جب ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرتے ہوئے اور ا ٓپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زندگی نامہ کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں تو ہم آپ کے اس قول کو "أنا رحمة مهداة"، کہ میں سراپا رحمت ہوں کے مفہوم اور حقیقت کو بہتر درک کرسکتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایسی ہستی اور شخصیت کے مالک تھے کہ جن سے صرف اچھائی ہی صادر ہوتی تھی، آپ کا طرز تکلم باقی تمام انسانوں سے جداگانہ تھا، اگر ہم یہ کہیں تو مبالغہ نہ ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انداز تکلم اور کلام دونوں ہی جداگانہ تھے اور ابھی تک بشر اس کی حقیقت جاننے سے قاصر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شیرین زبان تھے اور آپ نے کبھی بھی نامناسب اور ناپسندیدہ گفتگو نہیں فرمائی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بھی کسی کے لیے نازیبا الفاظ استعمال نہیں کی اور نہ ہی فحش گفتگو کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مشن، دین کی تبلیغ، اور امت کی ہدایت کے لیے طرح طرح کی مشکلات اور ناقابل تحمل مسائل کا سامنا کیا، لیکن تمام تر مشکلات کے باوجود کبھی بھی کوئی ایسی بات نہیں فرمائی کہ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت پر حرف آئے۔ یہ حالانکہ مشکلات اتنی سخت تھیں کہ اگر کسی اور عادل شخص کے سامنے بھی پیش آتیں تووہ بھی پریشانی اور غضب کی وجہ سے کچھ بھی کہہ سکتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف صبر اور حسن اخلاق کا مظاہرہ کیا بلکہ ان تمام دشمنوں کو معاف بھی فرمایا جو ایسی مشکلات پیدا کرتے تھے۔ تاریخ لکھتی ہے کہ ایک مرتبہ آپ سے تقاضا کیا گیا کہ آپ ان مشرکین کے لئے بد دعا کریں جو آپ سے ہمیشہ جنگ کرتے رہتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کہہ کر رد کردیا کہ مجھے کسی پر لعنت بھیجنے کے لیے مبعوث نہیں کیا گیا بلکہ مجھے رحمۃ اللعالمین بناکر بھیجا گیاہے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ تشویش اپنے کارِ نبوت اور اپنے اھداف کے بارے میں تھی۔ آپ چیزوں کی ظاہری خوبصورتی سے ہٹ کر ان کی حقیقت اور جوہر کو اہمیت دیتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں حضرت انس بن مالک کا بیان ہے کہ میں نے پورے دس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی مجھے اُف تک نہیں کہا اور میرے کسی کام پر یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کیوں کیا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا۔ بلاشبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ محاسن اخلاق کے حامل تھے۔ باوجود اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے علم لدنی میں سے علم عظیم عطا کیا تھا، اس کے باوجود آپ جب عام لوگوں سے گفتگو کرتے تھے تو ان کی سمجھ اور فہم کے مطابق آسان ، قابل فہم اور سلیس الفاظ میں گفتگو فرماتے تھے ، اور گفتگو کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لب مطہر پر مسکراہٹ ہوتی تھی، آپ لوگوں کے علم اورعقل کے مطابق الفاظ کا چناو کرتے تھے اور موثر انداز میں ان سے گفتگو کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ہم انبیاء کو اللہ تعالیٰ کی طر ف سےامر ہوا ہے کہ لوگوں سے ان کی عقل ودانش کے مطابق گفتگو کریں۔
منظقِ محمدی:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عظیم مرتبے اور منزلت پر فائز ہونے کے باوجود لوگوں کے ساتھ نہایت عاجزی اور فروتنی کے ساتھ پیش آتے تھے، آپ کی محفل میں کوئی بھی شخص جب داخل ہوتا تھا تو آپ یہ خیال کئے بغیر کہ وہ امیر ہے ہا غریب ،اس کے استقبال کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی کھانا کھاتے تھے تو کسی چیز سے ٹیک لگا کر نہیں کھاتے تھے، اور یہ روش آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت تک برقرار رہی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ میں یہ بھی ایک نمایاں صفت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی کو بلانا چاہتے تھے یا کوئی کام انجام دینا چاہتے تھے تو جب تک وہ کام آپ خود بجالاسکتے تھے اسے خود انجام دیتے تھے اور کسی کواس کا حکم نہیں دیتے تھے، آپ چیزیں لینے کے لیے خود بازار جاتے تھے، اور اپنا سامان خود اٹھا کر لاتے تھے، گھریلو امور میں اپنی ازواج کا ہاتھ بٹاتے تھے، ہمیشہ اپنے اہل وعیال کی خدمت کرتے تھے۔ اسی طرح جب آپ کے اصحاب کسی کام کو انجام دینا چاہتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی بھی مدد کرتے تھے، جیسا کہ تاریخ لکھتی ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرتِ مدینہ کے فوراً بعد مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور خود بھی اس کی تعمیر میں بھر پور شرکت کی، اسی طرح جنگ احزاب میں جب خندق کھودنے کا عمل شروع ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی اس میں شرکت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ سارے افعال اور اعمال آپ کے اس جملہ کی تصدیق کرتے ہیں جو آپ اپنے اصحاب سے کہا کرتے تھے: مجھے جانتا ہوں کہ تم لوگ میرے لئے کافی ہو، لیکن مجھے یہ ہرگز پسند نہیں ہے کہ میں اپنے آپ کو تم سے جدا اور الگ رکھوں، بتحقیق اللہ تعالیٰ اپنے اس بندہ کو پسند نہیں کرتا جو جو اپنے آپ کو اپنے ساتھیوں سے جدا سمجھتا ہے۔