مدینہ
منورہ میں اسلامی حکومت کا قیام مختلف مراحل میں مکمل ہوا، جب حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے
مکہ مکرمہ کو چھوڑا اور مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی، تو اس وقت کے
مسلمانوں کے سیاسی، اقتصادی، اور اجتماعی حالات مستحکم نہیں تھے،
لیکن جب مدینہ منورہ میں آپ
صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے
ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم
نے ان
تمام سیاسی، اجتماعی، اقتصادی، عسکری اور دفاعی امور کی طرف توجہ دی
اور آپ
صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے
ایک ایسی ریاست قائم کی جس کی بنیاد عدل اور انصاف پر مبنی تھی، جس
میں ہر آدمی
کے
حقوق کا لحاظ رکھا گیا تھا، کسی بھی شہری کو دوسروں کے حقو ق کی
پامالی کی اجازت نہ تھی، اور نہ ہی کسی
کو
دوسروں پر ظلم
وستم
کرنے دیا جاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم
کی
تمام تر توجہات
مدینہ
کو ایک فلاحی ریاست بنانے پر مرکوز تھیں، پس آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے اسی مقصد کے لیئے تمام تر وسائل کو استعمال کیا۔ آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنگ وجدال کو
قطعی
ناپسند فرماتے
تھے، اور جنگ آپ
صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آخری آپشن تھا، اور جتنی بھی جنگیں لڑی
گئیں وہ سب دفاعی نوعیت کی تھیں اور دشمنوں کے
مظالم
اور
شر سے مسلمانوں کو بچانے کے لیے تھیں۔ آپ
صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ میں لڑی جانے والی جنگوں میں
کوئی ایک بھی ایسی جنگ نہیں تھی جو آپ
صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی
رسالت اور انسانی اقدار کے خلاف ہو، آپ
صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے
جنگوں میں بھی اخلاق ِاسلامی کا خیال رکھا۔ آپ
صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ میں لڑی جانے والی مشہور جنگیں
اور غزوات درجہ
ذیل
ہیں:
جنگ بدر
جنگ بدر کو مشرکین قریش کے خلاف مسلمانوں کا پہلا عسکری تجربہ شمار کیا جاتا ہے، اور یہ جنگ 17 رمضان المبارک سنہ ۲ ہجری کوبدر کے مقام پر لڑی گئی۔چونکہ اسلام مدینہ میں تیزی سے ترقی کر رہا تھا اور یہ بات قریش مکہ کے لیے بہت تکلیف دہ تھی اور وہ مسلمانوں کو ختم کرنے کے منصوبے بناتے رہتے تھے۔ اللہ نے ا س پہلے معرکہ میں اہل ایمان کو شاندار فتح عطا فرمائی۔ِاس معرکہ میں مسلمانوں کی تعداد 313 تھی اور وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت میں کفار کے خلاف نبردآزما تھے، اور کفار قریش کی تعداد ۱۰۰۰ تھی، اور ان کی قیادت ابوسفیان کررہاتھا۔ دونوں فریقین بدر کے مقام پر ایک دوسرے کےمدمقابل ہوئے۔ اس جنگ میں کفار قریش جنگی سازوسامان اور افرادی قوت کے لحاظ سے مسلمانوں سے بہت زیادہ قوی تھے۔ لیکن اللہ کی غیبی امداد اور مسلمانوں کی شجاعت اور پامردی کے نتیجے میں مشرکین بہت جلد مغلوب ہوئے اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ اس جنگ میں کفار قریش کے ۷۰ افراد مارے گئے، اور اتنی ہی تعداد میں کفار گرفتار ہوئے، جبکہ مسلمانوں میں سے صرف ۱۴ جانثاروں نے جام شہادت نوش کیا ، اور مسلمانوں میں سے کوئی بھی اسیر نہیں ہوا۔ اس فتح اور کامرانی کے نتیجے میں پورے جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کی دھاک بیٹھ گئی اور کفر کی ہوا اکھڑ گئی ، مسلمانوں کو اس جنگ کے نتیجے میں بہت سے سیاسی ، اور معاشی فوائد حاصل ہوئے، اور ان کو اپنے عقائد کے مطابق عمل کرنے اور ان کی تبلیغ وترویج کی مکمل آزادی مل گئی، اس کے ساتھ ہی قریش کا رعب اور دبدبہ خاک میں مل گیا اور مدینہ کے یہود اور منافقین مایوس ہوگئے۔ اس کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے والوں کے ایمان اور اعتقاد میں اضافہ ہوا، اور اسلام لانے والوں کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ مسلمانوں کو اس غیر متوقع فتح وکامرانی نے بہت بڑا سبق دیا کہ اگر نظم وضبط کا خیال رکھا جائے، صحیح قیادت میسر آئے، اور اللہ تعالیٰ پر ایمان قوی ہو تو کسی بھی طاقتور فاسق وفاجر اور ظالم ومنکر گروہ کو شکست دینا کوئی مشکل کام نہیں ہے، جیسا کہ اس جنگ میں مسلمانوں کو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے مثال قیادت اور ان کی طرف سے منتخب شدہ بہادر سپہ سالار حضرت علی ابن ابی طالبؑ کی رہبری حاصل تھی،یقینا یہ وہ ہستیاں تھیں کہ جن کا ایمان محکم، اور اللہ سے رشتہ قوی تھا ، یہی چیزیں، غیبی امداد، اور ملائکہ کے نزول اور حق و حقیقت کی کامیابی کا سبب بنے، اور یہ فتح وکامیابی کفار ومنافقین کی طرف سے ہونے والے ظلم وستم کے سد باب کے لیے بہت ہی موثر ثابت ہوئی۔
جنگ احد
غزوہ بدر میں مسلمانوں کو شاندار فتح ہوئی تھی، جبکہ کفار قریش کو شکست ہوئی تھی، پس یہ شکست کھانے کے بعد مشرکینِ مکہ کے حسد اور غصے میں اضافہ ہوا، اور وہ نہ صرف اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے پر تُل گئے بلکہ ان تجارتی راستوں پر دوبارہ قبضہ کرنے کابھی منصوبہ بنایا جن کی ناکہ بندی مسلمانوں نے غزوہ بدر کے بعد کر دی تھی۔ کفار قریش نے مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لیے مال و دولت اکٹھا کرنا شروع کردی، اور جنگ کی بھر پور تیاری کی اور انہوں نے ۴۰۰۰ ا فراد یا بعض روایات کے مطابق ۳۰۰۰ افراد پر مشتمل ایک لشکر تیار کیا، جن میں سے سات سو زرہ پوش جنگجو، 200 گھوڑے اور 300 اونٹ تھے ۔ یہ لوگ کچھ عورتیں بھی ساتھ لیکر آئے تھے جو اشعار پڑھ پڑھ کر مشرکین کو جوش دلاتی تھیں اور ان کی غیرت وحمیت کو جگا رہی تھیں۔ اس جنگ میں کفار قریش کی طرف سے بہت بڑی تعداد میں غلاموں نے بھی شرکت کی، جنہیں ایک طرف تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام دشمنی کی تربیت کی گئی تھی جبکہ دوسری طرف آزادی اور مال ودولت کا لالچ دیا گیا تھا۔ اس جنگ میں اس اہتمام کا ایک مشترکہ مقصد یہ تھا کہ اسلامی دارالحکومت مدینہ منورہ کو صفحہ ہستی سے مٹایا جائے، اور اسلام کے نام لیواوں کا نام ونشان نہ رہے۔
نبی اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کفارکے ناپاک عزائم سے آگاہ تھے، اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لشکر کو اس جنگ میں عظیم فتح سے ہمکنار کرنے کے لئے آمادہ کرنا شروع کیا، اور جنگی نقصانات کو کم سے کم کرنے کی غرض سے مدینہ کے باہر جاکر جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا، اس مقصد کے لیے ۱۰۰۰ افراد پر مشتمل مسلمانوں کا لشکر تیار کیا، ان میں سے ۳۰۰ افراد جو منافق تھے وہ جنگ سے پہلے ہی فرار ہوگئے جبکہ باقی ۷۰۰ افراد جنگ لڑنے کے لیے تیار ہوئے۔
یہ معرکہ مدینہ منورہ کے باہر احد کی پہاڑی کی حدود میں ہفتہ کے دن ۷ شوال المکرم سنہ ۳ ہجری کو مسلمانوں اور کفار قریش کے درمیان برپا ہوا۔ ایسے میں مسلمانوں کی قیادت حضرت رسول اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں میں تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لشکر کو منظم طریقے سے مختلف حصوں میں تقسیم کیا، اور ہر دستہ کی قیادت ایک بہادر سپہ سالار کے حوالہ کی، مثلا؛ تیر اندازوں کو پہاڑی کے نزدیک رہنے کا حکم دیا، ان کو یہ حکم بھی دیا گیاتھا کہ جنگ کے اختتام تک ہر حالت میں وہیں رکیں ، اور اس جگہ کو چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے ، تاکہ دشمنوں کی شیطانی چالوں سے افواج اسلام کو آگاہ رکھاجاسکے اور پیچھے بیٹھ کر ساتھ حملہ آور دستے کی مدد کی جاسکے۔
اس جنگ میں بھی عددی قوت اور اسلحے کے اعتبار سے دونوں لشکروں میں کوئی تقابل نہ تھا، کفار قریش دونوں اعتبار سے مسلمانوں کی نسبت زیادہ وسائل اور افراد ی قوت رکھتے تھے، تاہم جنگ بدر میں جو فتح وکامرانی ہوئی اور اللہ کی مدد جو شامل ہوئی تھی، ان کو دیکھتے ہوئے کفار پر مسلمانوں کا رعب اور دبدبہ موجود تھا، اور مسلمانوں کی واضح کامیابی یقینی نظر آرہی تھی، اس کی واضح مثال یہ ہے کہ پہلے ہی مقابلہ میں کفار قریش میں شکست کے آثار نمایاں ہو ئے، لیکن مسلمانوں کے تیر اندازوں کی حضرت رسول اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کی وجہ سے جنگ کا نقشہ بدل گیا۔ اوران تیر اندازوں نے جب دیکھا کہ کفار قریش کو شکست ہورہی ہے اور میدان چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں تو ان میں سے بہت سے تیر انداز باوجود اس کے کہ انہیں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف واضح ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ ہر حالت میں مسلمانوں کے عقبی مورچے کی سختی سے حفاظت کریں اور کسی صورت میں بھی اپنا مورچہ نہ چھوڑیں لیکن وہ اپنی مقررہ جگہوں کو چھوڑ کر مال غنیمت کے پیچھے پڑ گئے، اور کفار نے اس موقعہ کو غنیمت جانتے ہوئے شدید حملہ کردیا پس مشرکین کے پیادوں کے تعاقب میں مصروف مسلمان سپاہیوں پر جب پشت سے حملہ کیا تو مسلمانوں کی صفیں تتر بتر ہوگئیں اور اس کے ساتھ ہی کفار ومنافقین نے یہ جھوٹی افواہ پھیلا دی کہ حضرت رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہوگئے ہیں، ان کی اس جھوٹی خبر نے مسلمانوں کو مزید کمزرو کردیا، اور ان کی پریشانی اور افراتفری اس قدر بڑھ گئی کہ پورا لشکر بھاگ گیا صرف حضور اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے جانثار، مخلص اور نڈر جنگی سپہ سالار حضرت علی ؑ میدان جنگ میں ڈٹے رہے، اور حضرت علی ؑ نے اس قدر استقامت دکھائی کہ جبرائیل امین ؑ نے آسمان سے یہ صدا بلند کی: " لا فتى الا علي ولا سيف الا ذو الفقار " اس آسمانی ندا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سلامتی اور زندہ ہونے کی خبر نے بھاگتے ہوئے مسلمانوں میں نئی جان ڈالی، ان کے حوصلے بلند ہونے لگے، اور وہ پھر سے آہستہ آہستہ لوٹنے لگے،اس صورت حال میں کفار ومشرکین کے حوصلے پست ہونے لگے۔ چنانچہ جیسے ہی جنگ ختم ہوئی تو مسلمانوں کو یہ معلوم ہوگیا کہ ان کے نبی، رہبر اور پیشوا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت سے گہرے زخم لگ چکے ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محافظ اور میدان جنگ کے عظیم ہیرو علی ابن ابی طالب ؑ بھی زخمی ہوگئے ہیں، اور معرکہ احد کے بہت سارے جنگی سپہ سالار جیسے حضرت حمزہ بن عبد المطلبؑ (ابو سفیان کی بیوی ہندہ اور اس کے ساتھ کچھ خواتین نےانتہائی بے دردی اور وحشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمان شہداء کے ناک اور کان کاٹے اور ہندہ نے حضرت حمزہؑ کا کلیجہ تک نکال کر چبایا ہے پس اسی دن سے ایک دہشت گردی کی بنیاد رکھی جو آج کل کے داعشی اور القاعدہ کے درندوں کے لیے نمونہ عمل بن گئی) ، مصعب بن عمیر اور دیگر ۷۰ کے قریب مسلمان شہید ہوگئے۔ یہ ساری شہادتیں، قائد عظیم، رہبر انسانیت اور نبی خاتم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایات پر تیر اندازوں کے عمل نہ کرنے، جنگی غنائم کے لالچ اور عددی کثرت پر دھو کے کی وجہ سے واقع ہوئیں۔
جنگ خندق / جنگ احزاب
جنگ بدر اور احد کو واقع ہوئے ابھی زیادہ عرصہ گزرا نہیں تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابھی تک پوری طرح آرام بھی نہ فرمایا، مشرکین قریش نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان وشوکت، اور دین مقدس اسلام کی مسلسل کامیابیوں سے خوفزدہ ہوکر دین حق کی آواز کو دبانے، اور اس کی تبلیغات کو روکنے کے لیے ایک نئی جنگ کی تیاری شروع کردی۔ جس کے لیے انہوں ایک بہت بڑا لشکر تیار کیا تاکہ مدینہ کے اسلامی دار الحکومت پر یلغار کی جاسکے۔
۵ شوال المکرم سنہ ۵ ہجری کو مشرکین قریش نے قبیلہ غطفان، بنو نظیر، اور بنو قریظہ کے یہودیوں سے مل کر اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا پروگرام بنایا، اور اس سلسلے میں انہوں نے دیگر عرب قبائل کو بھی دعوت دی، اور یوں کئی لشکر وں کو تیار کیا گیا، تاکہ دین مقدس اسلام جزیرۃ العرب سے ختم کیا جا سکے، اور نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کیا جاسکے جب یہ خبر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلیٰ سطحی کمان کی مجلس شوریٰ منعقد کی اور دفاعی منصوبے پر صلاح مشورہ کیا، جس کے بعدمشرکین کا مقابلہ کرنے کی غرض سے جناب سلمان کی تجویز پر مسلمانوں نے شہر مدینہ کے اطراف میں ایک خندق کھود لی۔ اس جنگ میں مشرکین اور یہود کی سپاہ 10000 افراد پر مشتمل تھی جبکہ مسلمین کی سپاہ میں 3000 افراد شامل تھے۔ یہ خندق کھولنے کی تجویز حضرت سلمان فارسی ؓ نے ان لفظوں میں پیش کی تھی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! فارس میں جب ہمارا محاصرہ کیا جاتا تھا تو ہم اپنے گرد خندق کھود لیتے تھے۔ جناب سلمان کی اس تجویز کو سراہا گیا اور پھر ہر دس آدمی کو چالیس ہاتھ خندق کھودنے کاکام سونپ دیا اس خندق کو کھودنے میں تمام صحابہ مہاجرین وانصارؓ شامل تھے اور خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی بہ نفس نفیس خندق کھودنے اور مٹی ڈھونے میں بھی حصہ لے رہے تھے۔ اس طرح محض چھہ دنوں کے اندر مدینہ کے شمال غربی رُخ پر ایک خندق کھُدوا لی گئی اور کوہ سَلْع کی اوٹ پر لے کر 3 ہزار فوج کے ساتھ مسلمان خندق کے دفاعی حصار میں کفار سے مدافعت کے لیے تیار ہو گئے جبکہ اہل عرب اس طرح کے دفاع سے نا آشنا تھے،چنانچہ خندق کو دیکھ کرکفّار و مشرکین متحیّر ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ ایسی تدبیر ہے جس سے ہم عرب لوگ تو واقف نہیں ، اسی دوران خندق کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے دشمنوں کی جنگی چالوں اور ان کی افرادی قوت سے باخبر رہنے کے لیے رصد گاہیں بھی بنالیں جبکہ سابقہ جنگوں کی طرح اس جنگ میں بھی مسلمان لشکر کے علمدار اور اس کی سپہ سالاری کے فرائض حضرت علی ابن ابی طالب ؑ کے سپرد تھے،اور باقی مسلمان آپ ع کے مددگار تھے۔ اس جنگ میں عرب کے بہت بڑے نامور اور بہادر افراد بھی شریک تھے، ان میں سے ایک عمرو بن عبد و تھا جو عرب کا مشہور سورما تھا اور اس کی دہشت سے لوگ کانپتے تھے اور اسے ایک ہزار سواروں کے برابر سمجھا جاتا تھا ۔ وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ خندق پھلانگ کر مسلمانوں کی جانب آیا اور جنگ کے لئے مبارز طلب کیا؛ مسلمانوں نے خوف کے مارے خاموشی اختیار کرلی۔ بالآخر حضرت امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالبؑ رضاکارانہ طور پر اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت سے میدان میں آئے اور عمرو بن عبدود کو ہلاک کر ڈالا۔ حضرت امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالبؑ علیہ السلام کا یہ اقدام جو عمرو کے قتل پر منتج ہوا ـ جنگ میں اسلام کی فتح و نصرت اور کفار کی شکست میں اس قدر مؤثر تھا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ضَربَةُ عَليٍ يَومَ الخَندقِ افضلُ من عبادة الثقلين یعنی غزوہ خندق کے روز حضرت امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالبؑ علیہ السلام کی ایک ضربت ثقلین ( جنات اور انسانوں) کی عبادت سے بھی افضل و برتر ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمرو کی للکار کے بعد حضرت علی ؑ کے میدان میں آنے پرفرمایا: برز الإيمان كله إلى الشرك كله یعنی آج پورا ایمان پورے شرک کے مقابلے میں میں آیا ہے۔نیز یہ بھی منقول ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: برز الإيمان كله إلى الکفر كله ؛ یعنی آج پورا ایمان پورے کفر کے مقابلے میں میں آیا ہے۔ عمرو ابن عبدود کے قتل کے ساتھ کفار ومشرکین کی ہمت ختم ہوگئی، اور یوں یہ جنگ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم جنگی تکنی حضرت ک، علی ابن ابی طالب ؑ کی بے مثال بہادری اور جناب سلمان فارسی رضوان اللہ تعالی کے حکیمانہ مشورہ کی بدولت کفارومشرکین اور یہودیوں کی شکست کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی اور مشرکین کو بہت بھاری نقصان اٹھانا پڑا، جس کے بعد نہ صرف ان سے ہر قسم کی لشکر کشی کا امکان سلب ہوا بلکہ مدینہ منورہ میں اسلامی حکومت کی طاقت اور استحکام میں زبردست اضافہ بھی ہوا۔