حج روحانی تربیت کا ایک بہترین ذریعہ ہے اس کا انسانی نفس پر بہت گہرا اثر پڑتاہے کیونکہ اعمال حج کچھ ایسے لوازمات اور سرگرمیوں پر مشتمل ہیں جو انسانی نفس کو درست اور موثر تربیت فراہم کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ جیساکہ ہم دیکھتے ہیں کہ حج کسی مادی اور دنیاوی فائدے سے وابستہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک روحانی سفر ہے جو روحانی کمالات اور اعلیٰ درجہ تک لے جاتا ہے چنانچہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حج جیسے اعمال کی بجاآوری سے انسانی نفس غرور، تکبر، فخر ومباھات جیسی اخلاقی برائیوں سے پاک ہوجاتا ہے اورحاجی اللہ کے حضور عاجزی سے پیش آتے ہیں۔چنانچہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: جعله سبحانه علامة لتواضعهم لعظمته، وإذعانهم لعزته"
اللہ جل شانہ نے اس کو اپنی عظمت کے سامنے ان کی فروتنی و عاجزی اور اپنی عزت کے اعتراف کا نشان بنایا ہے
اور جب حاجی مناسک حج بجالارہے ہوتے ہیں تو اللہ کے نزدیک تمام حاجیوں کا مقام برابر ہیں، اس میں کوئی امیر و فقیر، عزت دار اور پستی کا فرق ہے اور نہ کوئی آقا اور غلام میں فرق ہے ۔ یعنی یہاں دنیاوی درجات کی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ درجات کا واحد معیار تقوی ٰ اللھی ہے۔جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ .) (الحجرات ـ13)،
تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے
جب حاجی میقات پہنچ کر احرام باندھتے ہیں تو تمام دنیاوی اور جسمانی لذات سے وہ باہر آتے ہیں تاکہ وہ معنوی اور روحانی لذات سے محظوظ ہوسکے۔ چنانچہ جب حاجی احرام باندھتے ہیں تو حالت احرام میں جن چیزوں کی ممانعت کی گئی ہے ان سے اجتناب کرنا ان پر لازم ہوجاتا ہے اور تمام مخصوص لذتوں سے اجتناب کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح سے حاجی پر قیمتی لباس کا پہننا حرام ہوجاتا ہے تاکہ وہ سادہ اور مختصر لباس زیب تن کرے۔ اسی طرح خوشبو سے معطر ہونا جیساکہ زعفران، عنبر اور عطر کے دیگر انواع سے، اسی طرح اپنی بیوی سے مجامعت کرنا، بوسہ لینا، اور مس کرنا بھی حرام ہوجاتا ہے ،نیز ہرقسم کی تزین و آرائش، بننا سنورنا، بدن پر تیل ملنا، خشکی کے جانور شکار کرنا، نباتات اور درخت کاٹنا، وغیرہ سب اس پر حرام ہوجاتا ہے۔
ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں یہ ادراک ہوتا ہے کہ حج کے تمام مناسک، اور سرگرمیاں انسانی روح کی تربیت اور اعلی منازل تک لے جانےمیں گہرا اثر رکھتی ہیں ۔اور یہ انسان کو عرفانی و معنوی سیر وسلوک اور روحانی بلندیوں تک لے جاتی ہیں۔ چنانچہ جب حاجی عرفات ، مزدلفہ اور منیٰ میں توقف کرتے ہیں، بیت اللہ کے اردگرد طواف کرتے ہیں، صفا اور مروہ کے مابین سعی کرتے ہیں جبکہ یہ تمام وہ مقدس مقامات ہیں جہاں بیٹھ کر دعا ومناجات سے بندہ خدا کے قریب تر ہوجاتا ہے ۔چنانچہ جب ان تمام مقامات سے حاجی واپس لوٹتے ہیں تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے گناہوں سے پاک پیدا ہوا تھا،اور خدا اس سے راضی ہوجاتا ہے ۔ اور ایک مومن کا یہی مقصد اور ہدف ہوتا ہے کہ اس کا رب اس سے راضی ہو۔ جیساکہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں
وقفوا مواقف أنبيائه، وتشبهوا بملائكته المطيفين بعرشه، يُحرزون الأرباح في متجر عبادته، ويتبادرون عند موعِدِ مغفرته
وہ انبیاء کی جگہوں پر ٹھہرتے. عرش پر طواف کرنے والے فرشتوں سے مشابہت اختیار کرتے اوروہ اپنی عبادت کی تجارت گاہ میں منفعتوں کو سمیٹتے ہیں اور اس کی وعدہ گاہ مغفرت کی طرف بڑھتے ہیں"
اور یہ بھی یاد رکھئے جب تک انسان کے اندر خضو وخشوع اور صرف رضایت پروردگارنہ ہو تو اس کےلئے حج کا ثواب کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ کیونکہ مناسک حج کا اصلی مقصد خدا سے قربت اور اس کی خوشنودی حاصل کرنا ہے اور یہ چیز خلوص نیت اور تطہیر قلب کے بغیر ممکن نہیں ہے۔لھذا حاجی کے لئے ضروری ہے کہ اس کی نیت خالص رضاے پروردگار ہو۔ چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے خوبصورت کلام میں ارشاد فرماتت ہیں:
"إذا أردت الحج فجرد قلبك لله من قبل عزمك من كل شاغل وحجاب كل حاجب، وفوض أمورك كلها إلى خالقك، وتوكل عليه في جميع ما يظهر من حركاتك وسكناتك، وسلم لقضائه وحكمه وقدره، وودع الدنيا والراحة والخلق، واخرج من حقوق تلزمك من جهة المخلوقين، ولا تعتمد على زادك وراحلتك وأصحابك وقوتك وشبابك ومالك، مخافة أن يصير ذلك عدواً ووبالاً"
جب بھی حج کا ارادہ کرو تو روانگی سے قبل اپنے دل کو ہر قسم کی مشغولیت اور رکاوٹوں سے پاک کرو اور اپنے دل کو خدا کے لئے خالص بناؤ ۔ اپنے تمام امور خدا کے سپرد کر دو اور ہر قدم پر خدا پر بھروسہ کرو اور اس کے حکم اور فیصلے کے سامنے تسلیم ہو جاؤ ۔ دنیا اور دنیا کی آسائش کو بالائے طاق رکھ کر عوام کے واجب حقوق کی ادائیگی میں کوشاں ہو۔ اپنے سامان سفر، دوستوں اور ہم سفروں اور طاقت و ثروت اور اپنی جوانی پر بھروسہ نہ کرو کیوں کہ اس بات کا خطرہ ہے کہ یہی تمہارے دشمن اور تمہارے لئے وبال جان نہ بن جائیں اور اس وقت تمہیں معلوم ہو جائیگا کہ خداوند عالم کی پناہ کے سوا اور کوئی بھی پناہ گاہ مضبوط نہیں ہے۔ اور خود کو اس طرح سے آمادہ کرو گویا واپس لوٹنے کی امید نہ ہو۔
وقال: "من ادعى رضا الله واعتمد على شيء سواه صيره عليه عدواً ووبالاً، ليعلم أنه ليس له قوة ولا حيلة ولا لأحد إلا بعصمة الله وتوفيقه، واستعد استعداد من لا يرجو الرجوع، وأحسن الصحبة، وراع أوقات فرائض الله وسنن نبيه وما يجب عليك من الأدب والاحتمال والصبر والشكر والشفقة والسخاء وإيثار الزاد على دوام الأوقات".
پھر امام علیہ السلام نے فرمایا جب کوئی خدا کی خوشنودی کا دعوی کرے لیکن وہ خدا کے علاوہ کسی اور پر بھروسہ کرتا ہے تو خدا اس کے لئے وہ دشمن اوروبال جان بنادے گا تاکہ اسے یہ معلوم ہوجائے کہ اس کو جو طاقت ملی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ کے علاوہ اور کوئی مضبوط پناہ گاہ اس کے لئے نہیں ہے۔ اور خود کو اس طرح سے آمادہ کرو گویا واپس لوٹنے کی امید نہ ہو۔اور بہترین اوقات احکامات خداوندی اور سنت بنوی کو پابندی کے ساتھ بجالانا ہے۔ اور اس کے علاوہ تمام اوقات میں شائستگی ، برداشت، صبر، شکر، شفقت، سخاوت، ایثار وغیرہ جیسی اچھایئوں کو اپنانا ہے۔
پس جب کوئی حاجی ان اہم ہدایات اور سفارشات پر عمل کرتا ہے اور پھر وہ حج سے واپس لوٹتا ہے تو حج کی قبولیت کے ساتھ ساتھ، اس کا اجرو ثواب اور رضایت اللھی شامل حال ہوتا ہے۔ اور وہ تمام معنوی، مادی واخلاقی گناہوں سےاس طرح پاک ہوکر لوٹتا ہے کہ گویا اس نے معمول کے طرز عمل کو اپناتے ہوئے حج کی تمام سعادتوں سے روحانی و معنوی فائدے حاصل کرلیئے ہیں۔ اور یہی حج کی حکمت اور فلسفہ بھی ہے۔