہ،مسطح، فلکیات اور الجبرا میں ایک مکمل دورہ کیا ۔ یوں علامہ طباطبائی نے الجبرا اور ہندسہ اور دوسرے علوم کی تعلیم حاصل کرلی ۔

اب جبکہ دوسری عالمی جنگ کا گرد وغبار تھم چکاتھا لہذا علامہ طباطبائی کی علمی زندگی میں بھی رونق آنا شروع ہوئی کیونکہ علامہ طباطبائی معاشی مشکلات اور تنگدستی کی وجہ سے علمی سرگرمیاں چھوڑ کر زراعت و کھیتی باڑی کے کاموں میں مصروف ہوگئے تھے جس کی وجہ سے تعلیم و تدریس کا سلسلہ ماند پڑگیا تھا۔ اب چونکہ دوبارہ حالات بہتر ہوچکے تھے لہذا انہوں نے دوبارہ سے درس و تدریس کے سلسلے کا آغاز کیا اور اس دفعہ علامہ نے اس مقصد کے لئے قم مقدس کی جانب ہجرت کی اور وہاں پر تفسیر قرآن اور فلسفہ کی تدریس شروع کردی اور اس کے ساتھ دوسرے عقلی علوم مانند منطق وغیرہ کی تدریس بھی کرنے لگے ۔ اس استاد ماہر کی کلاس تدریس میں کچھ ایسے علماء اور محققین نے زانوئے تلمذ تہ کیا جن کو تاریخ بڑے احترام و تعظیم کے ساتھ یاد کرتی ہے کہ جن میں مرتضی مطہری، بہشتی، محمد مفتح ہمدانی، جوادی آملی، محمد تقی مصباح یزدی، مکارم شیرازی، عبد الکریم اردبیلی،موسی صدر، حسن زادہ آملی ،شیخ علی قدوسی، سید محمد رضا سعیدی، عبد الحمید شربیانی، ابراہیم امینی، یحیی انصاری، محمد باقر ابطحی، محمد علی ابطحی، جلال الدین آشتیانی ،عزالدین زنجانی ،ڈاکٹر سید حسین نصر،جعفر سبحانی ، محمد حسین تہرانی، نوری ہمدانی اور ان کے علاوہ سینکڑوں بڑے علماء تھے۔

علامہ طباطبائی کا طریقہ تدریس آسان لیکن در عین حال گہرا بھی تھا آپ مطلب کے اوپر مضبوط استدلال کیا کرتے تھے ۔ آپ کسی بھی علمی مطلب کو ثابت کرنے سے پہلے اس کے مفاہیم و مصادیق کو بہت عمدہ انداز سے واضح کرتے ، تعبیرات ور جملے سلیس ہوتے ، مسئلہ کے بہت زیادہ فروعات و جزئیات نکال کر طلبہ کے ذہن کو منتشر نہیں کرتے تھے جس کی وجہ سے درس میں شریک طلبہ علمی مسائل آسانی سے  سمجھ  لیتے تھے ۔ علامہ طباطبائی سب سے زیادہ جس چیز کے پابند تھے وہ یہ تھی کہ اپنے علمی مطالب خاص طور سے فلسفہ اور عرفان کے اثبات میں اشعار یا قصوں سے بالکل گریز کرتے تھے ۔ بلکہ قرآن کریم سے بھی استدلال نہیں کرتے تھے۔ بلکہ تاکید کرتے تھے کہ کسی بھی دینی حقیقت کو سمجھنے میں عقل اور دین کا تلازم پایا جاتا ہے لہذا جن مواقع میں ہماری عقل حقائق تک رسائی سے عاجز ہے ان میں لازم ہے کہ قرآن کریم اوروحی کی جانب رجوع کیا جائے ۔

علامہ طباطبائی کا اتنا بلند علمی مقام و مرتبہ تھا جس پر دوسرے علماء رشک کیا کرتے تھے ۔آپ نے علوم عقلیہ اور نقلیہ میں صرف مرتبہ اجتہاد تک پہنچنے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ آپ  ادبیات میں بھی ید طولی رکھتے تھے ، آپ ایک بڑے ادیب اور شاعر بھی تھے اس کے علاوہ خوشنویسی میں بھی ایسی عمدہ مہارت رکھتے تھے  جس کی مثال کم ملتی ہے ۔

علامہ طباطبائی ایک جانب عظیم مفسر (مصنف المیزان) ہیں تو دوسری جانب ایک ماہر فلسفی بھی ہیں نیز آپ ایک اسلامی مجدد بھی کہلاتے ہیں۔ آپ کی تفسیر المیزان فی تفسیر القرآن کو قران کریم کی بہترین تفاسیر میں سے شمار کیا جاتا ہے ۔ جس میں قرآن مجید کے لطیف معنی و مفاہیم کو عمدہ انداز سے بیان کیا گیا ہے ۔اس تفسیر کی ایک اور ممتاز خصوصیت یہ ہے کہ یہ مضبوط اور گہرے علمی خزانوں پر مشتمل ہے جن کو آسان اور سہل پیرائے میں بیان کردیا گیا ہے اس میں نظریات و افکار کی پیچیدگیوں سے اجتناب کیا گیا ہے ۔ خاص طور سے قرآن کریم ہی کو تفسیر کا وسیلہ بنایا گیا ہے۔ اس لئے کہ قرٓن اپنے بعض کی تفسیر اپنے بعض کے ذریعے ہی کرتا ہے ۔اس روش پر علامہ کاربند رہے ہیں اور جب قرآن کی آیات کے ظاہری معنی کی تفسیر کرتے ہیں تو روایات و اقوال نہیں لاتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ان کا یہ فرمانا ہے کہ" ہم پہلے قرآن کی تفسیر خود قرآن سے کرتے ہیں اور آیت کے معنی کو اس کی نظیر میں تدبر کے توسط سے واضح کرتے ہیں جو کہ خود قرآن کریم میں ہی موجود ہوتا ہے ،اس طرح سے مصادیق کو مشخص کرتے ہیں اور ان خواص کے ذریعے تعریف کرتے ہیں جن کی خود آیات قرآن حامل ہوتی ہیں ۔چنانچہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے ((ونزّلنا عليك الكتاب تبياناً لكل شيء))(النحل ـ89)،يء))،اور یہ بالکل ممکن نہیں ہے کہ قرآن ہر شے کا بیان تو ہو لیکن اپنا بیان نہ ہو۔، نیز ارشاد فرمایا (هدى للناس وبينات من الهدى والفرقان))(البقرة ـ185)،اور ارشاد ہوا(وأنزلنا إليكم نوراً مبيناً))(النساء ـ174)،اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ قرآن لوگوں کے لئے ہدایت ، بینہ، فرقان اور روششن نور ہو اور اسی قرآن کی جانب جب لوگ محتاج ہوں اور رجوع کریں تو کافی نہ ہوجبکہ قرآن لوگوں کی شدید ضرورت بھی ہو؟نیز ارشاد فرمایا: : ((وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ))(العنكبوت ـ69) اور قرآن کریم کو سمجھنے کے جہاد سے بڑھ کر کون سا جہاد ہو سکتا ہے؟ اور کون سی راہ قرآن مجید کی طرف ہدایت کرنے سے بڑی راہ ہوسکتی ہے ؟

یہ علامہ طباطبائی ہی کی تفسیر المیزان ہے جو عمیق موضوعات   کے بارے میں وہ چاہے پرانے ہوں یا جدید قرآن کے نقطہ نظر سے بحث و تحقیق کرتی ہے ۔ خاص طور سے ایسے جدید مسائل جنہوں نے بہت ساروں کے اذہان کو مشغول کر دیا ہے ان سب کو تفسیر المیزان میں آسان ، جدید اسلوب کے تحت  علمی انداز سے  بیان کردیا گیا ہے ۔ خاص طور سے اعجاز قرآن کے مسئلے میں بلاغت قرآن کے حوالے سے جو اسلوب اور علمی نکات بیان ہوئے ہیں وہ بہت عمدہ ہیں ۔

علامہ طباطبائی نے تفیسر المیزان  جو بیس جلدوں پر مشتمل ہے کے علاوہ پینتیس سے زیادہ ایسے تحقیقی رسالے اور کتابیں لکھی ہیں جو فکر و نظر کے لحاظ سے بہت مفید ہونے کے ساتھ عمیق اور جدید  موضوعات پر بحث کرتی ہیں۔ 

آپ کی تالیفات:

اصول فلسفہ 

تفسیر البیان فی الموافقۃ  بین الحدیث والقرآن

اسلام میں عورت

اسلام میں سیاست اور حکومت

رسالۃ فی المبدأ والمعاد

عقائد اسلامیہ 

حاشیۃ علی کفایۃ الاصول

البرھان فی المنطق 

سنن النبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 

الشیعۃ فی الاسلام 

القرآن فی الاسلام

بدایۃ الحکمۃ، نھایۃ الحکمۃ، الوحی ، رسالۃ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی المنھج الاسلامی، ملا صدرا کی کتاب الاسفار پر حاشیہ، رسالۃ فی الحکومۃ الاسلامیۃ ، رسالۃ فی النبوۃ، رسالۃ فی الولایۃ، علی و الفلاسفۃ الالھیۃ، رسالۃ فی علم النبی والامام علیہ السلام بالغیب ، اصول الفلسفۃ المادیۃ، الرسائل التوحیدیۃ ،الانسان والعقیدہ، رسالۃ فی العشق، رسالۃ فی القوۃ والفعل، رسالۃ فی الوسائط، رسالۃ فی الصفات، شیخ کلینی کی الکافی پر آپ کا مشہور تعلیقہ،ان کے علاوہ سینکڑوں مختلف تخصصی علمی مقالات اور دسیوں دوسری کتابیں، خاص طور سے اسلامی تفکر میں بیناد سازی میں ان کی کتابیں اہم کرادر کی حامل ہیں ، آپ  کے مذکورہ قلمی آثر کے علاوہ کچھ اور بھی عظیم فلسفی اور عرفانی کتابچے ہیں ۔ جیسے "الانسان قبل الدنیا "، اور " الانسان فی الدنیا " نیز " الانسان بعد الدنیا" نیز اس کے علاوہ اور بھی کتابچے ہیں جن میں علامہ نے فلسفی اور عرفانی نظریات پیش کئے ہیں ۔ اس کے باوجود تقریبا پچاس کے قریب مخطوطات ہیں جو ابھی تک طبع نہیں ہو سکے  ہیں۔

علامہ طباطبائی اور فرانسیسی دانشور ہنری کربن کے ساتھ دس سال سے زیادہ عرصے تک علمی مباحث پر خط و کتابت اور کبھی آپس کی ملاقاتوں کے ذریعے بحث کا سلسلہ جاری رہا  جس کے نتیجے میں آخر کار ہنری کربن اسلام کا گرویدہ ہوا۔

علامہ طباطبائی سال ۱۴۰۲ ھ  مطابق ۱۹۸۲ء کو ماہ محرم کے آخر میں تقریبا ۸۰ سال کی عمر میں وفات پائے۔ اور حرم آل محمد علیھم السلام یعنی سر زمین قم مقدس میں  دختر امام موسی الکاظم ،حضرت فاطمہ معصومہ علیھما السلام  کے حرم مبارک میں مدفون ہوئے ۔