استنبول؛ ایک قدیم شہرہے جس کی جڑیں تقریبا 685 سال قبل مسیح پائی جاتی ہیں ۔جب یونانیوں نے پہلی بار اس کے مشرقی حصے کو آباد کیا تھا، اس کے بعد بازنطینیوں نے 668 قبل مسیح میں اس کا مغربی پہلو کو آباد کیا، اور یہ ایک جغرافیائی محل وقوع والا شہر ہے ، خاص طور پر چونکہ یہ دنیا کا وہ واحد شہر ہے جس نے دو براعظم ایشیاء اور یورپ میں اپنے پاؤں جمائے اور دارالحکومت کا مقام حاصل کیا ۔چار سلطنتیں ، یعنی رومن سلطنت ، بازنطینی سلطنت، لاطینی سلطنت ، اور آخری سلطنت عثمانیہ تھی ، جس نے اس شہر کو تقریبا پانچ صدیوں تک دارالحکومت کے طور پر اختیار کیا ، یہاں تک کہ اس کا زوال شروع ہوا اور 1922م میں پہلی جنگ عظیم کے بعد ان کی حکومت ختم ہوگی ۔
ماضی میں استنبول کو متعدد ناموں سے یاد کیا جاتا تھا ، بشمول بزنطی ، قسطنطنیہ اور آستانہ ، جن میں سے آخری استنبول تھا ، عثمانی سلطان مہد دوم ، جس کو تقریبا پچاس دن سے جاری محاصرہ کے بعد فتح حاصل ہوئی اس وجہ سے محمد فاتح کہا جاتا تھا اس کے بعد سے استنبول نام رکھا۔
جغرافیائی طور پر ، استنبول ترکی کا سب سے بڑا شہر ہے ، اور یہ بحیرہ مرمرا اور بحیرہ اسود کو مربوط کرنے والے آبنائے باسفورس کے دونوں اطراف پر واقع ہے ، اور اس کا کل رقبہ (5220) کلومیٹر ہے ، اور اس کی آبادی سنہ 2016 کی اعداد و شمار کے مطابق تقریبا 14365000افراد پر مشتمل ہے۔
جغرافیائی طور پر، استنبول اناطولیہ کے شمال میں واقع ہے، جس کی وجہ سے پوری تاریخ میں بہت سے تباہ کن زلزلے آچکے ہیں ، اور ارضیاتی پیش گوئیاں اب بھی اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ استنبول کا مقام آج بھی زلزلہ کے لحاظ سے غیر محفوظ ہے۔ اور جہاں تک اس کی آب و ہوا کا تعلق ہے تو یہاں کے آب و ہوا بلکل معتدل اور مرطوب رہتی ہے، موسم گرما میں تیز نمی کے ساتھ لمبی گرم اور بارش ہوتی ہے اور ، سردیوں میںسردی ہوتی ہے۔
چونکہ استنبول ایک طویل عرصے تک متعدد قدیم سلطنتوں کے دارالحکومت کے طور پر رہا ہے تو یہ یقینی ہے کہ اس میں ان تہذیبوں کے ذریعہ تعمیر کردہ قدیم آثار کی ایک بڑی تعداد شامل ہے ، اس کی عمارتیں مختلف اقوام اور سلطنتوں کی عکاسی کرتی ہیں جنہوں نے اس شہر پر حکمرانی کی ہے جس میں فینیشین بندرگاہ جو کانسی کے دور سے ملتی ہیں ، اور میڈن ٹاور جو 408 قبل مسیح یونانیوں کے عہد میں تعمیر ہوا تھا۔ ، قسطنطنیہ کا رومن عمود ، ساتھ ہی ساتھ قسطنطنیہ کا عظیم محل ، جو رومن شہنشاہ قسطنطین اول نے تعمیر کیا تھا۔ جہاں تک بازنطینی دور کی بات ہے، تو یہ شہر خوبصورت فن تعمیر سے بھرا ہوا تھا، اور استنبول کی سب سے اہم وراثت جو بازنطینی شہنشاہ جسٹیان اول سے ملی وہ ان کی تعمیر کردہ چرچ آیا صوفیا ہے جو سب سے اہم زندہ بچ جانے والی بازنطینی یادگاروں میں سے ایک ہے۔
جہاں تک اسلامی آثار قدیمہ کے مقامات بالخصوص مساجد کا تعلق ہے تو استول میں ایسے مقامات بہت زیاد ہیں اور ان میں انجینئرنگ کے جدید ڈیزائن موجود ہیں۔ عیسائی چرچوں کے فن تعمیر نے ان پر واضح طور پر اپنا نشان چھوڑ دیا ، جیسے کہ ایا صوفیہ کیتیڈرل ، جسے بعد میں مسلمانوں نے اسلامی میناروں کو شامل کرکے مسجد میں تبدیل کردیا۔ پھر مصطفی کمال اتا ترک نے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد اس کو میوزیم میں تبدیل کردیا ۔(2020 میں ترک عدالت نے دوبارہ اس کو مسجد میں تبدیل کرکے نمازیوں کےلئے کھولنے کا حکم دیا ہے) اسی طرح سلطان احمد مسجد ، جسے سلطان احمد اول نے 1616 ء میں تعمیر کیا تھا ، اور وہ اسی مسجد میں دفن کیا گیا ا۔ اس کے علاوہ قصر باب العالی ، مسجدِ سلیمان ، قصر طوب قابی وغیرہ موجود ہیں اس کے علاوہ فن تعمیر میں سلطنت عثمانیہ پڑوسی یورپی فن تعمیر سے بہت متاثر ہوا تھا۔
استنبول کو دوسرے سیاحتی شہروں کی نسبت ممتاز مقام حاصل ہے ، جس کی کئی خصوصیات ایسی ہیں جو دوسرے شہر وں میں نہیں ہے، جیسے یہ یوریشیا کا بین البراعظمی شہر ہے اور اس کو تاریخی جزیرہ نما سات پہاڑیوں کی خصوصیات والا کہا جاتا ہے اور اس کا ایک حصہ بہت ہی خوبصورت بحر باسفورس میں تقسیم ہوتا ہے اور اس کی ایک طرف بحر اسود اور دوسری طرف بحرہ مرمر واقع ہے۔
اس قدیم اور تاریخی شہر پر حکومت کرنے والے سلاطین تو مرچکے ہیں لیکن ان کی چھوڑی یادگاریں آج بھی سیاحوں کو ماضی کی کہانی سناتی نظر آتی ہیں، اسی وجہ سے استنبول شہر دنیا کے مختلف حصوں سے آنے والے سیاحوں کی منزل قرار پاتا ہے جہاں لوگ موسم گرما میں خاص طور پر تفریح کے لئے جاتے ہیں اور آثار قدیمہ کے مقامات کو دیکھتے ہیں ، جہاں لوگ پہاڑی ،سمندری نظارہ اور شہر میں موجود آثار قدیمہ کی تفریح گاہیں، خوبصورت اور دلکش ریزورٹس سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور یہ تفریح گاہیں سالانہ لاکھوں سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں ، اسی امتیاز کی وجہ سے شہرِ استنبول ترک حکومت کے لئے بہت بڑا ذریعہ آمدن ہے۔