مویشی اور انسان کا بڑا پرانا تعلق ہے ،پتھر کے زمانے میں انسان شکار کر کے خوراک حاصل کرتا تھا اور یہ شکار جنگلی جانوروں کا ہوتا تھا۔دوسرا مرحلہ زمانہ زراعت کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔
مویشی دولت کا اہم حصہ ہیں۔زمانہ جتنی مرضی ترقی کر لے اسے گوشت،دودھ اور ان سے بنی اشیاء کی لازمی طور پر ضرورت رہے گی اور یہ سب کچھ مویشیوں کے ذریعے ہی حاصل ہوتے ہیں۔جانورں سےحاصل ہونے والے اشیاء انسانی معاشرے کی ضرورت ہیں جیسے چمڑے اور اون سے نفیس پہناوے تیار کیے جاتے ہیں جو موسموں کی شدت سے بچاتے ہیں۔اسی طرح جانوروں کو زراعت کے لیے جیسے ہل چلانے اور باربرداری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔
روز مرہ زندگی میں جو جانور فائدہ پہنچاتے ہیں ان میں بھیڑ ، بکری ، گائے ، بھینس ، اونٹ ، گھوڑے ، خچر اور گدھے نیز پرندے اور مچھلی شامل ہیں ، شکار اور حفاظت کے لیے کتے بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
مویشی چراگاہوں ، کھیتوں ، باغات ، مویشیوں کی افزائش گاہوں ،آبی مقامات میں پائے جاتے ہیں ۔وہ گھروں اور گھر کے باغات میں بھی دستیاب ہیں۔
عرب خطے میں چراگاہیں
عرب خطے میں چراگاہوں کا رقبہ ایک ارب ڈنوم سے زیادہ ہے، اور اس میں نیم صحرا کی زمینیں شامل ہیں، خشک اور سخت حالات والی جگہیں اوربہت سی ایسی جگہیں بھی ہیں جو باغات اور کھیت تو نہیں ہیں مگر بارش کے نتیجے میں ان میں گھاس وغیرہ پیدا ہوتی ہے جس سے جانوروں کے لیے چارہ میسر آ جاتا ہے۔
صومالیہ ، سوڈان اور موریطانیہ میں مویشیوں کی تعداد پورے عرب خطے میں پیدا ہونے والے مویشیوں کا نصف سے زیادہ ہے۔خلیجی ممالک اپنے گوشت ،دودھ دہی اور اس کے علاوہ ڈیری کی مصنوعات کو درآمد کرتے ہیں ۔
عرب ممالک کے مویشی
عرب خطے میں ہے مندرجہ ذیل مویشی پائے جاتے ہیں:
109 ملین بھیڑیں ،ان میں سے 17٪ سوڈان میں ہیں۔
77،5 ملین مویشیوں میں سے 57٪ صرف سوڈان میں ہیں۔
بھینس 25 لاکھ ہیں زیادہ تر مصر ، عراق اور سوڈان میں ہیں۔
10 ملین اونٹوں میں سے 52٪ صومالیہ میں ہیں ، اس کے بعد سوڈان میں 28٪ ہیں۔
گھوڑوں،گدھوں اور خچروں کی تعداد 15 لاکھ ہے۔
عرب افریقی ممالک میں یہ جانور بہت زیادہ ہیں، جہاں وہ سوڈان، صومالیہ اور مغرب جیسے عرب افریقی ممالک میں پائے جاتے ہیں ان ممالک میں چراگاہوں کی تعداد زیادہ ہے، یہ تین ممالک عرب مویشیوں کا تین چوتھائی سے زیادہ حصہ رکھتے ہیں، اور باقی ایشیاء کے عرب ممالک میں ہیں۔
مویشی رکھنے میں مشکلات
عرب ممالک میں مویشی پالنے میں بہت سی مشکلات ہیں۔یہی مشکلات مویشیوں میں خودانحصاری سے روکتی ہیں۔حکومتی سطح پر جانوروں کے لیے بہت کم کوششیں کی جاتی ہیں یہ ناقص کارکردگی بنیادی وجہ ہے۔
عرب دنیا میں کمزور زرعی منصوبہ بندی ، اور جامع اور مربوط زرعی منصوبوں کا فقدان ہے۔ بہتر منصوبہ بندی زرعی شعبے اور مویشی میں خود کفالت کی طرف لے جائے گی۔
مویشی پیدا کرنے والے ممالک جیسے سوڈان،صومالیہ اور موریطانیہ وغیرہ میں بنیادی سہولیات کافقدان ہے۔
بارش کی شرح میں اتار چڑھاو، جو بعض اوقات گھاس کی قلت کا باعث بنتا ہے۔
دریاوں اور چشموں کی کمی جس سے جانور پیتا ہے ، جو گھاس کی کاشت میں اہم ہیں۔
دوسرے ممالک میں کم لاگت کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں مقامی تاجر وں کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔
کمزور ویٹرنری خدمات، بیماریوں کی وجہ سے بڑی تعداد موت کے منہ میں چلی جاتی ہے۔
کمزور شماریاتی منصوبے، جس کے نتیجے میں ترقیاتی منصوبوں کی نشوونما میں الجھن پیدا ہوتی ہے۔
دیہی سے شہری علاقوں میں نقل مکانی کے نتیجے میں جانوروں کی مصنوعات کی طلب میں اضافہ اور محدود فراہمی ہے۔
مویشیوں کے لیے منصوبہ بندی
مویشیوں کے تحفظ اور ترقی کے لئے ضروری منصوبے تیار کریں۔
جانوروں کے شعبے کی ترقی کے لئے غیر ملکی سرمایہ کاری لائی جائے۔
جن علاقوں میں پانی کی کمی ہے وہاں کنویں کھودے جائیں۔
خوراک کی فراہمی یقینی بنائے جائے۔
بیماریوں کی وجہ سے جانوروں کی اموات سے بچنے کے لئے ویٹرنری ہیلتھ کو ترقی دی جائے۔
مویشیوں، پولٹری اور مچھلی فارم کے قیام میں معاونت کی جائے۔
جانوروں کے علاقوں میں فامز بنانا اور وہاں خدمات مہیا کرنا۔
مویشی پال حضرات کی حوصلہ افزائی کے لئے جانوروں کی مصنوعات کے لئے ایک معاون مارکیٹ بنائیں۔
مویشی عرب اور اسلامی دنیا کی بڑی دولت ہیں اور ان کی اہمیت بھی اسٹریٹجک نوعیت کی ہو گئی ہے اس لیے اس پر توجہ دینا ہو گی اور ان کو ترقی دے کر ان میں خودکفالت حاصل کرنا ہو گی۔اس سے اسلامی ممالک کی قومی آمدن میں بڑا اضافہ ہو گا۔