اسلامی ممالک پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ نے اہم جغرافیہ کے ساتھ ساتھ ان ممالک کو بڑے بڑے قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔ مگر منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے ان وسائل سے صحیح فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا جس سے ان ممالک کی اقتصادی حالت بہت کمزور ہے۔ان وسائل کا فائدہ دیگر ممالک بہتر حکمت عملی سے اٹھا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ ممالک معیشت کے اعتبار سے بہت کمزور ہیں اور تیسری دنیا کے ممالک کہلاتے ہیں جہاں غربت بہت زیادہ ہے اور لوگ قحط کا شکار رہے ہیں۔
ضایع ہونے والے اسلامی دنیا کے وسائل :
زرعی زمین:
ایک طرف پانی کے وسائل کو دیکھیں جو اسلامی دنیا میں وافر مقدار میں موجود ہیں اور دوسری طرف معتدل موسمی حالات کے باجود زرعی زمینیں انتہائی برے طریقے سے استعمال کر رہے ہیں۔ اس سے ہمیں یہ واضح ہوتا ہے کہ منصوبہ بندی کا فقدان ان ممالک کے فقر کی بنیادی وجہ ہے جبکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ انسان کی ضرورت کی تمام بنیادی چیزیں زراعت کے نتیجے میں ہی پیدا ہوتی ہیں اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
(وَفِي الأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَانٌ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ يُسْقَى بِمَاءٍ وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ فِي الأُكُلِ إنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ)(سورة الرعد ٤)
اور زمین میں باہم متصل ٹکڑے ہیں اور انگوروں کے باغات ہیں نیز کھیتیاں اور کھجور کے درخت ہیں جن میں سے کچھ دوہرے تنے کے ہوتے ہیں اور کچھ دوہرے نہیں ہوتے، سب کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے لیکن پھلوں میں (لذت میں) ہم بعض کو بعض سے بہتر بناتے ہیں، عقل سے کام لینے والوں کے لیے یقینا ان چیزوں میں نشانیاں ہیں۔
اسلامی شریعت میں ابتدا سے ہی زراعت کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔اسلام نے زمین کی آباد کاری کو اہم قرار دیا اور اسے موت سے زراعت و سبزے کے ذریعے زندہ کرنے کی بات کی۔نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے :
"من أحيا أرضاً ميتة، فهي له" جس نے بنجر زمین کو آباد کیا وہ اس کی ہے۔
نبی اکرمﷺ نے زمین کو زندہ کرنے اور اس سے بھلائی کو زراعت کے ذریعے کرنے کا بتایا۔انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ نبی اکرمﷺ کی ان تاکیدات کے باوجود مسلمان قیادت اور صاحب فیصلہ نے اس پر عمل نہیں کیا۔اس لیے زمینیں بنجر ہیں اور زمینیوں پر رہنے والے قحط کا شکار ہیں۔انہوں نے زمینوں پر زراعت کو ترک کر دیا اور غیروں پر بھروسہ کرنے لگے ۔
اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ ۱۴ فیصد عرب خطہ زراعت کے قابل ہے عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ عربی ممالک کا اکثر حصہ صحراوں پر مشتمل ہے۔ یہ بہت تھوڑا رقبہ ہے جو قابل کاشت ہے یہ ۵۴ ملین ہیکٹر بنتا ہے جو ۱۳۶۷ ہیکٹر زمینوں میں سے ہے اور یہ بات واضح ہے کہ یہ بہت ہی کم رقبہ ہے۔
دوسری طرف دیکھا جائے تو عالم اسلام کی زمینیں درمیانے درجے کی ہیں یہاں نہ تو افریقہ کی طرح صحرا ہی صحرا ہیں اور نہ ہی برفیلی ہیں کہ پورا سال جمی رہیں۔یہاں پانی اور معیاری زمینوں کی کثرت ہے۔خراب منصوبہ بندی،حکومتوں کے تیل پر انحصار اور ہرچیز کو درآمد کرنے کی خواہش سے یہ زمینیں نظر انداز ہو رہی ہیں۔اسلامی ممالک کی حکومتیں ان زمینوں کو کام میں لا کر ایک زرعی انقلاب برپا کر سکتی ہیں۔یہ زمینیں انسانی ضروریات کو پورا کریں گی اسلامی ممالک خودکفیل ہو جائیں گے اور اپنی پیداوار کو دوسرے ممالک میں برآمد کریں گے اور ان کی ضروریات بھی پورا کریں گے۔
اسلامی ممالک میں منصوبہ بندی کا فقدان صرف زراعت تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہاں آبپاشی کا نظام بھی ناقص منصوبہ بندی کا شکار ہے۔ابھی تک اسلامی دنیا میں آبپاشی کا قدیم نظام رائنج ہے۔پانی کی ایک بڑی مقدار ضایع ہو جاتی ہے حکمت عملی کے فقدان کی وجہ سے (11.2) ہزار مکعب میٹر پانی ضائع ہوتا ہے جبکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ضایع ہونے والے پانی کا تخمینہ (7.8) ہزار مکعب میٹر ہے۔
جہاں تک پیداوار کی شرح کا تعلق ہے تو کم اور مطلوبہ مقدار سے بھی بہت کم ہے۔اگر اس کا موازنہ امریکہ اور یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک سے کیا جائے تو یہ فرق بہت زیادہ ہے ترقی یافتہ ممالک (5.1) ٹن فی ہیکٹر پیدا کرتے ہیں جب اسلامی ممالک فی پیداوار (2.3) ٹن پیدا کرتے ہیں۔ ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اسلامی ممالک کی اوسط پیداوار کس قدر کم ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ شعبہ کس قدر زوال کا شکار ہے۔زرعی منصوبہ بندی کا فقدان بہت زیادہ ہے جس کا اثر براہ راست پیداوار پر پڑتا ہے۔اسی لیے عالم اسلام کے ممالک بڑے ممالک سے درآمدات پر انحصار کرتے ہیں یہی مسلم ممالک کے زوال اور ان ممالک کے تسلط کی وجہ ہے۔
پانی کا ضیاع:
ہم نے زراعت سے بات کو شروع کیا تھا جو پانی تک آ گئی ہےاسلامی ممالک میں ہر طرح کے متنوع آبی وسائل موجود ہیں اس میں نہریں ،دریا،جھیلیں،زمینی پانی اور اس کے ساتھ بارش کی صورت میں نازل ہونے والا پانی کا ایک بڑا ذریعہ بھی موجود ہے۔اگر اسے سائنسی بنیادوں پر محفوظ اور استعمال کیا جائے تو اسلامی ممالک کو زراعت کے لیے جتنا پانی چاہیے اتنا پانی موجود ہے۔ اسلامی ممالک کی ناقص منصوبہ بندی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے اعداد شمار یہ بتاتے ہیں کہ اسلامی دنیا میں قدرتی آبی وسائل 245 بلین مکعب میٹر سالانہ ہیں۔اس میں ۶۶ فیصد استعمال میں لایا جاتا ہے اور باقی کو ضایع کر دیا جاتا ہےیعنی ۳۴ فیصد وسائل ضایع کر دیے جاتے ہیں۔اسلامی ممالک کا ۹۱ فیصد پانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے اور پانچ فیصد گھریلوں اور چار فیصد پانی صنعتی استعمال میں آتا ہے۔
خلیجی ریاستوں نے تازہ پانی کی قلت کا مقابلہ کرنے کے لیے سمندر کے پانی کو استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا ہے ایک سال کے تخمینے (8) ارب مکعب میٹر بچانے کے لئے سمندر کے پانی کو میٹھا کر کیا جائے ایسا کرنا اردن جیسے ممالک کولیے ضروری ہے جو سمندروں میں گھرا ہے۔اس کے ذریعے عالم اسلام کی حکومتیں اپنے قدرتی وسائل کو بہتر استعمال کر سکتی ہیں۔ان کی معیشت بڑھ سکتی ،زراعت اور آبی وسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے اس لیے ان میں سرمایہ کاری ہونی چاہیے۔یہاں بین الاقوامی دباو کو خیال میں نہ لاتے ہوئے آزاد پالیسی کے تحت سرمایہ کاری ہونی چاہیے کیونکہ ان کے ذریعے معاشرے میں لوگوں کی ضروریات پوری ہوتی اور لوگوں کو روزگار کے مواقع ملتے جس سے سستی و کاہلی سے چھٹکارا ملتا ہے اور کام کرنے والوں پر انحصار بھی کم ہوتا ہے۔