((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ)) (البقرة -208)
اے ایمان لانے والو! تم سب کے سب (دائرہ ) امن و آشتی میں آ جاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
اسلامی عقیدہ میں کسی قسم کی دہشتگردی،انتہا پسندی ،تشدد اور عدم برداشت نہیں ہے۔اسلامی عقیدہ تو یہ ہے کہ دوسرا چاہے کوئی بھی ہو اسے امن و سلامتی کی دعوت دینی ہے بس یہ کہ وہ مسلمانوں پر ظلم کرنے والا نہ ہو۔قرآن مجید میں امن و سلامتی کی دعوت کا پیغام بڑا واضح ہے اور قرآن مجید کی جو آیت اس کی طرف دعوت دی رہی ہے وہ مومنین کو حکم دیتی ہے جب کہ جب بھی کسی غیر مسلم کو اسلام کی دعوت دینی ہے تو حکمت اور بہترین انداز میں دینی ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
((ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ)) (النحل -125)
(اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں، یقینا آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔
اسلام کی تعلیمات تو یہ ہیں پھر یہ انتہا پسندی اور جبر کہاں سے آگیا؟
یہ اسلام کی درست راہ کو ترک کرنے کا نتیجہ ہے،بالخصوص نبی اکرمﷺ کی وفات کے بعد ان کا بتایا ہوا راستہ اختیار نہیں کیا گیا۔حکمران اپنی حکومتوں کے تحفظ میں لگے رہے اور انہی کا طریقہ اسلامی نقطہ نظر بن گیا۔ اس لیے حقیقی اسلام اس طرح کی انتہا پسندی اور جبر سے پاک ہے اور اسی طرح اس جبر واکراہ کی ذلتوں سے بھی دور ہے۔یہ سب اس سیاسی اسلام کے لوازم ہیں جس میں انتہا پسندی اور دہشتگردی موجود ہے۔باقی ادیان آسمانی بھی ایسے ہی تھے جب تک وہ درست حالت میں رہے اور جب ان میں ملاوٹ ہو گئی تو ان میں بھی جبر و دہشت آگئی۔بہت سے مذاہب اس انتہا پسندی کا شکار ہوئے ہیں اور لوگ انتہا پسندی کی نسبت مذہب کی طرف دے کر طنز کرتے ہیں۔اس حقیقت کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ مذاہب کے لوگوں میں انتہا پسندی موجود ہے کچھ تو ایسے ہیں جو اس انتہا پسندی سے مطمئن ہو چکے ہیں۔تاریخ اس انتہا پسندی کے نتیجے میں ہونےو الے دہشتگردی کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔یہودیوں میں بھی ایک گروہ موجود تھا جس نے پہلی صدی عیسوی میں صیہونی تحریک کا آغاز کیا اور جس نے اب طاقت کے ذریعے فلسطین کی زمین ہتھیا لی ہے،صیہونیوں نے اس دوران اہل فلسطین کا بہت قتل عام کیا ،ان کا خون بہایا اور انہیں جلاوطن کیا۔اسی طرح مسیحیوں میں بھی ہے۔مسیحیوں کا ایک گروہ بھی انتہا پسندی کا شکار ہوا اور اس نے مسیحیوں میں بنیادی پرستی اور تشدد کو فروغ دیا جیسے سرویکس گروہ جس نے تشدد کا راستہ اپنایا۔اسی طرح صلیبی جنگیں جنہوں نے دہشتگری اور انتہا پسندی کا ایک بازار گرم کیے رکھا اوریہ سب مذہب کے نام پر کیا گیا۔اسی طرح خود مسیحیوں کےدرمیان کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کی جنگیں جو کئی سال جاری رہیں یہ سب بتاتی ہیں کہ مسیحیت میں بنیاد پرستی اور تشدد موجود تھا۔
مذاہب میں تشدد اور انتہا پسندی پر بات کرتے ہوئے ہم ان مذاہب کو نہیں بھلا سکتے جو اپنے مخالفیت پر تشدد کارویہ اپناتے ہیں جیسے انتہا پسندہندو اور دوسرے کئی اور مذاہب بھی ہیں۔تاریخ میں استعماری اقوام نے حکومتیں حاصل کرنےا ورا ن کے تحفظ کے لیے جو مظالم کیے ہیں ہم ان کو بھی نہیں بھلا سکتے۔ان عالمی استعماری قوتوں کی وجہ سے ہی دو عالمی جنگیں ہوئیں جن میں کروڑوں لوگ مارئے گئے اور اس سب کا مقصد نو آبادیاتی نظاموں کا دفاع تھا۔
دہشتگردی ایک عالمی مسئلہ ہے کوئی بھی سیاسی نظام اور مذہب اس سے بچا ہوا نہیں ۔اس لیے اس کا حل نکالنا چاہیے اور ان وجوہات کو تلاش کرنا چاہیے جن کی بنیاد پر یہ تشدد اور دہشتگردی وجود میں آتی ہے اور مکمل غیر جانبداری کے ساتھ اس سے نمٹا جانا چاہیے۔
ہم ان تنظیموں کا بھی ذکر کرتے ہیں جو خود کو اسلام کی طرف منسوب کرتی ہیں اور اسلام دشمنی پر مبنی اقدامات کرتی ہیں۔یہ اسلام دشمنوں اداروں کی ایما پر سطحی باتوں کو لے کر اسلام کی اصل تعلیمات کے خلاف کام کرتے ہیں۔یہ لوگ اسلام کی دعوت و تبلیغ کی تعلیمات کو سرے سے جانتے ہی نہیں ہیں۔ان لوگوں نے جہاد کے مفہوم کو ہی غلط سمجھا ہے اور اس گمراہی کی وجہ سے عام لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔ لوگوں کو اسلام حقیقی کی طرف دعوت دینی چاہیے اور لوگوں کو قرآن کے سلامتی والے پیغام بلانا چاہیے جس کے بارے میں ارشاد ربانی ہوتا ہے:
((لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انفِصَامَ لَهَا والله سَمِيعٌ عَلِيم)) (البقرة – 256)
دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں، بتحقیق ہدایت اور ضلالت میں فرق نمایاں ہو چکا ہے، پس جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے، بتحقیق اس نے نہ ٹوٹنے والا مضبوط سہارا تھام لیا اور اللہ سب کچھ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے ۔
قرآن جب جبر کے نتیجے میں کسی کے ایمان کو قبول نہیں کرتا تو قتل کو کیسے قبول کرے گا؟
اسلام میں انتہا پسندی کا آغاز
اسلام میں انتہا پسندی کی تاریخی بنیادوں کو دیکھنا ہو گا اس کو جاننے کے لیے ہم اسلامی تاریخ کے ابتدائی زمانہ کا مطالعہ کریں گے۔ نبی اکرمﷺ کے جانشینوں ائمہ ؑ کو حق حکومت نہیں دیا گیا جس سے اسلام کو شروع سے اس کے اصل راستے سے ہٹایا گیا۔اسی کو تاریخ کا حصہ بنا کر تقدیس کا لباس پہنا دیا گیا اور اب کوئی بھی سوال نہیں کیا جا سکتا کہ ایسا کیوں ہوا تھا اور اس کی بنیادیں کیا ہیں؟خاص طور پر تصور جہاد کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا گیا اس پر مکاتب قائم ہوئے اور ان کی آراء دین کے حقیقی وارثوں کی رائے کے خلاف تھی،اس سے ملت اسلامیہ کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔لوگوں پر یہ اعتقادات مسلط کر دیے گئے اور جو مخالفت کرے اسے کفر وارتداد کے فتووں سے دھمکایا گیا۔یہ اعتقادات نسل در نسل یونہی چلتے رہے یہاں تک کہ قانون و دستور کی حیثیت اختیار کر گئے۔جاہل لوگ اس کی طرف متوجہ ہو گئے،معاشی طور پر بدحال لوگوں کو یہ یقین دلایا گیا کہ یہ سب ایک رحمت ہے اور انہیں بے گناہوں کے قتل پر آمادہ کر کے اس کا صلہ جنت بتایا گیا۔یہ افغانستان ،عراق اور دنیا کے بہت سے ممالک میں وقوع پذیر ہوا۔
انتہا پسندی اور اس کا علاج
انتہا پسندی کو کسی ایک سبب تک محدود کرنا ممکن نہیں ہے یہ اجتماعی مسئلہ بن چکی ہے اور تمام انسان اس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ایسے میں اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کی تمام وجوہات کو تلاش کیا جائے جن سے یہ پیدا ہوتی ہے اور اسے استحکام ملتا ہے۔ اس کے بعد ان وجوہات کو جڑ سے کاٹا جائے۔ان وجوہات میں سے اہم ان ممالک میں غربت کا ہونا،تعلیمی نظام کا پسماندہ ہونا اور لوگوں کا جاہل ہونااور اہم ترین وجہ غلط مذہبی تعلیم کا ہونا ہے جسے تقدس کا درجہ بھی دے دیا جاتا ہے جس پر بات ہی نہیں ہو سکتی۔
یہ مشترکہ وجوہات ہیں اس کے علاوہ نفسیاتی اور تربیتی وجوہات بھی ہیں جن کی وجہ سے لوگ دہشتگرد تنظیموں میں چلے جاتے ہیں یہ در اصل انہیں خالی ماحول مل جاتا ہے جس سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ اسباب کا علاج اس طرح سے کیا جائے کہ انسانیت کو اس آفت سے نجات ملے۔انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب تمام ممالک ملکر کوشش کریں۔
اس کا حل یہ ہے کہ غریب ممالک کی معاشی صورتحال کو بہتر بنایا جائے،روزگار کے وسیع مواقع پیدا کیے جائیں،لوگوں کے مسائل کو حل کیا جائے،کمزور طبقات کو طاقتور کیا جائے جو اپنی کمزوری کی وجہ سے ان دہشتگردوں کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں۔تعلیم کے معیار کا بڑھ جانا انسان کی عقل کو کھول دیتا ہے اس سے وہ دہشتگردوں کے مغالطوں کا شکار نہیں ہوتا۔اس کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم کام کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ کتابوں میں موجود ایسی باتوں کی تصحیح کی جائے جن میں غلط طریقے سے دین کے نام پر قتل عام کی تعلیمات موجود ہیں۔
انتہا پسندی کا انجام
ہر جذباتی فکر ختم ہو جاتی ہے اور ہر طرح کی انتہا پسندی قصہ پارینہ بن جاتی ہے۔کیونکہ وحشیانہ نظریات اور انسانی قتل عام کی کوئی انسانی و قانونی و مذہبی بنیاد نہیں ہے جو لوگوں کے قتل عام کو درست قرار دے۔وہ بھی اس بات پر کہ دوسروں کو اس لیے قتل کر دیا جائے کہ ان کی رائے ہماری رائے کے خلاف تھی؟ادیان کی تعلیم اس کے بر عکس ہے ،تمام ادیان سماوی میں یہ بات مشترک ہے کہ پر امن انداز میں دعوت دین دی جائے۔یہ بات دہشتگردوں اور انتہا پسندوں کو دنیا میں تنہا کر دیتی ہے،ان کا سیاسی نقطہ نظر غلط ہے جس عقیدہ کے حامل ہیں وہ شریعت آسمانی کے خلاف ہے۔دین و مذہب ان کے طریقے کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ کسی بھی آسمانی دعوت میں بربریت اور قتل کی کوئی گنجائش نہیں ہے نہ ہی کسی انسانی نظام میں اس کو مانا جا سکتا ہے بالخصوص اس زمانے میں جو ایک متمدن صورت اختیار کر چکا ہے۔