رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل کا زمانہ اس اعتبارسے جداگانہ حیثیت کا حامل ہے کہ اس زمانے میں ایک فکری وعقیدتی میراث کی حیثیت سےعقیدہ حنفیہ کے حامل لوگ موجود تھے ،کہ جنہوں نے اس فکر کو دین ابراہیمی سے میراث میں پایا تھا ۔اور یہ لوگ معاشرے میں موجود شرک کے باوجود صحیح عقیدے سے متمسک تھے جسے انہوں نے اپنے آباء سے حاصل کیا تھا ۔ اگرچہ توحید حنفی پر قائم ان لوگوں کی تعداد قلیل تھی لیکن پھر بھی توحید کے بعض مظاہر اس اقلیت کے پاس دیکھنے کو ملتے تھے ۔ لوگوں کی یہ قلیل تعداد نے اپنی قوم کی موجودہ حالت کو مسترد کر دیا تھا لہذا وہ بت پرستی ، مرادار کھانے اور بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے جیسی ان برائیوں سے اپنے آپ کو بچائے ہوئے تھے کہ جن کی خدا نے کبھی اجازت دی تھی اور نہ ہی شریعت ابراہیمی میں ان کی گنجائش تھی۔ دین حنیف پر قائم ان لوگوں میں ورقہ بن نوفل اور زید بن نفیل جیسے لوگ شامل تھے، ان سب میں حضرت محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس اعتبار سے نمایاں تھے کہ آپ عبادت اور غور و فکر کی غرض سے غار حرا میں تنہائی اختیار کرتے تھے۔
تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ بچپن ہی سے تفکر و تامل کرنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاصیت تھی ۔ آپ اپنی قوم میں موجود ان باطل عبادتوں اور بے بنیاد عقائد، کہ جن کو آپ نے نہ کبھی انجام دی اور نہ ہی آپ کی عقل نے انہیں کبھی تسلیم کیا ، کے بارے میں سوچا کرتے تھے ،کیونکہ آپ پر خدا کی وہ خاص عنایت اور لطف و کرم کی نگاہ تھی کہ جو عالم بشیرت میں سے کسی اور کو حاصل نہ تھی ۔ اس کے نتیجے میں آپ کی فطرت اپنی پاکیزگی اور طہارت کی حالت پر باقی رہی ، اور آپ کو ہر اس چیز سے نفرت تھی کہ جو اس فطرت کے خلاف ہو ،لہذا آپ نے اپنی قوم اور ان کے تمام جھوٹےمعبودوں سے اپنے آپ کو الگ رکھا کہ جن کی عبادت آپ کی قوم کیا کرتی تھی ۔
اور جب اللہ تعالی نے آپ کو اپنی قوم کی نگاہوں سے دور رہ کر عبادت کے لطف و لذت سے آشنا کیا تو آپ اپنے لئے ضروری کھانے پینے کی چیزیں ساتھ لے کر غار حرا میں چلے جاتے تھے – غار حرا جبل نور پر موجود ایک چھوٹے سے غار کا نام ہے جو کہ مکہ سے دو میل کے فاصلے پر واقع ہے ۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اس غار میں کئی کئی دن اور راتیں مسلسل اپنے پروردگار کی عبادت اور اپنے اردگرد موجود خدا کی نشانیوں میں غور فکر کرنے میں مصروف رہتے تھے ۔ نیز آپ اپنی قوم میں موجود باطل عقائد اور بے بنیاد تصورات سے ہر گز مطمئن نہیں ہوتے تھے ۔
آپ ص کا لوگوں سے الگ تھلگ رہ کر کچھ عرصہ عبادت اور تفکر و تامل کرنا اس وجہ سے تھا کہ اللہ تعالی آپ ص کو ایک بہت ہی عظیم ذمہ داری کے لئے آمادہ فرما رہا تھا۔ تاکہ آپ ص اس عظیم ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو سکے۔ اور وہ عظیم ذمہ داری رسالت الہی کو تمام لوگوں تک پہنچانے کی تھی ۔ اللہ تعالی کی حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ آپ پر پہلی وحی بھی اسی غار میں ہو جہاں آپ ص غور و فکر اور تفکر وتامل کیا کرتے تھے، تاکہ اللہ کی آخری رسالت کو پہنچانے کے لئے آپ کو آمادہ کرنے کا عمل شروع ہو سکے ۔ کیونکہ یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری تھی کہ جوزندگی کے ہر شعبے اور تمام جزئیات میں تبدیلی کی بنیاد تھی ،جس کو تحمل کرنے سے پہاڑوں نے انکار کیا تھا ۔ نیز قیامت کے دن اس پر شاہد خود رسول اکرم ص ہی تھے جس طرح آیت مجیدہ میں ارشاد ہوا ((وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَى هَؤُلاءِ)) اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لے آئیں گے(النحل ـ89)،
یہاں سے اسلام کی ابتداء ہوئی تھی کہ جس نے لوگوں کو ایمان کا واضح اور قریبی راستہ دکھایا تھا ، جہاں پر ایک جوان اپنے معاشرے میں موجود بے بنیاد عقائد کو درست کرتے ہیں اور نسل در نسل سے چلنے والے باطل عقائد کی تصحیح کرتے ہیں،خصوصا یہ جدید دین ،اسلام ، معاشرے میں موجود اندھی تقلید کی رسم کو روندتا ہوا عقل و شعور کی بات سننے کی بنیاد پر اپنی دعوت کی بنیاد رکھتا ہے ۔