- 22 جمادى الاول 1446هـ -
- 22 جمادى الاول 1446هـ - 24 2024


اسلام کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کھلا ہے
1 شعبان 1440هـ

دین اسلام سماجی اور اجتماعی حقیقت پر مبنی ہے، جنہیں فلسفہ تخلیق اور انشاء ضروری قرار دیتا ہے، وہ فلسفہ ہے تنوع اور وسعت نظری جو کہ کسی بھی انسانی معاشرہ اور کمیونٹی کی بقاء اور استحکام کے لیے ضروری ہے، یہ حقیقت میں انسانی معاشرہ تنگ نظری اور کج فکری کے ساتھ ترقی نہیں کرسکتا، تنوع اور اجتماعیت کو دین مقدس اسلام میں اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ فقہی اور سماجی قانون سازی بھی میں اسے ایک مسلمہ حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے ، اور کسی بھی فیصلہ اور قانون سازی کے وقت معاشرتی اور اجتماعی مفادات  کو شخصی مفادات پر مقدم کیا جاتا ہے۔ اسلام اس فلسفہ کے مقابل پائے جانے والے ہر فلسفہ اور نظریہ کو رد کرتا ہے، اور اسے غیر اسلامی قرار دیتا ہے، اسلام کا معاشرے اور معاشرے میں زندگی بسر کرنے والوں کے بارے میں یہ نظریہ ہے کہ وہ یا تو تیرا دینی بھائی ہے (اعتقادی اور نفسیاتی طور پر تمہارے برابر ہے)، یا کم از کم انسان ہونے اور اللہ کی مخلوق ہونے  کے اعتبار سے  تجھ جیسا انسان ہے۔  اور دوسروں کے ساتھ تعلقات میں جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ عدل وانصاف، تقویٰ وپرہیزگاری اور اخلاقیات ہیں، ان کے علاوہ کوئی بھی چیز اس قابل نہیں ہے کہ اسے وجہ قرار دیکر کسی کے ساتھ دوستی اور تعلق پیدا کرے۔ جیسا کہ قرآن حکیم کہتا ہے: لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ۔ (ممتحنہ: ۸) ،

جن لوگوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اللہ تمہیں ان کے ساتھ احسان کرنے اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا، اللہ یقینا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

آیت کریمہ میں یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ اگر کافر ذمّی ہوں یا ان کے ساتھ معاہدہ ہو، یعنی حالت جنگ میں نہ ہوں تو ایسے کافروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے، رشتہ داری کا لحاظ رکھنے اور ان کے ساتھ انصاف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

لَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ قَالُوَاْ إِنَّا نَصَارَى ذَلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَاناً وَأَنَّهُمْ لاَ يَسْتَكْبِرُونَ (مائدہ: ۸۲)،

(اے رسول) اہل ایمان کے ساتھ عداوت میں آپ  یہود اور مشرکین کو پیش پیش پائیں گے اور ایمان والوں کے ساتھ دوستی میں انہیں قریب تر پائیں گے، جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں عالم اور درویش صفت لوگ ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے ۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ۔ (حجرات: ۱۳)۔

اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والا، باخبر ہے۔

ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نا فقط اہل کتاب کے ساتھ بلکہ اسلامی معاشرہ میں رہنے والے ہر فرد کے ساتھ، خواہ وہ کسی مذہب اور مکتب کے ساتھ تعلق رکھتا ہو اچھے تعلقات قائم کرنے اور معاملات کرنے کا حکم  دے رہا ہے ۔ اس تناظر میں اگر مدینہ منورہ کی  پہلی اسلامی ریاست میں رہنے والے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ مسلمانوں کے سلوک کی طرف دیکھیں تو یہ چیز روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی  ہے کہ اس وقت کے مسلمان اپنے مخالفین کے ساتھ  حسن سلوک، احترام، اور نہایت ہی ادب کے ساتھ پیش آتے تھے، اور ان کی ہر قسم کی مدد کرتے تھے۔ یہ رویّے دین مقدس اسلام کی عظمت اور وسعت نظری کی دلیل ہیں۔