(788 ـ 974) میلادی کے دوران مراکش میں ایک اسلامی حکمران خاندان ابھرا۔ یہاں پر پہلی ریاست کی بنیاد حسن بن علی بن ابی طالب کی اولاد نے رکھی۔ اس ریاست کا نام اس کے بانی ادریس اول کے نام پر ادارسہ ( بنی ادریس) رکھا گیا۔یہ بھی ممکن ہے کہ آج جسے غرب المغربی کہا جاتا ہے اس کے بانی بھی انہی ادارسہ کو قرار دیا جائے کیونکہ یہ آج انہی علاقوں کو شامل ہے جس کی بنیاد ادریس اول نے رکھی تھی۔اگرچہ جس ریاست کی بنیاد رکھی تھی وہ موجودہ علاقے سے بڑا تھا۔
عباسی حکومت کے مظالم سے تنگ آ کر ادریس ( جو کہ عبد اللہ بن حسن المثنی بن حسن بن علی بن ابی طالب علیھم السلام کے بڑے بیٹے تھے) اپنے غلام راشد کے ساتھ مصر آگئے۔ پھر مصر سے افریقہ کے آخری حصے کی طرف چلے آئے۔وہ ولیلی نامی مغرب عربی کے شہر میں مقیم ہو گئے۔یہاں پر ان کا رابطہ اسحاق بن محمد بن عبدالحمید سے ہوا جو اوربہ قبیلے کا سربراہ تھا جو کہ بربر قبیلے کی شاخ ہے۔اس نے بنی عباس کی اطاعت ترک کر دی اگرچہ وہ اس سے پہلے بنی عباس کے عہدیداروں میں سے تھا اس نے ایسا ادریس اول کی وجہ سے کیا کیونکہ وہ نبی اکرمﷺ کی اولاد میں سے تھے اور اسحاق اس نسبت کا بہت احترام کرتا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ ادریس اول انتہائی اعلی اخلاق کے مالک صاحب علم بھی تھے۔
معاملات کو ادریس نے سنبھال لیا اور بڑے بڑے قبائل ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ادریس اول نے ان قبائل میں اسلام کی تبلیغ کی جو ابھی تک مسیحیت،یہودیت اور مجوسیت پر باقی تھے۔یہ لوگ ادریس اول کے اخلاق اور علم و فضل کی وجہ سے مسلمان ہوئے جس نے ان کے قلوب کو اسلام کے لیے کھول دیا۔
ادریس بن عبداللہ جنہیں زہر سے شہید کیا گیا اور ان کی وفات کے بعد راشد جو کہ ادریس کے غلام تھے وہ ادریس ثانی پر وصی مقرر ہوئے۔ادریس ثانی ادریس اول کے بڑے بیٹے تھے جو اس وقت ماں کے پیٹ میں تھے۔جب راشد کا قتل ہو گیا تو ادریس کی کفالت ابوخالد یزید بن الیاس العبدی نے کی جو کہ بربر قبیلے کی بزرگوں میں سے تھے یہاں تک کہ ادریس جوان ہو گئے۔انہوں نے ۱۹۲ ھ بمطابق ۸۰۸ م کو حکومت سنبھالی۔
ادریس ثانی نے حکومت کے لیے ایک نئے دارلحکومت کی بنیاد رکھی جس کا نام فاس رکھا۔انہوں نے سلسلہ فتوحات کو شروع کیا اور الجزائر کو اپنی حکومت میں شامل کیا۔ انہوں نے خطے سے خارجیوں کے اثرات کو کم کیا اور ایک مستحکم ریاست کی بنیاد رکھی جس میں ان کے بعد آٹھ ادارسہ گذرے۔ان سب میں سے طاقتور یحیی رابع بن ادریس بن عمر تھے جن کی ریاست میں مغرب عربی کے تمام ممالک شامل تھے۔
ادریس ثانی کے دور میں ریاست ادراسہ میں کمزورریاں واقع ہو گئیں۔ یہ اس وجہ سے ہوا کہ ریاست کے اختیارات ادریس کے بیٹوں میں تقسیم ہو گئے اور مزید یہ کہ ادریس کے بیٹوں میں آپس میں جنگ ہو گئی اور ساتھ ساتھ خوارج سے بھی جنگ تھی۔اس سے ریاست میں اضطرات اور کمزوری پیدا ہو گئی ،ریاست کی اقتصادی اور معاشرتی حالت بھی ناگفتہ بہ ہو گئی۔ اس سے خوارج طاقتور ہو گئے اور انہوں نے ریاست میں اثر رسوخ پیدا کر لیا۔ان حالات میں ایک طرف دولت فاطمیہ تھی اور دوسری طرف اندلس کی اموی ریاست تھی ادارسہ کی باہمی جنگوں کی وجہ سے اسے زوال آیا ، یہ ریاست دو صدیاں قائم رہی۔
ادارسہ کی ریاست کا سلسلہ ادریس اول سے شروع ہوا (788-791)م اس کے بعد ادیس ثانی آئے جو( ۷۹۱ ۸۲۸ م) ان کے بعد علی بن محمد آئے جو علی اول کے نام سے معروف ہیں (۸۳۶۔۸۴۸) م ،ان کے بعد یحی بن محمد ہیں جو یحی اول کے نام سے معروف ہیں(۸۴۸۔۸۶۴)م ،ان کے بعد یحیی بن یحیی جو یحیی ثانی کے نام سے معروف ہیں (۸۶۴۔۸۷۴)م ،پھر علی بن عمر جو کہ علی ثانی کے نام سے معروف ہوئے (۸۷۴۔۸۸۳)م ،ان کے بعد یحی بن قاسم ہیں جو یحیی ثالث کے نام سے معروف ہیں(۸۸۳۔۹۰۴) م ، ان کے بعد یحیی بن ادریس بن عمر ہیں جو کہ یحیی رابع کے نام سے معروف ہیں(۹۰۴۔۹۱)م، اس کے بعد فاطمی دور شروع ہوتا ہے (۹۱۷۔۹۲۵)م پھر حسن حجا (۹۲۵۔۹۲۷) پھر قاسم کنون بن ابراہیم (۹۳۷۔۹۴۸)م ، ان کے بعد ابولعیش احمد بن قاسم کنون (۹۴۸۔۹۵۴)م اور آخر میں حسن بن کنون ہیں حسن ثانی کے نام سے معروف ہیں(۹۵۴۔۹۷۴)م۔
ادارسہ کی ریاست نے شمالی افریقہ کے بڑے حصے پر حکومت کی اور افریقہ کے اس حصے میں اسلام کو پھیلایا۔