نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلیل القدر صحابی حضرت حجر (حا کو ضمہ اور جیم کو ساکن کے ساتھ) بن عدی الکندی کا مقبرہ شہر دمشق کے شمال مشرق میں واقع مرج عذراء شہر میں موجود ہے۔ اور یہ دمشق سے ۳۰ کلومیٹر کے فاصلہ پر حمص کی طرف جانے والی سڑک کے دائیں جانب واقع ہے۔ یہ غوطہ دمشق ( دمشق کا وہ خوبصورت مقام جو باغات، میوہ جات، اور پھولوں کی کثرت کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے) کا ایک چھوٹا سا قریہ ہے۔ اسے عذاراء بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے باشندے دشمنوں کے شرو اور مکروفریب سے محفوظ رہے۔
اس خوبصورت وادی میں بھورے رنگ کے میناروں کے ساتھ ایک بلندوبالا گنبد دیکھائی دیتا ہے جو درحقیقت حجر بن عدی اور آپ کے باعظمت ساتھیوں کی قبور ہیں، اس مقبرہ کا صحن بہت ہی خوبصورت اور وسیع ہے جس کی چاروں اطراف اور تمام دیواریں قیمتی تحائف سے مزین ہیں، اس کی زمین قیمتی اور خوبصورت قالینوں اور جائےنمازوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔
ان کی دیواروں میں سے ایک دیوار پر یہ اشعار لکھے ہوئے ہیں:
میں اس حجر کے بارے میں کیا کہوں ؟ جن کو بہت دردناک طریقے سے شہید کیا گیا وہ تو مقتول ہیں ان پر میری جان قربان ہو
محبتِ علی ؑ تیرا وجود کا حصہ تھی اور یہ محبت تیری زبان سے چھلک رہی تھی، جبکہ تیری تلوار سونتی ہوئی تھی
یہ علیؑ سے آپ کی محبتِ اور آپ کی وفاداری کی علامت تھی، یہ کوئی جھوٹ ہے یا طنز والی بات نہ تھی
اے حجر تو ہر نسل کے لیے فداکاری کی ایک علامت ہیں ، جس کی جتنی بھی تعریفیں کی جائیں کم ہیں
تو شہید ہیں لہذا تاریخ تجھ پر فخر کرتی ہےاورتاریخ تیرا دشمن کو ذلیل و خوار کہہ کر یاد کرتی ہے۔
جب کہ آپ کے ضریح کے قبہ کی تختی پر یہ کلمات لکھے گئے:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم؛ اس ضریح میں نبی اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلیل القدر اوراصحاب باوفا حضرت حجر بن عدی جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علمبردار تھے، صفی بن فسیل الشیبانی، قبصہ بن ضبیعہ، کرم بن حیان، محرز بن شھاب السعدی، اور شریک بن شداد الخضرمی محوِ خواب ہیں۔
صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حجر ؓ کا خاندانی پس منظر یہ ہے: حجر بن عدی، بن معاویہ، بن جبلہ، بن عدی الکندی ۔
آپ کی کنیت ابوعبدالرحمٰن ہے، جب کہ آپ کا لقب حجر الخیر، یہ لقب آپ کو کثرت عبادت، زہدوتقوی اور پرہیزگاری کی وجہ ملا تھا۔ ساتھ ساتھ اس کی اور ایک وجہ بھی ہے کہ آپ کو حجر شر سے تمییز دینے کے لیے حجر خیر کہا جاتا ہے، حجر شر آپ کا چچا زاد بھائی تھا اور وہ معاویہ کی فوج کا ایک سپاہی اور بنی امیہ کا نمک خوار تھا۔ حجر بن عدی نے اپنی عین جوانی میں ہی اسلام قبول کیا جب آپ اپنے بھائ ہانی بن عدی کے ساتھ مدینہ منورہ آکر محضرِ مبارکِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے اور اپنے مسلمان ہونے کا ا علان کیا۔
حجر اپنی قوم میں بہت بڑی مقام ومنزلت کے مالک تھے، آپ ایسے سردار تھے جو نیک امور کی بجاآوری میں بہت آگے تھے۔آپؓ نے جنگ صفین میں مولیٰ کائنات حضرت علی ابن ابی طالب کی معیت میں امیر شام کے خلاف جنگ کی۔ آپ تقویٰ، پرہیزگاری، صداقت، ایمانداری اور دیگر اعلیٰ اخلاقی صفات کے حامل تھے، ساتھ امیرالمؤمنین حضرت علیؑ سے آپ کو بے پناہ محبت تھی۔ حجر ان صاحبان ِایمان اور باعظمت صحابیوں میں شامل تھے جن کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلیل قدر صحابی حضرت ابوذر غفاری کی تغسیل، تکفین، تدفین اورتشییع جنازہ میں شرکت کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت ابوذر غفاری وقت کے حکمران اور خلیفہ کے سخت مخالف تھے جس کی وجہ سے آپ کو متعدد بار جلاوطن کیا گیا، اور خلیفہ آپ کو تحمل نہیں کرسکتا تھا، یہاں تک بنی امیہ آپ کو مناسب طریقے سے غسل وکفن اور دفن کرنے سے مانع بن رہے تھے اسی وجہ سے آپ ؓ عالم غربت اور پردیسی میں ربذہ کے مقام پر رحلت کرگئے۔
حجر ان لوگوں میں شامل تھے جو بنی امیہ کی سیاسی حکومت کے ظلم وستم کو مسترد کرتے تھے، اور انہیں حکومت اسلامی کو غصب کرنے والا گردانتے تھے، لوگوں میں برملا ان اموی حکمرانوں کے دین ِاسلام سے منحرف ہوکر کئے جانے والے اقدامات کی مخالفت کرتے تھے، آپ لوگوں میں سرعام یہ اعلان کرتے تھے بنی امیہ کا انقلاب در حقیقت اسلام محمدی کی نیستی اور تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
یہاں تک آپ کی ان اصلاحی تبلیغات سے کوفہ میں موجود بنی امیہ کا نمک خوار اور درندہ صفت گورنر زیاد بن ابیہ تنگ آگیا، اور معاویہ کو ان کے خلاف خط لکھا اور کہا گیا کہ حجر کو اپنے پاس بلائے، اسے جیل میں بند کرے، لگام دیدے اوراسے لوہے کے ذریعے سخت ترین عذاب دے۔ جب کہ حجر ایسی چیزوں سے ڈرنے اور بھاگنے والے نہ تھے۔ لیکن جب بنی امیہ کے خونخوار درندے آپ کی تلاش میں عشیرہ حجر کے پاس پہنچے تو آپ نے پورے عشیرے کے تحفظ اور ناموس کی بےحرمتی سے بچنے کے لیے اپنے آپ کو ان کے حوالہ کردیا اور وہ درندے آپ کو لیکر معاویہ کے دربار لے گئے، جب آپؓ معاویہ کے پاس پہنچے تو ابتداء میں معاویہ چونکہ آپؓ کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلیل قدر صحابی ہونے کو جانتا تھا اس لیے آپ کو قتل کرنے کے حوالے سے تردد کا شکار ہوا، اور اس کو یہ خوف لاحق ہوا کہ حجر کے قتل کے نتیجہ میں کہیں مسلمان اس کے خلاف بغاوت شروع نہ کرے اور بنی امیہ کی اسلام کے خلاف کی جانے والی سازشیں بے نقاب نہ ہوجائیں۔ معاویہ نے انہی وجوہات کے پیش نظر فورا قتل کرنے میں تامل کیا، اور ابن زیاد لعنۃ اللہ علیہ اور اس کے رفقاء کو حجر اور ان کے رفقاء کے بارے کوفہ والوں کے جذبات اور خیالات کے بارے میں جاننا چاہا، لیکن ابن ذیاد لعنۃ اللہ علیہ کا جواب یہ تھا کہ تجھے اس شہر (کوفہ) کی اگر ضرورت ہے تو حجر اور ان کے ساتھیوں کو واپس سلامت نہ بھیجے۔
اس خط کے ملنے کے بعد معاویہ نے حجراور ان کے ساتھیوں کو دو کاموں میں سے ایک کو اختیار کرنے کا حکم دیا: یا تو قتل ہونے کے لیے تیار ہوجائیں یا علی ابن ابی طالبؑ ( جو کہ جانشین برحق ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) سے برائت کا اعلان کریں۔
جب یہ بات حجر نے سنی تو کہنے لگے: ہمیں اگر تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دئے جائیں یہ ہمارے لیے آسان ہے بنسبت علیؑ سے برائت کا اظہار کریں، پھر بارگاہ الٰہی، نبوی اور علوی میں حاضر ہوجائیں، ہمیں بے جرم وبے قصور قتل ہوجانا جہنم میں جانے سے زیادہ پسند ہیں۔
یہ جواب سن کر جلاد ملعون نے کہا: تو اپنی گردن آگے کرتاکہ میں تجھے قتل کرسکوں،
حجر نے جواب دیا: میں ظلم کرنے والوں کے ساتھ ظلم میں ان کی مدد نہیں کرسکتا۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ حجر ابن عدی نے اپنے قاتل سے یہ مطالبہ کیا کہ پہلے ان کے فرزند کو قتل کیا جائے، تاکہ اولا؛ ان کا بیٹا اپنے بوڑھے باپ کی شہادت کے خوفناک منظر کو نہ دیکھ سکے، ثانیا؛ کہیں باپ کی شہادت کے اس خونی منظر کو دیکھ کر بیٹا علیؑ کی ولایت سے پھر نہ جائے۔ اس طرح پہلے ان کے بیٹے کو شہید کیا جاتا ہے پھر علیؑ کی فرطِ محبت اور عشق میں حجر شہادت کے عظیم مرتبت پر فائز ہوجاتے ہیں۔ یہ واقعہ سنہ ۵۰ ھجری میں پیش آیا، پھر آپ کے بدن کو شام کے مرج عذراء نامی قریہ میں دفن کیا جاتا ہے، لیکن بنی امیہ کے خونخوار درندے جیسے داعش کہا جاتا ہے پھر ایک دفعہ آپ کی شہادت کے ۱۴۰۰ سالوں کے بعد آپ کے مزار کو منھدم کرکے نبش قبر کرتے ہیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین، امام المتقین، قاتل ناکثین، مارقین، والقاسطین علی ابن ابی طالبؑ سے اپنی دشمنی اور اپنی خباثت کا اظہار کرتے ہیں۔
تاریخ کا عجیب وغریب ستم یہ ہے کہ حجر بن عدی وہ پہلی مسلم شخصیت ہیں کہ جنہوں نے مرج عذراء کو فتح کیا، سب سے پہلے اللہ اکبر کی صدائیں بلند کئیں، لیکن ظالم حکمران اسلام کے نام پر انہیں اسی شہر میں دردناک طریقے سے ظلم وستم کا نشانہ بناتے ہوئے قتل کرتے ہیں۔