اسلام نے مسجد کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔اس کی یہ اہمیت اس لیے زیادہ نہیں ہے کہ یہاں سجدہ کیا جاتا ہے یہ ایک عالمی ثقافتی مرکز کی طرح ہے جہاں سماجی، اخلاقی اور سیاسی نظریات کی تبلیغ و ترویج ہوتی ہے، یہ صرف عبادت تک محدود نہیں ہے۔یہ سب امور بازاروں،دکانوں اور مشاعروں میں انجام دینے کی بجائے مسجد میں انجام دیے جاتے ہیں ، اسلامی معاشرے میں مسجد کو مرکزیت دی جاتی ہے۔
مسجد وہ جگہ ہےجہاں اللہ کے بندوں کا استقبال کیا جاتا ہے۔یہاں نماز ادا کی جاتی ہے جس کی روح سجدہ ہے ،اس میں دعا اور استغفار کی جاتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ مساجد میں اعتکاف کی تہذیبی اور مذہبی روایت بھی موجود ہے۔اسلامی احکام میں مساجد کے لیے بہت سے امور کی وضاحت کی گئی ہے۔مسجد وحدت امت کی علامت ہیں یہ ایسی جگہ ہے جہاں تبلیغ و دعوت کا کام کیا جاتا ہے۔
اس کو مسجد کا نام دیا جاتا ہے اور یہ لفظ سجود سے لیا گیا ہے مگر جو اعمال مسجد میں انجام دیے جاتے ہیں ان میں بہت وسعت پائی جاتی ہے۔ سجدہ ایک اہم عمل ہے اور اللہ تعالی کو عبادت میں یہ بہت پسند ہے اس میں مساوات ہے کہ تمام انسان اللہ کے سامنے جھک جاتے ہیں۔اس سے تمام مسلمان مسجد میں داخل ہوتے ہیں اور اس خالق کی عبادت کرتے ہیں جو عبادت کے لائق ہے اور وہ معبود حقیقی ہے۔عبادت میں وہ عمل جس میں انسان اللہ کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے وہ سجدہ ہے۔سجدہ وہ عمل ہے جس میں اللہ کے سامنے خشوع،خضوع اور اپنی ناتوانی کو اختیار کیا جاتا ہے۔انسان اللہ کو سجدہ کرتا ہے اور اللہ کو سجدہ کرنے اسے کئی طرح کے سجدوں سے بچاتا ہے۔اللہ کے سامنے سجدہ کرنا انسان کے سب سے زیادہ عقل مند مخلووق ہونے کی علامت ہے جس کو اللہ نے سجدہ کی ذمہ داری دی ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ))(سورة الإسراء ـ 77)
۷۷۔ یہ ہمارا دستور ہے جو ان تمام رسولوں کے ساتھ رہا ہے جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا اور آپ ہمارے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں دیگر مخلوقات کے سجدے کے بارے میں بھی بات کرتا ہے بلکہ تمام مخلوقات کے سجدے کے بارے میں بات کرتے ہوئے فرماتا ہے:
(( أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَىٰ مَا خَلَقَ اللَّهُ مِن شَيْءٍ يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِّلَّهِ وَهُمْ دَاخِرُونَ (48) وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مِن دَابَّةٍ وَالْمَلَائِكَةُ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ (49) يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ(50))(سورة النحل ـ 48 ـ 50)
۴۸۔ کیا انہوں نے اللہ کی مخلوقات میں ایسی چیز نہیں دیکھی جس کے سائے دائیں اور بائیں طرف سے عاجز ہو کر اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے جھکتے ہیں؟ ۴۹۔ اور آسمانوں اور زمین میں ہر متحرک مخلوق اور فرشتے سب اللہ کے لیے سجدہ کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔
۵۰۔ وہ اپنے رب سے جو ان پر بالادستی رکھتا ہے ڈرتے ہیں اور انہیں جو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔
ہم سجدہ کی بات کر رہے ہیں یہ سجدہ اختیار سے ہوتا ہے یا اختیار کے بغیر ہوتا ہے:
((وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلَالُهُم بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ))(سورة الرعد ـ 15)
۱۵۔ اور آسمانوں اور زمین میں بسنے والے سب بشوق یا بزور اور ان کے سائے بھی صبح و شام اللہ ہی کے لیے سر بسجود ہیں۔
سجدہ ایک عبادت ہے جس میں انسان اپنی پیشانی کو قبلہ رخ ہو کر سجدہ گاہ پر رکھ دیتا ہے اور دونوں ہاتھ اور دونوں پاوں بھی خاص ترتیب سے زمین پر لگاتا ہے ان کو اعضائے سجدہ کا نام دیا جاتا ہے۔انسان سجدہ میں خشوع و خضوع کی اعلی منزل پر فائز ہوتا ہے۔ جسمانی حالت میں بھی اور روحانی طور پر بھی اس حالت میں خدا کے قریب ہوتا ہے کیونکہ اس میں خدائے واحد کے لیے خلوص اختیار کیا جاتا ہے۔جس قدر انسان کے سجدےلمبے ہوتے جاتے ہیں اتنا ہی اس کے خشوع و خضوع میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور انسان اللہ کے قریب ہوتا جاتا ہے۔ اللہ تعالی اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
((مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا))(سورة الفتح ـ 29)
۲۹۔ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت گیر اور آپس میں مہربان ہیں، آپ انہیں رکوع، سجود میں دیکھتے ہیں، وہ اللہ کی طرف سے فضل اور خوشنودی کے طلبگار ہیں سجدوں کے اثرات سے ان کے چہروں پر نشان پڑے ہوئے ہیں، ان کے یہی اوصاف توریت میں بھی ہیں اور انجیل میں بھی ان کے یہی اوصاف ہیں، جیسے ایک کھیتی جس نے (زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹی ہو گئی پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی اور کسانوں کو خوش کرنے لگی تاکہ اس طرح کفار کا جی جلائے، ان میں سے جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالح بجا لائے ان سے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔
حضرت علیؑ نے ایسے بندے کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا جس کی پیشانی پر سجدے کے نشان نہ ہوں آپ فرماتے ہیں:میں یہ پسند نہیں کرتا کہ آدمی کی پیشانی پر سجدوں کا کوئی اثر ہی نہ ہو۔
قرآن نے مساجد کی تعمیر کو بہت پسند فرمایا ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
((إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ ۖ فَعَسَىٰ أُولَٰئِكَ أَن يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ ))(سورة التوبة ـ 18)
۱۸۔اللہ کی مسجدوں کو صرف وہی لوگ آباد کر سکتے ہیں جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہوں اور نماز قائم کرتے ہوں نیز زکوٰۃ ادا کرتے ہوں اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھاتے ہوں، پس امید ہے کہ یہ لوگ ہدایت پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
تعمیر مساجد سے مراد فقط اینٹوں اور پتھروں کی تعمیر مراد نہیں ہے مساجد کی دوسری تعمیر سے مراد اللہ کی عبادت،اللہ کی وحدانیت کے اظہار اور عبادت کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے استعمال کرنا اس کی دوسری تعمیر ہو گی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوذر ؓ کے سوال کے جواب میں فرمایا تھاجب انہوں نے مساجد کی تعمیر کےبارے میں سوال فرمایا تو آپ نے جواب دیا تھا اس میں آوازیں اونچی نہ کریں،اس میں باطل نظریات کا پرچار نہ ہو،اس میں خرید و فروخت نہ کی جائے،جب تک مسجد میں موجود ہیں اس وقت تک غیر ضروری باتیں نہ کریں،اگر تم ان پر عمل نہ کیا تو قیامت کے دن ملامت کرو گے۔
اس حدیث کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں مکمل کیا کہ اے ابوذرؓ تم جب تک مسجد میں بیٹھو گے اللہ تعالی تمہیں ہر سانس کے بدلے میں جنت میں ایک درجہ دے گا،تم پر فرشتے درود بھیجیں گے اور تم جتنے سانس لو گے ہر سانس کے بدرلے مین تمہارے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور تمہاری دس نافرمانیاں مٹا دی جائیں گے۔
مساجد کی تعمیر کی عظمت اتنی زیادہ ہے کہ اللہ تعالی نے دو انبیاء حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیلؑ کو ان کی تعمیر و پاکیزگی کا حکم دیا ارشاد باری تعالی ہوتاہے:
((وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ۖ وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ))(سورة البقرة ـ125)
۱۲۵۔ اور (وہ وقت یاد رکھو) جب ہم نے خانہ (کعبہ) کو مرجع خلائق اور مقام امن قرار دیا اور (حکم دیا کہ) مقام ابراہیم کو مصلیٰ بناؤ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل پر یہ ذمے داری عائد کی کہ تم دونوں میرے گھر کو طواف، اعتکاف اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔
جہاں تک مسجد کے ثقافتی مرکز ہونے کی بات ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ اس میں کچھ خاص اوقات میں لوگ اکٹھے ہو سکتے ہیں اس میں مقررہ اوقات میں نماز پڑھیں گے،اس میں مخصوص ایام میں اعتکاف بیٹھیں گے اور اس میں مختلف مناسبتوں سے اس میں تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیاجائے گا جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کرتے تھےاور آپ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معصوم خلفاء یہ کام کیا کرتے تھے۔ان میں سے ایک اہم کام مسجد کو تبلیغی اور دعوتی کاموں کے لیے استعمال کرنا ہے انسان جب مضطرب ہو تو اللہ کا پیغام سننے کے لیے مسجد میں آجائے اس کے منتشر قلب کو سکون میسر آئے گا۔مسجد میں نماز جماعت ادا کی جاتی ہے یہ ایک اجتماعی عمل ہے جس میں انسان کو مساوات اور بھائی چارے کا درس ملتا ہے۔اسی طرح جمعہ کے دن وسیع علاقے کے لوگ جمع ہوتے ہیں اور جمعہ کے پہلے خطبہ میں اجتماعی مسائل اوردوسرے خطبہ میں سیاسی مسائل سے آگاہ ہوتے ہیں۔
اللہ تعالی نے مساجد کو لوگوں میں اسلامی ثقافت کی ترویج کا مرکز بنایا ہے اور اس کے ذریعے انسان اللہ کی قربت حاصل کرتا ہے۔یہاں صرف نماز کے ذریعے اللہ کی قربت حاصل نہیں کی جاتی بلکہ یہاں اعتکاف کا عمل بھی ہوتا ہے جس میں انسان عبادت و ریاضت کرتا ہے۔مسجد میں انسان کو تہذیب و ثقافت اور وہ سکون و اطمنان ملتاہے جو کسی اور جگہ میسر نہیں ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ مسلمانوں نے مسجد کو ایک ایسی جگہ کے طور پر تیار کیا جہاں عبادت کے ساتھ ساتھ اللہ کی اہم تعلیمات کو بھی بیان کیا جاتا ہے۔اس طرح مسجد نے ایک اہم ثقافتی مرکز کی شکل اختیار کر لی ہے جہاں بہت سے اجتماعی امور سر انجام دیے جاتے ہیں مثلا نماز جنازہ یہاں ادا کی جاتی ہے،لوگ یہاں جمع ہوتے ہیں،نماز یں پڑھتے ہیں،قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں ،قرآن کریم کی تعلیم لیتے ہیں اور خطبا سیاسی مسائل پر بھی بات کرتے ہیں۔اب مساجد میں ہی نکاح انجام پاتے ہیں اسی میں ضرورت مند بھی ہوتے ہیں اور ضرورت کو پورا کرنےو الے بھی ہوتے ہیں ہر دو اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں۔ شروع میں مساجد میں تمام کام ہوتے تھے جو آج کے زمانے میں حکومت کے سہولت مراکز میں انجام دیے جاتے ہیں۔مساجد میں فیصلے کیے جاتے تھے اور یہاں پر ہی عدالت لگتی تھی اور لوگوں کو انصاف فراہم کیا جاتا تھا۔اس طرح مسجد میں حکمران اور قاضی دونوں موجود ہوتے تھے اسی طرح حکومت کے دیگر اراکین بھی مسجد میں ہی ہوتے تھے یوں مساجد سیاسی اور ریاستی قیادت کا مرکز ہوتی تھیں۔جب اسلامی تمدن نے ترقی کی تو مساجد ان کا مرکز و محور تھیں۔مساجد تعمیر ہوتی تھیں اور باقی سب مراکز اس کے اردگرد تعمیر کیے جاتے تھے۔
اس طرح مسلمانوں کے لیے مساجد ان کے دینی اور دنیاوی مراکز میں تبدیل ہو گئیں۔اسی طرح یہیں پر علم اور تعلیم کے مدارس قائم ہو گئے اور ادب سکھایا جانے لگا۔ اس کے ساتھ ساتھ مساجد وہ مقام تھیں جہاں انسانوں کے دلوں کو خالق کی طرف موڑ دیا جاتا تھا اور ان کے دلوں کو دنیا سے ہٹا کر خدا کے ساتھ جوڑ دیا جاتا تھا۔جب لوگ مساجد میں آتے تھے تو ان کے درمیان موجود عہدہ اور منصبوں کے امتیازات ختم ہو جاتے تھے۔مساجد وہ جگہ ہےجہاں تکبر اور خود غرضی دور ہو جاتی ہے اور انسان وسوسوں سے نکل آتا ہے۔مسجد میں آ کر انسان اگر کسی شیطانی خبث میں پھنس چکا ہے تو اس سے نکل آتا ہے۔نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا :مساجد آخرت کے بازاروں میں سے بازار ہیں،ان میں ٹھہرنا مغفرت ہے اور یہاں کا تحفہ جنت ہے۔
حضرت علی ؑ فرماتے ہیں جو بھی مسجد میں آتا ہے وہ آٹھ میں سے ایک کو ضرور پا لیتا ہے خدا کے لیے فائدہ پانے والا بھائی،عالم ربانی ،محکم نشانی،رحمت جو اس کی منتظر ہوتی ہے،ایسا کلام جو اسے برائی سے دور کر دے،ایساکلام جو اس کی ہدایت کی طرف رہنمائی کر دے،ایسا کلام جس سے یہ گناہ کو اللہ سے ڈر کر یا اس سے حیاء کرتے ہوئے چھوڑ دے۔
ایک بار امام جعفر صادقؑ نے مسجد کے بہت زیادہ فضائل کا ذکر فرمایا
آپ نے فضل سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا اے فضل
مسجد اچھے خاندان کے لوگ ہی بناتے ہیں اور اچھے خاندان کے لوگ
ہی
اس میں آتے ہیں ،مسجد میں آنے والا تین میں سے ایک چیز لے کر
پلٹتا ہے یا تو وہ دعا جو وہ مانگتا ہے اور اللہ اسے جنت میں داخل
کرے گا ،یا وہ دعا جو وہ مانگتا ہے جس کے نتیجے میں اللہ اس سے دنیا
کی مصیبت دور کر دے گا اور یا اسے وہ راہ خدا میں چلنے والے بھائی
سے ملاقات کراتا ہے جس سے اسے فائدہ ملتا ہے۔