اسلام نہ صرف انسان کو فطرت اوراس کی دانش کے مطابق کام کرنے کا حکم دیتا ہے بلکہ انسان کی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کےلئے محنت اورکام کرنے کو اہمیت بھی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام رہبانیت سے روکتا ہے کیونکہ رہبانیت سے انسان میں کام کرنے کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے اور وہ فعال ہونے کے بجائے ایک غیرمفید فرد بن کر رہ جاتا ہے۔رہبانیت کی راہ میں چلنے والا شخص معاشرے میں مفید بن کر عطا کرنے یا کسی کی مدد کرنے کا جذبہ رکھنے کے بجائے اس صفت سے بالکل خالی ہوتا ہے
زندگی کو دوام رکھنے کےلیے کام کرنا، تگ و دو کرنا انسان کی فطرت و پرورش میں شامل ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ زمینوں کو آباد کیا جائےاور کاشتکاری و زراعت کے پیشےکو جاری رکھتے ہوئے اگلی نسل تک منتقل کیا جائے۔ حیات انسانی میں کی جانے والی محنت و مشقت کی اہمیت کو اسلام نے واضح طور پر بیان کیا ہے اوراس کو تسلسل رکھنے کی تاکید کی ہے۔ اسلام منع کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو گزارنے کے لیےدوسروں کی مدد کرنے کی امید رکھے۔ اللہ نے انسان کو اعلی شان و مرتبہ دیا ہے لیکن محنت کرنے کی راہ میں سب برابر ہے اس میں عام فرد یا کوئی نبی میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ الہی اصول یہ ہیں کہ سب کام کریں گے، ائمہ معصومین ؑ کے فرامین، کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مسلمانوں کو کام کے لیے آمادہ کرتی ہے۔ امام صادقؑ سے مروی ہے کہ آپ نے اپنے اصحاب میں سے ایک شخص کو جواب دیتے ہوئے فرمایا جو عبادت کے لیے تجارت چھوڑ چکا تھا" پر وائے ہو ان پر! کیا وہ نہیں جانتا کہ جو مانگتا نہیں ہے اس کی دعا قبول نہیں ہوتی؟ کچھ اصحاب رسولﷺ نے جب یہ آیت نازل ہوئی:
((... وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ....))(سورة الطلاق ـ ۲)
اور جو اللہ سے ڈرتا رہے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے،اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے وہ سوچ بھی نہ سکتا ہو۔
انہوں نے اپنے دروازے بند کرلیے اور عبادت میں مصروف ہو گئے اور کہا بے شک ہمارے لیے اللہ کافی ہے۔ نبی اکرمﷺ کو جب یہ بات پتہ چلی تو آپ نے ان سے فرمایا :کس چیز نے تمہیں ایسا کرنے کو کہا؟ انہوں نے کہا :اے اللہ کے رسولﷺ اللہ نے ہمارے رزق کا ذمہ لے لیا اس لیے ہم نے عبادت کو اختیار کرلیا۔ آپﷺ نے فرمایا:جس نے ایسا کیا اس کی عبادت قبول نہ ہو گی تمہارے لیے ضروری ہے کہ طلبِ رزق کرو۔
اس سے بڑھ کر اسلام میں کام کو جہاد کی ایک قسم قرار دیا گیا۔ نبی اکرمﷺ سے مروی ہے آپ نے فرمایا:حلال کی طلب جہاد ہے۔
کام کی اہمیت پر بہت ساری وجوہات کی بنیاد پر بہت زیادہ تاکیدات آئی ہیں۔ کام کے ذریعے انسان دوسرے پر بوجھ نہیں بنتا اس سے کاہل نہیں ہوتا اور اسلام نے دوسروں پر بوجھ بننے سے منع کیا ہے۔ اسلام نے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ انسان کھانے، پینے اور پہننے کے لیے اپنے ہاتھوں سے کمائے۔اسی میں انسان کے لیے عزت احترام اور انسانی شرف ہے۔ اس سب سے بڑھ کر اسلام نے کام کرنے کو عبادت شمار کیا ہے۔ نبی اکرمﷺ سے مروی ہے آپ نے فرمایا:عبادت کے ستر حصے ہیں سب سے افضل حصہ رزق حلال کی طلب ہے۔ دوسری طرف اسلام نے کام کی تقدیس کی ہے اور اس کی بنیاد پر عزت و شرف دیا ہے وہ کام جس قسم کا بھی ہو بس ایک شرط لگائی ہے کہ یہ کام شرعی طور پر جائز ہو۔کام جو بھی ہے بس اس میں بنی نوع انسان کے لیے خدمت ہونی چاہیے۔اس پر زمین کی تعمیر، اس کو آگے بڑھانا اس طرح کہ اس سے انسانیت کی خدمت ہوتی رہے۔
اسی طرح اسلام نے کام کو فرض کفائی قرار دیا ہے ۔ اگر وہ کام معاشرے کی ضروریات سے تعلق رکھتا ہو تو اس صورت میں اس کام کا کرنا واجب ہوجائے گا۔ اسلام کام کو انسانیت کی خدمت قرار دیتا ہے کیونکہ انسان ہر طرح کے کاموں کے محتاج ہوتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے ان کا اجتماعی زندگی کا نظام چل سکے۔ایک انسان اپنی تمام ضروریات کو پورا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔اس طرح ہر انسان دوسروں کی طرف اپنے لیے اور اپنے اہل عیال کے لیے محتاج ہے۔جب انسان وہ کام شروع کرتا ہے جس کا وہ ماہر ہوتا ہے تو اس طرح وہ دوسرے انسانوں کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔اگر ماہر لوگ جو کام کر سکتے ہیں وہ کام نہ کریں تو اس سے معاشرے کے لوگوں کا بہت نقصان ہو گا اور انسانی زندگی میں سختی اور پریشانی آ جائے گی۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ماہر شخص جب کام کرتا ہے تو معاشرے میں اس کی عزت و شرف میں اضافہ ہوتا ہے وہ معاشرے اور خاندان میں اپنی اہمیت کو محسوس کرتا ہے۔ جب کوئی شخص بے روزگار رہتا ہے اور کوئی کام نہیں کرتا تو معاشرے میں اس کی کوئی عزت نہیں ہوتی لوگ اسے الزم دیتے ہیں اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔عزت اس میں ہے کہ انسان خود کو دوسروں کی خدمت کے لیے پیش کرے۔ امام علیؑ نے فرمایا: ہر شخص کی قیمت وہی ہے جو وہ انجام دیتا ہے۔
اسی طرح فطری طور پر کاہلی کا نتیجہ فساد، جھگڑا اور دیگر انفرادی مشکلات ہیں اور معاشرے کی مشکلات الگ سے ہیں۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ انسان انفردی طور پر اپنی ضروریات کو مال سے پوری کرتا ہے کسی کے پاس مال کا نہ ہونا اس بات کا باعث بنتا ہے کہ وہ چوری،قتل،فراڈ اور دھوکہ دہی سے کام لیتا ہے۔ اسی طرح دیگر غیر شرعی اور غیر قانونی کاموں کو اختیار کرتا ہے تاکہ زندگی کی ضروریات کو پورا کر سکے۔ اس طرح انسانی زندگی کا نظام درہم برہم ہوتا ہے،معاشرتی زندگی میں خلل آتا ہے شارع مقدس کسی بھی صورت میں انسانوں سے ایسا نہیں چاہتا۔